تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-07-2015

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور خانہ پُری

قومی وسائل لوٹنے والوں کے 
حساب کا وقت آ گیا... صدر ممنون 
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''قومی وسائل لوٹنے والوں کے حساب کا وقت آ گیا ہے‘‘ لیکن چونکہ ساری قوم ابھی دہشت گردی کے خاتمے میں مصروف ہے‘ نیز کراچی میں قومی وسائل لوٹنے والوں کا حساب کتاب شروع ہو گیا ہے‘ اس لیے جب تک وہ ختم نہیں ہو جاتا‘ کسی دوسری طرف کیسے دھیان دیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ایک ہی جگہ پر کیا جا سکتا ہے؛ تاہم قومی فلاح و بہبود کے لیے ملکی وسائل سے استفادہ کرنا اور بات ہے کہ سارے کے سارے دستیاب وسائل اس عظیم مقصد کے لیے سمیٹے جا رہے ہیں اور کراچی والوں کو بھی اسی نقطۂ نظر سے یہ کام کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''بدعنوانی سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لوٹ مار کرنے والے نمایاں لوگوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے‘‘ جبکہ نمایاں ہوئے بغیر بھی اس کارِ خیر میں بھرپور حصہ لیا جا سکتا ہے کیونکہ سارا کام اپنے قریبی کارندوں ہی سے بخوبی لیا جا سکتا ہے اور جس کی ہمارے ہاں درخشاں مثالیں بھی موجود ہیں اور جن کو ایک دنیا اچھی طرح سے جانتی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اچھی حکمرانی کی خواہش میں ریاست کے ادارے شریک ہو چکے ہیں‘‘ حالانکہ اس زیادتی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مثالی اچھی حکمرانی پہلے ہی ارزانی کی جا رہی تھی جس میں مزید اچھا ہونے کی گنجائش ہی نہ تھی کیونکہ ضرورت سے زیادہ اچھی حکمرانی سے بھی رعایا کا ہاضمہ خراب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مثبت اور اچھی تبدیلیوں کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہے‘‘ اس لیے وہ پہلے ہی تھوک کے حساب سے آ چکی ہیں اور جس کے لیے موجودہ حکومت کی کاوشیں انتہائی قابل قدر ہیں کیونکہ اسے سوائے اس کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے‘ اور یہ ہر وقت مثبت تبدیلیاں ہی اکٹھی کرنے میں لگی رہتی ہے جس کے اب تک ڈھیر لگ چکے ہیں اور ملک کے اندر جن کی سمائی اس قدر مشکل ہے کہ انہیں بیرون ملک منتقل کرنا پڑتا ہے اور جس سے وہاں کے بینکوں میں بھی مثبت تبدیلیاں زور و شور سے آ رہی ہیں‘ سو وہ خود بھی حیران و پریشان ہیں کہ پاکستانی حکمران اتنی قربانیاں کیسے دے رہے ہیں بلکہ پچھلے حکمرانوں کے ریکارڈز بھی توڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وطن عزیز کا کل ماضی و حال سے بہتر ہوگا‘‘ کیونکہ اس کے سر سے وسائل کا بوجھ کافی حد تک اُتر جائے گا اور کافی ہلکا پھلکا ہو چکا ہوگا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزیراعظم معائنہ کمیشن ہیلپ لائن کا افتتاح کر رہے تھے۔ 
نفرت انگیز تقاریر کسی صورت برداشت نہیں‘ بلا امتیاز کارروائی ہوگی... شہبازشریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''نفرت انگیز تقاریر کسی صورت برداشت نہیں‘ بلاامتیاز کارروائی ہوگی‘‘ البتہ حکومت کے خلاف جو نت نئے سکینڈلز مشہور ہو رہے ہیں اور نفرت انگیز تقاریر کی جا رہی ہیں ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ایک تو سکینڈلز اب معمول کی بات ہو چکے ہیں اور کوئی ان پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے اور دوسرے ہم تندیٔ بادِ مخالف سے گھبرانے والے نہیں کیونکہ یہ تو ہمیں اونچا اڑانے کے لیے چلتی ہے اور جس سے ہم اونچا ہی اونچا اڑتے چلے جا رہے ہیں جب تک کراچی آپریشن کا سلسلہ یہاں تک نہیں پہنچ جاتا؛ تاہم امید ہے کہ اس عمل کے مکمل ہونے میں ابھی کافی عرصہ باقی ہے‘ جب تک ہم پرواز کی مزید اونچائی سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پولیس انٹیگریٹڈ پروگرام دوسرے شہروں میں بھی شروع کیا جائے گا‘‘ تاکہ دوسرے شہر بھی ہماری مثالی پولیس کی مثالی خدمات سے بہرہ ور ہو سکیں‘ اگرچہ وہ پہلے ہی اس کی بدولت بھرپور لطف اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ایکشن پلان کے بہتر نتائج آ رہے ہیں‘‘ اگرچہ ابھی راستے میں ہیں لیکن جلد از جلد دوسرے پروگراموں کی طرح اپنی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے یعنی ہمارا عرصۂ اقتدار ختم ہونے کے بعد۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ 
بدہضمی؟ 
اِدھر عمران خان نے شکوہ اور اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں ایک کی بجائے پانچ تحریک انصاف بن چکی ہیں؛ چنانچہ انہیں شفقت محمود کے زیر سایہ متحد ہو جانا چاہیے اور اُدھر پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما تحریک انصاف کا رُخ کر رہے ہیں جبکہ تازہ واردان میں صمصام بخاری‘ اشرف سوہنا‘ طارق انیس اور دو سابق ایم پی اے شامل ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس ازدحام سے تحریک کا معدہ مزید کمزور ہوگا جبکہ یہ سلسلہ ابھی مزید دراز ہونے کا بھی امکان ہے جبکہ اشرف سوہنا کا بیان ہے کہ اگر منظور وٹو کو نہ ہٹایا گیا تو دیگر بھی پارٹی چھوڑ دیں گے۔ واضح رہے کہ اشرف سوہنا اوکاڑہ کے پارٹی صدر تھے جنہوں نے اپنی تنظیم سمیت پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے حالانکہ تحریک پہلے ہی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی جسے آپس میں جوڑنے کے لیے کسی مؤثر گوند یا گم کی ضرورت ہے جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کپتان کو دستیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ مندرجہ بالا حضرات نیک نام لوگ ہیں اور نہیں معلوم کہ ان کا اب تک پیپلز پارٹی جیسی جماعت میں گزارہ کیونکر ہو رہا تھا! 
اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل: 
کون ایسے بے سود سفر میں شامل ہو جاتا ہے 
راہرووں کو جب رستہ ہی منزل ہو جاتا ہے 
ہر شے کھو دیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں بچتا باقی 
پھر بھی لگتا ہے سارا کچھ حاصل ہو جاتا ہے 
آنکھیں اور طرف کو کھینچتی ہوتی ہیں اُس لمحے 
لیکن دل ایک اور ہی جانب مائل ہو جاتا ہے 
لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں‘ یہ کھیل ہے ایسا 
پل میں اچھا بھلا سخی بھی سائل ہو جاتا ہے 
اُسے بھی یاد نہیں آتا ہے ایک چاہنے والا 
دل بھی محبت کرتے کرتے غافل ہو جاتا ہے 
کوئی کنارہ ایسا ہے جو ڈبو دیتا ہے کشتی 
ایک بھنور ہے جہاں سفینہ ساحل ہو جاتا ہے 
خود سے ملنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے اکثر 
کوئی تو ہے جو درمیان میں حائل ہو جاتا ہے 
ایسے لگتا ہے کہ ہوا بھی روک رکھی ہو اُس نے 
بیٹھے بیٹھے سانس بھی لینا مشکل ہو جاتا ہے 
تھک جاتے ہیں پیش رفت کی کوشش میں ہی، ظفرؔ ہم 
اور اثر پہلے والا بھی زائل ہو جاتا ہے 
آج کا مقطع
محبت تو چوری کا گُڑ ہے‘ ظفرؔ 
یہ میٹھا زیادہ تو ہونا ہی تھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved