تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     30-06-2015

آنسو آخر میں

جمہوری روایات کو پامال کرنے اور کرپشن سے مالامال ہونے والے حکمران‘ خوش قسمت بھی بہت ہیں کہ کرپشن اور لوٹ کا مال‘ جمع کرنے سے عدیم الفرصتی کے باوجود‘ ان کی وہ خدمت ازخود ہو رہی ہے‘ جس کے لئے انہیں علیحدہ وقت صرف کرنے کی ضرورت تھی۔ سچ پوچھئے‘ تو قدرت ان کے ساتھ ہے۔ جمہوریت کے خدائی خدمت گار‘ مسلسل ان کے کام آ رہے ہیں۔ جب بھی ان کی حکومت خطرے میں پڑتی ہے‘ یہ خدائی خدمت گار فوراً میدان میں آ جاتے ہیں اور اس کے حق میں مہم چلا کر‘ آمریت سے خوفزدہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جمہوریت کے حق میں رٹے رٹائے دلائل دہرا کر ‘ لوٹ مار کرنے والوں کو سہارا دینے لگتے ہیں۔ گزشتہ سال کے آخری دنوں میں‘ اس حکومت کا تخت لرزنے لگا تھا۔ خدائی خدمت گار جوکسی نہ کسی راستے سے فیض یاب ہو رہے ہیں‘ سر پہ کفن باندھ کر‘ حکمرانوں کے تحفظ کے لئے میدان میں اترے۔ ایک طرف سے ان پر قدرت مہربان ہو رہی تھی کہ دہشت گردوں نے سانحہ پشاور انجام دے کر صورتحال کا رخ ہی بدل دیا۔ عمران خان کی تحریک‘ معصوم بچوں کے خون میں ڈوب گئی۔ حکومت نے ماتمی لباس پہن کر ساری اپوزیشن کو شریک غم کر لیا۔ حتیٰ کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے میںپیش پیش‘ عمران خان بھی تحریک کو ملتوی کر کے‘ صف ماتم پر جا بیٹھے اور حکومت نے شہیدوں کے خون سے خوب نفع کمایا۔ اقتدار کے جو دن ان کے ہاتھ سے نکلتے نظر آ رہے تھے‘ ان پر گرفت مضبوط ہو گئی اور اقتدار کی جو مہلت مال غنیمت کے طور پر ہاتھ لگی تھی‘ اس کا تیزرفتاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘ قطر کی گیس کا غیرسرکاری سودا آناً فاناً کر کے‘ آنے والے 10 سالوں کا اربوں روپیہ پکا کر لیا گیا اور اس کے علاوہ جہاں جہاں خرچ ہو سکتا تھا‘ اس سے فٹافٹ فراغت پانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بجٹ کا یہ سیزن دونوں ہاتھوں سے کمالیا گیا۔ آنے والے مالیاتی سال کے لئے ہماری بدنصیبیوں کا نیا گوشوارہ سامنے آ گیا ہے۔ اعدادوشمار کے مستری‘ اسحق ڈار نے آنے والے بجٹ کا معما ایسی مہارت سے تیار کیا کہ ابھی تک مالیاتی ماہرین‘ اس گورکھ دھندے کو سلجھانے میں پھنسے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں حقائق کو بے نقاب بھی کر دیتے‘ تو کیا ہونا تھا؟ حکومت نے مہنگائی کی نئی زنجیریں چشم زدن میں تیار کر کے‘ عوام کی مشکیں کس دیں۔ سحروافطار میں لوٹ مچانے والے تاجروں نے حکومت کا ساتھ دیا۔ بجٹ میں سے جتنا آئندہ سال کھایا جانا تھا‘ اسے محفوظ کر لیا گیا۔ ساتھ ہی مہربان اپوزیشن نے عین اس موقع پر اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیا‘ جب حکومت کے مطالبات زر شق وار پاس کئے جاناتھے۔ فٹافٹ پاس کئے گئے اور یہ مطالبات اتنی تیزی سے پڑھے گئے کہ اپوزیشن اگر موجود بھی ہوتی‘ تو سن اور سمجھ کر بھی انہیں بولنے کی مہلت نہیں ملنا تھی۔بجٹ سیشن سے مستری اسحق ڈار فاتحانہ برآمد ہوئے اور حکمران خاندان کو نوید سنا دی کہ آنے والے مالیاتی سال میں آپ کے مزے ہی مزے ہیں۔
تدبیر کند بندہ‘ تقدیر زند خندہ
ابھی نیا مالی سال شروع بھی نہیں ہوا اور بجٹ کے ہندسوں کی روشنائی گیلی تھی اور اس کے نفاذ میں پورا ایک مہینہ باقی ہے کہ قدرت نے عوام کی آنکھوں میں مٹی ڈالنے والے حکمرانوں کی امیدوں پر حبس ‘ حرارت اور بے بس عوام کی ناگہانی اموات کا جھاڑو پھیر دیا۔ 1200 افراد بے وقت موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ کراچی شہر کے گھر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ مردوں کے لئے قبریں اور کفن نایاب ہو گئے۔ لاشیں اٹھنے کا سلسلہ ہے کہ بند ہونے میں نہیں آ رہا۔ آخر ہمارے مصروف ترین وزیراعظم کو روتے دھوتے کراچی کا حال بلکہ بدحالی دیکھنے کا خیال آ گیا اور شاہی اعلان جاری ہوا کہ وہ 29جون کو ‘اہل کراچی کے تڑپنے کے مناظر دیکھنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم کے دورے سے محروم ہونا‘ کراچی کے بسترمرگ پر تڑپتے ہوئے لوگوں کی بدقسمتی تھی یا خوش قسمتی؟ بہرحال وزیراعظم کا دورہ ''بعض وجوہ‘‘ کی بنا پر ملتوی ہو گیا۔ غالباً یہ'' دورے ‘‘ کی بدقسمتی تھی‘ جو مرنے والوں کے ساتھ مر گیا۔
میں نے گزشتہ کالم میں حبس اور گرمی کے بے موسمی حملے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جون میں ایسے منحوس دن بے وقت آ گئے ہیں‘ جو جولائی کے مہینے میں متوقع ہوتے ہیں۔ لیکن یہ دن غیرمتوقع تھے اور ابھی تک ہیں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ سائنسدان ‘ اس بے موسمی حبس اور حرارت کا تجزیہ کرنے میں تاحال ناکام ہیں اور پاکستان کی انسانی زندگی پر منحوس اثرات ڈالنے والا ‘یہ غیرمتوقع موسمی تغیرزیرمطالعہ ہے اور اس کے لئے حکومتوں اور انسانی ہمدردی کے اداروں نے غیرمعمولی فنڈز فراہم کئے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر بابر اعوان نے حکمرانوں کی تفریح طبع کے لئے ‘یہ دلچسپ تبصرہ فون پر کر ڈالا کہ موسمیات کے محکمے نے‘ اگلے سال کے مالیاتی بجٹ میں‘ اسی طرح کے مسائل پر مطالعے اور تجزیے کے لئے فنڈز کی درخواست کی تھی۔ لیکن مطلوبہ فنڈز دینے کا مطالبہ ٹھکرا دیا گیا۔ ہم‘ موجودہ حکومت سے مطالبات کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندسوں کے جذبات نہیں ہوتے اور ''ہندسوں کے مستری‘‘ کے پاس قبروں اور کفن سے محروم مردوں کے پسماندگان کے آنسو‘ دیکھنے والی نظر نہیں ہوتی۔پاکستان کی خاطر ہجرت کرنے والے‘ جو خواب دیکھتے ہوئے یہاں آئے تھے‘ ان خوابوں کے مزار تو عشروں پہلے بن چکے تھے۔ ان کا مجاور ''الطاف حسین‘‘ بننے کچھ نکلا تھا اور بن کچھ گیا۔ہمیں جو حکمران ملے ہیں‘ ان میں نہ ایمان ہے نہ انسانیت۔ ایک پرانی فلم ''سرفروش‘‘ میں سنتوش کمار کا ''رول ‘‘ایک چور کا ہے‘ جو رات کے پچھلے پہر چوری کرنے گیا‘ تو یہ گھر کی مالکن کا جذبہ عشق بیدار ہونے کا وقت تھا۔ وہ بیدار ہوکر اپنے ہیرو کو دیکھتی ہے تو حیران رہ جاتی ہے کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے۔ جب تعجب کا اظہار کرتی ہے‘ تو ہیرو جواب دیتا ہے ''چوری میرا پیشہ ہے‘ نماز میرا فرض۔‘‘ یہ پرانے زمانے کی بات ہے۔ نئے زمانے میں عبادت بھی پرانا فیشن ہو چکا ہے۔ جو اداکاری ہمارے حکمران کرتے ہیں‘ وہ نماز نہیں ‘ نماز کی پیروڈی ہوتی ہے‘ جو صرف ٹی وی کیمروں کی خاطر پڑھی جاتی ہے۔ فلم سرفروش کے مصنف مرحوم انورکمال پاشا اگر ہمارے موجودہ حکمرانوں کے لئے مکالمہ لکھتے تو وہ کچھ یوں ہوتا ''کرپشن میرا پیشہ ہے اور منی لانڈرنگ میرافرض۔‘‘
کراچی کی غیرت نے شاید گوارا نہ کیا کہ ہمارے وزیراعظم‘ اپنے کندھوں پر بے کفن جنازے اور کمیاب قبروں کی جستجو میں بھٹکتے غمزدگان کا نظارہ کریں۔ شاید یہ ان کی نازک مزاجی پر گراں گزرتا۔ اتفاق سے وز یراعظم کی عدیم الفرصتی ان کی مدد کو آ گئی اور وہ اپنا دورہ ملتوی یامنسوخ کر کے‘ واپس اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا ایک واقعہ دہراتے ہوئے‘ آج کے کالم کے اختتام کی طرف جائوں گا۔ ان دنوں انیق ناجی‘ سیدہ عابدہ حسین کی تازہ تصنیف "Power Failure" پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کتاب میں درج ایک واقعہ سنایا۔ سیدہ عابدہ لکھتی ہیں '' جولائی کی ایک صبح میں اپنی والدہ کے ساتھ‘ مادرملت کو ملنے موہٹہ پیلس پہنچی۔ مرکزی دروازے پر لگی گھنٹی کو‘ دیر تک بجانا پڑا‘ تب کہیں جا کے آخر کار مادرملت نے خود ہی دروازہ کھول دیا۔ وہ ہمیں اپنے سٹنگ روم لے گئیں‘ جس کی تاریکی میں دم گھٹ رہا تھا۔ مادر ملت نے میری والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''کشور! (سیدہ عابدہ کی والدہ) کھڑکی کی چٹخنی کھول دینا۔ تم اور تمہاری بیٹی مجھ سے لمبی اور تندرست ہو۔‘‘ ہم نے جلدی سے کھڑکی کھولی اور کمرے میں باہر کی روشنی آتے ہی میں نے مس جناح کو دیکھا توI was taken a back to see how old and frail she looked.میری والدہ نے مادر ملت سے کہا ''میری بیٹی چاندی(سیدہ عابدہ کا بچپن کا نام) ابھی سوئٹزرلینڈ اور اٹلی سے اپنی سکولنگ کر کے‘ پاکستان پہنچی ہے۔ عابد بہت چاہتے تھے کہ یہ آپ کی خدمت میں حاضری دے۔‘‘ میری والدہ نے مودبانہ انداز میں کہا۔ مادرملت نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ''بیٹی! ذرا وہ بیل بجائو تاکہ میرا بوڑھا نوکر جو کہ بہرہ ہے‘ سن لے اور تمہارے لئے چائے یا اگر تم کہو تو لیموپانی لے آئے۔ کشور تم دیکھ رہی ہو؟ یہاں میرے صوفوں کے غلاف ڈھیلے پڑے ہیں۔ کیونکہ شاذونادر ہی یہاںکوئی آتا ہے۔ سب ملنے والے اب میری سوتیلی بہن‘ شیریں بائی کو ملنے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایوب حکومت کے ساتھ In ہے۔ اگر میرے بھائی کو یہ سب پتہ ہوتا‘ تو کیا وہ پاکستان بنانے کے لئے اتنی کڑی اور سخت محنت کبھی کرتا؟ کیا وہ ایسا ملک بنانا چاہتا تھا؟ جہاں نہ آئین ہو‘ نہ انصاف۔ جہاں ماہر خوشامدی طاقتور بن جائیں اور عزت و وقار والے لوگ پیچھے دھکیل دیئے جائیں؟ اگر پاکستان کو یہی بننا تھا‘ تو پھر پاکستان کو بنانا ایک احمقانہ غلطی تھی۔‘‘
یہ سن کر میرے جسم میں سردی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ میں اس گفتگو سے دور بھاگنا چاہتی تھی۔ واپس آکر میں نے اپنے والد کو ساری بپتا سنائی۔ اس وقت میری مایوسی اور بڑھ گئی‘ جب میرے والد نے جواب دیا ''میں سمجھتا ہوں‘مس جناح کیا محسوس کر رہی ہیں؟ مجھے اور حسین شہید سہروردی کو ایبڈوٹرائل کا سامنا کرتے ہوئے‘ اسی بے یقینی کا سامنا تھا۔ ہم بہرحال اس ملک کو بنانے والوں میں سے تھے۔ میں تو خیرنوجوان تھا مگر سہروردی صاحب ‘مشرقی پاکستان کے معمار تھے اور غاصبوں نے‘ ہمیں ہی نمائندگی کے لئے غیرمناسب قرار دے دیا۔ اس ملک کے بنانیوالے قائدین نے جو آئین بنایا‘ اسے منسوخ کر کے ایک ایسا آئین ڈرافٹ کروایا گیا‘ جو عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ اب جبکہ یہاں فوجی حکومت ہے ہمارے مقابلے میں بھارت فائدے میں رہے گا اور ہم پر سبقت لے جانے میں ‘وہ کبھی پیچھے نہیں رہے گا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved