تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-06-2015

قادر آباد کا کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر

میں نے اپنے گزشتہ سے پیوستہ کالم میں خادم اعلیٰ کے بارے میں ایک بدگمانی کا اظہار کیا تھا کہ شاید انہوں نے کبھی بذات خود کوئی کول پاور پلانٹ یعنی کوئلے والا بجلی گھر چلتا ہوا نہیں دیکھا۔ میں اپنی اس بدگمانی کی تصحیح کر رہا ہوں اور نئی بدگمانی کا اظہار کر رہا ہوں کہ شاید انہوں نے کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر تو ایک طرف رہا اس بجلی گھر میں استعمال ہونے والا کوئلہ بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ اس کوئلے کے بارے میں تو بعد میں گفتگو ہو گی پہلے قادر آباد میں لگنے والے پنجاب کے پہلے کول پاور پلانٹ کی بات ہو جائے۔
قادر آباد (ساہیوال) میں پنجاب کا پہلا کول فائر پاور پلانٹ لگ رہا ہے۔ 1320 میگاواٹ کا یہ پاور جنریشن پلانٹ پاکستان کی زرخیز ترین زمین پر لگ رہا ہے۔ ایک ہزار ایکڑ یعنی 40 مربع زرعی اراضی پر لگنے والے اس کوئلے کے بجلی گھر کے لیے 12 سے 18 ہزار ٹن کوئلہ روزانہ کی بنیاد پر درکار ہو گا۔ یہ مقدار 12 سے 18 ہزار ٹن اس لیے ہے کہ یہ براہ راست کوئلے کی کوالٹی سے منسلک ہے اور اس کی مقدار کا دارومدار کوئلے کی HEAT ENERGY کے یونٹ Kcal سے وابستہ ہے۔ اگر عام قسم کا کوئلہ استعمال کیا جائے جو عموماً ان پلانٹس پر استعمال ہوتا ہے تو اس کا حساب قادر آباد پاور پلانٹ کے لیے تقریباً 18 ہزار 4 سو 80 ٹن روزانہ ہو گا۔ اس سارے حساب کتاب کی تفصیل بڑی گنجلک ہے اور عام قاری کے لیے اسے سمجھنا اور میرے لیے اس کالم میں سمجھانا خاصا مشکل ہے؛ تاہم مختصراً بتاتا چلوں کہ اگر "D" گریڈ کا کوئلہ استعمال کیا جائے تو ایک کلو گرام کوئلے کی Kcal یعنی کلو ریفک ویلیو (Calorific Value) 4200 ہو گی۔ مختلف سائکلز میں ہونے والی ہیٹ انرجی کے نقصان کے باعث پلانٹ کی مجموعی کارکردگی یعنی Overall efficiency تقریباً 35 فیصد ہو تو حرارت کی طاقت جو 100 فیصد پر P=Q/t کے حساب سے Q=239 ہے، 35 فیصد پر 239/0.35=683 ہو گی۔ اس حساب سے ایک میگاواٹ بجلی کے حصول کے لیے 683 کو 4200 سے تقسیم کریں تو 162 گرام کوئلہ فی میگاواٹ فی سیکنڈ چاہئے یعنی 162 ضرب 24 (گھنٹے) ضرب 3600 (ایک گھنٹے میں سیکنڈ) تو جواب 14 ٹن فی میگاواٹ روزانہ بنتا ہے۔ اس طرح 1320 میگاواٹ کے قادر آباد کول پاور پلانٹ کے لیے روزانہ 18 ہزار 4 سو 80 ٹن کوئلہ درکار ہے۔ دوسرے لفظوں میں کراچی سے روزانہ قادر آباد کے لیے 18½ ہزار ٹن کوئلہ لانا ہو گا۔
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ دنیا بھر میں کوئلے کی ترسیل کوئی آسان کام نہیں۔ ایسے بجلی گھر یا تو سمندر کے کنارے لگائے جاتے ہیں کہ درآمد شدہ کوئلہ براہِ راست جیٹی پر اتار کر بلکہ وہیں سے متحرک بیلٹ کے ذریعے پلانٹ تک پہنچایا جا سکے یا دریائوں کے کنارے لگائے جاتے ہیں (یورپ وغیرہ میں دریا گہرے ہیں اور وہاں جہاز رانی معمول کی بات ہے۔ ہمارے دریا زیادہ چوڑے اور کم گہرے ہیں اس لیے یہاں جہاز رانی ممکن نہیں) جہاں سے بندرگاہوں پر اترنے والے کوئلے کو ان دریائوں کے راستے فلیٹ بیڈ بار جز (مسطح پیندے والی بڑی کشتیاں) کے ذریعے کول پلانٹ پر پہنچایا جاتا ہے یا کوئلے کی کان کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کول پاور پلانٹ یا تو بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں لگائے جا سکتے تھے یا پھر تھر وغیرہ میں جہاں کوئلے کی دستیابی ہے۔ لیکن خادم اعلیٰ صرف اس غرض سے کہ بجلی ان کے گھر کے صحن میں پیدا ہو کوئلے کے بجلی گھر ساہیوال میں لگا رہے ہیں جو نہ صرف تکنیکی اعتبار سے غلط ہے، بلکہ معاشی حوالوں سے بھی سود مند نہیں ہے۔ اس قسم کے منصوبوں کو کوئلے کی سپلائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور خادم اعلیٰ نے بجلی کی سپلائی بذریعہ ڈی سی ٹرانسمیشن لائن کرنے کے بجائے کوئلہ بذریعہ ریل منگوانے کو ترجیح دی ہے جو موجودہ ریلوے کی استعداد سے کہیں باہر کی چیز ہے۔ اب وہ ریلوے کی استعداد بڑھائیں گے اور ریلوے کو اس کے لیے 20 ارب ڈالر درکار ہیں۔
فی الوقت ریلوے کے چلنے والی ایکسپریس ٹرینوں کے بعد بچنے والی LINE CAPACITY چوبیس ٹرینیں فی یوم ہے۔ یعنی موجودہ ریلوے ٹریک کی استعداد کار 24 مال گاڑیاں ہے جس میں سے 10 مال گاڑیاں فی الوقت چل رہی ہیں۔ اس حساب سے بقیہ لائن کپیسیٹی 14 گاڑیاں فی یوم ہے۔ اگر ریلوے کا نظام بہتر ہو جاتا ہے اور چار پانچ ایکسپریس ٹرینیں مزید چلتی ہیں تو یہ لائن کپیسیٹی 10 رہ جائے گی۔ صرف قادر آباد کول پلانٹ کے 18 ہزار ٹن کوئلے کو جسے ہم زیادہ بہتر کوالٹی کا کوئلہ ہونے کی صورت میں 15 ہزار ٹن تصور کر لیتے ہیں کے لیے ریلوے کی روزانہ تقریباً 8 گاڑیاں درکار ہیں۔
ریلوے کی ایک کوئلے کی ویگن 60 ٹن کوئلہ لاد سکتی ہے۔ یاد رہے کہ کوئلہ کی ترسیل کے لیے ریلوے کے پاس اوپر سے کھلی ویگنوں کی شاید اتنی تعداد بھی میسر نہیں ہے؛ تاہم فی الحال ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ویگنیں دستیاب ہیں۔ موجودہ ریلوے انجنوں کی طاقت 3 ہزار ہارس پاور ہے اور فارمولا یہ ہے کہ انجن کی گاڑی کھینچنے کی طاقت یعنی HANDLING CAPACITY اپنی ہارس پاور کا 80 فیصد ہوتی ہے۔ 3 ہزار ہارس پاور کا انجن 24 سو ٹن وزن کھینچ سکتا ہے۔ موجودہ انجنوں کی طاقت کو مدنظر رکھیں تو ویگنوں کا اپنا وزن نکال کر خالص وزن کھینچنے کی استطاعت 18 سو ٹن بچتی ہے۔ اس طرح ایک ٹرین 18 سو ٹن کوئلہ لا سکتی ہے اور 15 ہزار ٹن کے لیے روزانہ 30 ویگنوں والی کم از کم 8 گاڑیاں درکار ہیں۔ اب 8 گاڑیاں قادر آباد اَن لوڈنگ میں، ہر 3 گھنٹے بعد ایک گاڑی کے حساب سے کراچی سے قادر آباد تک 30 گھنٹوں پر مشتمل سفر میں کوئلے سے لدی ہوئی 10 گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ اسی طرح قادر آباد سے خالی ہو کر واپس کراچی جانے والی 10 گاڑیاں بھی ریلوے ٹریک پر ہیں۔ کم از کم 8 گاڑیاں بندرگاہ پر کوئلہ لادنے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ یہ کل 36 گاڑیاں ہو گئیں۔ ریلوے کے پاس اتنے انجن ہی نہیں ہیں۔ ان انجنوں کی کمی پورا
کرنے کے لیے امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک سے 55 نئے انجن خریدے جا رہے ہیں جن کی مالیت 22 ارب روپے ہے۔ یہ انجن 4500 ہارس پاور کے ہیں اور 36 سو ٹن وزن کھینچ سکتے ہیں۔ ان انجنوں کے ذریعے کوئلہ لایا جائے تو ساڑھے پانچ ٹرینیں درکار ہیں۔
اب آ جائیں کوئلے پر۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ کول پلانٹس پر استعمال ہونے والا کوئلہ ڈھیلوں کی شکل کا ہوتا ہے حالانکہ یہ موٹی ریت کی مانند ہے۔ ریلوے کی کھلی ویگنوں پر آنے والا یہ کوئلہ اڑے گا اور کراچی سے قادر آباد تک کا سارا ریلوے ٹریک اور آس پاس کی آبادیوں کو کالا کرے گا۔ خستہ حال ویگنوں سے راستے میں سوراخوں سے گرنے والا کوئلہ اس پر مستزاد ہو گا۔ ایک اور مسئلہ اس کوئلے کی راکھ کو سمیٹنا ہے۔ سمندر کے کنارے پلانٹس یہ راکھ سمندر میں ڈال دیتے ہیں یا ان سے ''ڈائون سٹریم انڈسٹری‘‘ چلائی جاتی ہے اور اس راکھ سے خاص طرح کا سیمنٹ اور ہلکی اینٹیں بنائیں جاتی ہیں۔ قادر آباد کی 40 مربع زرخیز ترین زمین کی بربادی کے بعد یہ راکھ مزید زمینیں خراب کرے گی۔ اگر پنجاب میں یہ پلانٹ لگانا ہی مقصود تھا تو اس کے لیے بہترین جگہ رحیم یار خان تھی جہاں کوئلے کی فراہمی کے سلسلے میں ساڑھے چار سو کلو میٹر کا فاصلہ بچایا جا سکتا تھا اور چولستان کی غیر آباد زمین پر لگنے والے اس بجلی گھر سے اڑنے والی راکھ، دھواں اور فضائی آلودگی سے آبادی کو بچایا جا سکتا تھا مگر یہ سوچنے کی باتیں ہیں اور فیصلہ کرنے والوں کا ایسی فضولیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سارا حساب کتاب صرف قادر آباد کول پاور پلانٹ کا تھا۔ جامشورو میں لگنے والے کول پاور پلانٹ کو شامل کریں تو ساری ریلوے کی ''پھوک‘‘ نکل جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved