نیب ملک بھر سے بدعنوانی کے
خاتمہ کے لیے پُرعزم ہے... قمر زمان
نیب کے چیئرمین چودھری قمر زمان نے کہا ہے کہ ''نیب ملک بھر سے بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے پُرعزم ہے‘‘ لیکن یہ پُرعزم ہونا بھی ڈرتے ڈرتے ہی اختیار کیا ہے کیونکہ حکومت نے اب تک لوڈشیڈنگ اور کرپشن ختم کرنے وغیرہ جیسے کام کے بارے میں بھی پُرعزم ہونے کا اعلان کیا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں نیب جن لوگوں کو کرپشن کے ضمن میں پکڑنے میں پُرعزم ہوتی ہے‘ حکومت ان کے معاملہ پر 'گوسلو‘ یا درگزر کے لیے پُرعزم ہوتی ہے اس لیے دونوں کا کام باہمی تعاون کے ساتھ تسلی بخش طور پر چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ادارے کے قیام کا مقصد بدعنوانی کے خلاف جنگ اور معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ ہے‘‘ اور یہ اس میں اسی حد تک کامیاب ہو رہا ہے جس حد تک حکومت عوام کے مسائل کے حوالے سے کامیاب ہے جس کا ثبوت تشہیری مہم سے بھی ہوتا ہے کہ جس کا خرچہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ آنے والے روپے سے بھی ماشاء اللہ زیادہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''2014ء میں بدعنوان عناصر سے 4 ارب سے زائد رقم ریکور کی‘‘ اور پلی بارگیننگ کے ذریعے اتنی ہی رقم انہیں خداترسی کے طور پر ہضم کرنے کی بھی اجازت دے کر چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ دوبارہ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر شامل ہوں اور بعدازاں اس میں سے ہمارا حصہ ادا کرنے کے قابل ہو سکیں تاکہ ہماری گاڑی بھی چلتی رہے اور اُن کی بھی اور اس طرح رفتہ رفتہ معاشرے سے بدعنوان عناصر کا خاتمہ بھی ہوتا رہے اور ملک بھر کو قسط وار کرپشن کی لعنت سے بھی پاک کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب اہلکار بدعنوانی کے خلاف ضابطۂ اخلاق اور عدم برداشت کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘‘ اور حکومت اکثر اوقات محض انسانی ہمدردی کی بناء پر ہمارا ہاتھ روک دیتی ہے کیونکہ وہ بھی کافی نرم دل واقع ہوئی ہے اور کل کلاں اپنے مخالفین سے بھی اسی انسانی ہمدردی اور نرم خوئی کی توقع رکھتی ہے۔ آپ اگلے روز نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ادب دوست
لاہور سے شائع ہونے والا یہ ماہنامہ جو بالعموم نظر انداز ہو جاتا ہے‘ ہمارے دوست اور اس کے بانی جناب اے جی جوش کی یادگار ہے۔ میں خود اس کے مستقل لکھنے والوں میں شامل رہا ہوں کیونکہ ہوتا یہ تھا کہ پرچے کی تیاری شروع ہوتی تو جوش صاحب اپنا ڈرائیور بھیج کر تحریر منگوا لیتے لیکن اب ادھر سے اس طرح کا کوئی تردد ہوتا ہے اور نہ مجھے یہ توفیق ہوتی ہے کہ خود کوئی چیز بھیج دوں۔ بہرحال اس کا تازہ شمارہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں قابل ذکر مواد موجود ہے اور معروف لکھنے والوں کی نگارشات بھی شامل ہیں جبکہ شاعری کا حصہ بطور خاص لائق تحسین ہے جس میں سے کچھ نمونے قارئین کے تفنن طبع کے لیے شامل کیے جا رہے ہیں۔
نجانے کیا مرے اندر پگھلتا رہتا ہے
سرشکِ خوں ہی میں دن رات ڈھلتا رہتا ہے
بلا جواز نہیں میرا گریہ پیہم
ندی بھری ہو تو پانی اچھلتا رہتا ہے
جو آگ دل میں لگی ہے وہ چھپ نہیں سکتی
دھواں مکان سے باہر نکلتا رہتا ہے
ذرا سا ہو گیا نقصان تو برا مت مان
یہ کاروبارِ محبت ہے‘ چلتا رہتا ہے
میں کل بھی ویسا ہی تھا جیسا آج ہوں طالب
یہ آئینہ ہے جو شکلیں بدلتا رہتا ہے
(طالب انصاری)
کرب تحریر سے نکل آیا
رنگ تصویر سے نکل آیا
بات بنیاد کی نکل آئی
عیب تعمیر سے نکل آیا
کتنا اچھا ہے ناتواں ہونا
پائوں زنجیر سے نکل آیا
وار اتنا شدید تھا میرا
زخم شمشیر سے نکل آیا
اب وہ تنہا کھڑا ہوا ہے کہ میں
اس کی تصویر سے نکل آیا
(توقیر عباس)
سائیں مرے
بس ویسا روپ ہے سائیں مرا... مجھے جیسا چاہے تو... مجھے دیکھے بات کرے تو میں... گل رخ‘ مہ وش‘ مہ رُو... ترے لہجے کی نرمی سے ملے... مری سانسوں کو خوشبو... من بہتے مینہ کی سرگوشی... تن جنگل کا جادو... اور روٹھے مجھ سے دور رہے... دیکھے نہ مجھے گر تو... میرے پیروں نیچے ریت جلے... مرے اندر گونجے ہو... من سوئے بن کی خاموشی... تو تپتے تھل کی لُو۔
(عنبرین صلاح الدین)
پرچے کے مدیر اعلیٰ خالد تاج اور مدیر مسئول ڈاکٹر سعید اقبال سعدی ہیں۔ یہ لبرٹی مارکیٹ گلبرگ سے شائع ہوتا ہے۔ قیمت20روپے۔
آج کا مقطع
پوچھا تو ناچار ظفرؔ نے
اپنی ذات بتائی روٹی