قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل جنہوں نے کیے
اور حق کی نصیحت کی اور صبر کی نصیحت کی
وہ ایک نگاہ دور بیں‘ جو بندۂ مومن کو عطا کی جاتی ہے۔ فرمایا: وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ فرمایا: میں اس کے ہاتھ پائوں بن جاتا ہوں۔ اقبالؔ نے اسلام کی روح کا ادراک کر لیا تھا۔ مجرد عقل کے وہ قائل نہ تھے۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ فقیر
سرنگاپٹم گئے اور ایک عظیم تجربے سے گزرے۔ کئی نظمیں اس سفر کی یادگار ہیں‘ ان میں سے ایک ٹیپو کی وصیت ہے ؎
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو‘ وہ دل نہ کر قبول
ان کی مراد غالباً‘ انگریزی تہذیب کے سیلاب میں‘ روش عام کی تقلید ہے۔ غالب تہذیبوں کا دریا طوفان خیز ہوا کرتا ہے۔ ہزاروں برس کی دانش بھی جس میں بہہ جاتی ہے۔ اقبالؔ کی داستان شاید یہ بتاتی ہے کہ انسان‘ زندگی‘ کائنات اور عرفان الٰہی کے لیے‘ قدرت کے قوانین کا فہم درکار ہے‘ تاریخ کا مطالعہ۔
وفات کے فوراً بعد جواں سال ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا۔ ان کی فکر کا سرچشمہ قرآن تھا۔ جس (مغربی) فلسفے کے دوچار جام پی کر لوگ بہکنے لگتے ہیں‘ مرحوم اس کے سمندر‘ پیئے بیٹھا تھا۔ جوں جوں اس کی تہہ میں وہ اترتا گیا‘ قرآن کریم پر اس کا ایمان پختہ تر ہوتا گیا۔ قرآن ان کے لیے شاہ کلید (Master key)تھا۔ پروفیسر مرزا منور کو علامہ کے خادم علی بخش نے بتایا: (صبح سویرے کی طویل تلاوت کے علاوہ بھی) دن میں کئی بار کتاب منگوایا کرتے۔ اوراق پلٹتے رہتے حتیٰ کہ چہرے پر اطمینان اتر آتا۔ سرکارؐ کی سیرت پہ غور کرتے ایک زمانہ بتا دیا تھا۔ ایک بار کہا تھا: آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قرون اولیٰ کی سیر کرتا ہوں۔
ان کے انتقال پر سید سلیمان ندوی نے لکھا: فلسفے اب اس سے نکالے جائیں گے‘ رہنمائی اب اس سے طلب کی جائے گی۔ پروفیسر رشید صدیقی کا کہنا یہ تھا: جب تک وہ زندہ تھے‘ کوئی سوال ذہن میں ابھرتا تو اطمینان رہتا کہ علامہ سے پوچھ لیں گے۔ شواہد یہ ہیں کہ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا خواب 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد سے بہت پہلے انہوں نے دیکھا تھا۔ ہندوستان کے زعماء کرام میں سے قائداعظم کے سوا شاذ کوئی تھا‘ گاندھی سے جو متاثر نہ ہوا ہو۔ اقبالؔ نہیں تھے۔ یہ ضرور کہا کہ گاندھی ایک دن ہندوئوں کے مہاتما ہو جائیں گے۔ سروجنی نائیڈو نے اصرار کیا تو 1920ء کے سفر امرتسر میں ان سے ملے وگرنہ مہاتما سے ملاقات تک کے کبھی آرزو مند نہ ہوئے۔
اقبالؔ کے آخری ایام پر ڈاکٹر چغتائی کی کتاب واضح کرتی ہے کہ دیوبند کی روش سے انہیں کیسا شدید اختلاف تھا۔ ابوالکلام سے تو ایسے گریزاں کہ ان کا ذکر بھی شاذ ہی کرتے۔ مولانا حسین احمد مدنی کے باب میں وہ قلق کا شکار ہے‘ جن کا ارشاد تھا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اصرار کیا کرتے کہ تمام مسلمان جماعتوں کو مسلم لیگ میں مدغم ہو جانا چاہیے۔ فرقہ وارانہ تعصب چھو کر نہ گزرا تھا۔ دیوبند کے بعض اکابر سے خوشگوار مراسم تھے۔ عطاء اللہ شاہ بخاری سے ایک طرح کی بے تکلفی بھی۔
اس موضوع پر اب بہت تحقیق ہو چکی کہ انسان فقط اپنی ریاضت اور حاصل کردہ علمی نتائج پر ترجیحات طے نہیں کرتا۔ خاندان اور نسل کے اثرات ہوتے ہیں‘ بچپن میں شخصیت کی جو تشکیل کرتے ہیں۔ تجزیے پر نہیں آدمی اپنی اپنی افتاد طبع پر جیتا ہے۔ اہلِ عرفان کے سوا۔ تعصبات کی چھاپ بعض اوقات بہت گہری ہوا کرتی ہے۔ انسانی فکر کی محددودات ہیں۔
غالبؔ نے شاعرانہ خیال آرائی کی تھی۔ ''آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘۔ سائنس دانوں نے ا ب یہ ثابت کردیا ہے کہ آدمی دراصل سوچتا ہی نہیں‘ خیالات خارج سے آتے ہیں اور وہ ان میں سے انتخاب کرتا ہے۔ اس کے اندر بھی اگرچہ افکار کا ایک جہان آباد ہوتا ہے۔ ظفراقبال کے اس شعر پہ کچھ زیادہ غور کی ضرورت ہے۔
دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے
میں کیا بلا ہوں رات بڑا ڈر لگا مجھے
قدرت کے ابدی قوانین کا ادراک اگر نہ ہو تو آخر کو سب رائیگاں۔ کوئی بھی میدان ہو عقلِ عام بس محدود سی رہنمائی کرسکتی ہے۔ بہت سی زندگیاں‘ سطحی سیاست اور فقط ادبی جمالیات کے پیچ و خم میں رائیگاں رہتی ہیں۔
ایم کیو ایم پہ یلغار ہوئی تو ہمدردی کا احساس بھی جاگا۔ وہ ہمارے جسد کا ایک اہم حصہ ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنمائوں کے باب میں ایک دشواری البتہ ہے‘ وہ سن کر نہیں دیتے۔ الطاف حسین بڑے لیڈر ہیں مگر مغالطے بھی ان کے عظیم ہیں۔ گاہے یکسر بے قابو‘ کبھی تاویل ہی تاویل... زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی‘ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی انسانی جماعت‘ حیات کے وسیع و عریض سمندر کی ایک لہر ہی ہوتی ہے۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ ماننا تو کیا وہ سنتے ہی نہیں۔ اصرار ہی اصرار۔ جلد ہی نوبت دھمکی تک جا پہنچتی ہے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین ہی کی ریاضت کا ثمر ہے۔ مگر اب ان کی مزاجی کیفیت ایسی ہے کہ کاتا ہوا سوت ادھیڑ رہے ہیں۔ مہاجروں کی اور شہری سندھ کی آواز باقی رہنی چاہیے‘ باقی ہی نہیں‘ پوری طرح باقی۔ ان کے مسائل ہیں۔ ان کے جائز مطالبے ہیں۔ ان کی امنگوں کا احترام واجب ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مہاجروں کے بعض لیڈر طاقت کا مظاہرہ کرنے اور ڈرانے پر تلے رہتے ہیں۔ بے رحمانہ تشدد کی المناک روش‘ اوروں نے بھی اختیار کی مگر ایم کیو ایم کے کچھ لوگ تو ہر حد سے گزر گئے۔ بھول گئے اور یاد دلانے پر بھی مانتے نہیں کہ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ اپنے لوگوں کو فائدے سے زیادہ نقصان انہوں نے پہنچایا ہے۔ کراچی کو ایم کیو ایم سے کیا حاصل ہوا؟ اس سوال کا جواب بہت ہی اذیت ناک ہے۔ نفرت میں قوت بہت ہوتی ہے۔ منفی ہتھکنڈے آغاز میں بہت کارگر ہوتے اور حریفوں کو خوف زدہ کر سکتے ہیں مگر تابہ کے؟ آپ کتنے ہی دانا ہوں‘ کیسے ہی کامیاب لیکن آدمی اور ہر گروہ کی محدودات ہوتی ہیں‘ خواہ وہ کیسے ہی طباع‘ طاقتور‘ منظم اور مؤثر ہوں۔ یہ اللہ کی بستی ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ فقط تدابیر میں نہیں‘آخرکار زندگی آہنگ میں ہوتی ہے۔ افراد میں مکالمہ اور آہنگ‘ گروہوں‘ علاقوں‘ جغرافیائی اور لسانی وحدتوں میں۔ وارث شاہ کے ایک بیت کا کیسا شاندار ترجمہ کسی نے کیا تھا ؎
زندگی بانسری ہے رانجھے کی
سوز بھی ہے یہ ساز ہی تو نہیں
اقبالؔ نے کہا تھا: چیست حیات دوام؟ سوختنِ ناتمام! بھڑک اٹھنے یا بجھ جانے میں نہیں‘ زندگی سلگنے میں ہے۔ سبحان اللہ‘ یہ مجید امجد ہیں۔
سلگتے جاتے ہیں چپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں‘ گلاب کے پھول
مسلسل اور متواتر زندگی بدلتی رہتی ہے اور اس کے تقاضے بھی۔ ایک طرف تو ابدی اصول ہیں۔ دوسری طرف ہر روز ایک نئی حکمت عملی درکار‘ ایک نئی راہ درپیش! برصغیر کے مزاج میں ضد ہے‘ عدمِ تحفظ کا احساس ہے چنانچہ برہمی ہے۔ تحفظ اور فروغ کے لیے زندگی کو لچک درکار ہوتی ہے۔ خودتنقیدی اور نفی ٔ ذات کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ آدمی جلد باز ہے‘ جھگڑالو ہے اور ظالم اور جاہل بھی‘ الاّ یہ کہ اپنے آپ سے اوپر اٹھ سکے۔
لگتا ہے کہ یہ طوفان گزر چکے گا تو منظر ہی دوسرا ہوگا۔ فی الحال تو شاید کوئی ایک آدمی بھی یہ بات نہ مانے گا۔
حسین بن منصور حلاّج کے دیوان میں یہ لکھا ہے: میں ان کے لیے روتا ہوں‘ جو چلے گئے اور ان کے لیے جو فنا کی راہوں میں سرگرداں ہیں۔
قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل جنہوں نے کیے
اور حق کی نصیحت کی اور صبر کی نصیحت کی