مودی صاحب جب پاکستان پر چھڑی چلانے کے لئے اقوام متحدہ سے درخواست کرنے گئے‘ تو وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان بھی ان سات ملکوں میں شامل ہے‘ جو ایٹمی اسلحہ سے لیس ہیں۔ بے شک ان میں سے پانچ کے پاس ویٹو پاور ہے‘ لیکن جس وجہ سے انہیں یہ ویٹوپاور دی گئی ہے‘ پاکستان اور بھارت بھی اسی وجہ سے ایک تسلیم شدہ عالمی نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور وہ عالمی نظام ہے ایٹمی اسلحہ کی طاقت۔ اقوام متحدہ جو چاہے کرسکتی ہے‘ لیکن کسی ایٹمی ملک کو سزا دینے کی طاقت اس کے پاس نہیں۔ پاکستان اللہ کے فضل سے ایسی ہی ایٹمی طاقت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایٹم بموں اور میزائلوں کی بھاری تعداد کا مالک ہونے کے باوجود ہماری خارجہ پالیسی ماما جی کے عدالتی فیصلے کی طرح ہے۔ ایک بہت پرانی پنجابی فلم میں ظریف مرحوم ماما جی کے پاس جب کوئی فریادی آتا‘ تو وہ اپنی طرز کا انوکھا فیصلہ فرما کے جھگڑا نمٹا دیا کرتے۔ مگر گزشتہ تین سال سے ہماری وزارت خارجہ ماما جی کی عدالت کے احکامات پر چلنے کو مجبور ہے۔ پہلے آپ کو ماما جی کا ایک فیصلہ سنا دوں کہ ایک بھٹیارن گلی کے موڑ پہ بھٹی بنا کر بیٹھ گئی‘ جہاں لوگ چنے اور مکئی کے دانے بھنوانے آتے تھے۔ وہاں رش رہنے لگا۔ اسی گلی کے ایک معتبر آدمی کو شکایت پیدا ہوئی کہ اس رش کی وجہ سے گھریلو خواتین کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے۔ دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ معاملہ ماما جی کی عدالت میں چلا گیا۔ ماماجی نے دونوں کا کیس سن کر اندازہ لگا لیا کہ لڑنے والوں میں سے کوئی بھی فریق عدالت کا فیصلہ نہیں مانے گا۔ ماما جی چارپائی بچھا کر عدالت لگایا کرتے تھے‘ لیکن ماما جی نے فریقوں کے بیانات سن کر چارپائی کھڑی کر کے کندھے پر رکھی اور چلتے چلتے فیصلہ سنایا ''تم بھٹی بناتی جائو۔ یہ بھٹی گراتے جائیں۔‘‘ برسبیل تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان میں جابجا اسی طرح کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ عمران خان 2013 ء کے الیکشن کے بارے میں بھی ایسے ہی فیصلے کی توقع کر رہے ہیں کہ ''تم حکومت کرتے جائو۔ تم مخالفت کرتے جائو۔‘‘ ہماری وزارت خارجہ بھی اسی قسم کے عدالتی فیصلے سننے پر مجبور ہے۔ وزارت خارجہ والوں کا مقدمہ دو رکنی بنچ کے سامنے ہے۔ وہاں سے بھی ماما جی کی طرح کے ہی فیصلے صادر ہوتے ہیں: '' تم امن کی آشا بڑھاتے جائو۔ تم امن کی آشا توڑتے رہو۔‘‘ ہماری وزارت خارجہ کو ہر بار اسی طرح کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس بار لگتا ہے کہ ماہر سفارتکار ملیحہ لودھی کو جو اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ہیں‘ بطور خاص بلایا گیا ہے کہ ایسے ہی کسی فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ماما جی کے فیصلے پرعملدرآمد کے امتحان پر کیسے پورا اترتی ہیں؟
پاکستان اور بھارت کی حکومتیں بھی ماما جی کی عدالتیں ہی لگاتی ہیں۔ خصوصاً ایک دوسرے کے معاملے میں۔ دلی میں بھی ماما جی کی عدالت لگتی ہے۔ اسلام آباد میں بھی۔ اور اب کے ماما جی خود وزیراعظم بن کے بیٹھ گئے ہیں۔ انہیں وزارت عظمیٰ پر براجمان ہوئے ایک سال پورا ہو چکا ہے۔ کمال ہے جو انہوں نے کوئی فیصلہ بھی اس طرح کا سنایا ہو‘ جس پر عمل کیا جا سکے۔ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کرائے‘ حکومت بنائی۔ اپنی پارٹی سے کہہ دیا کہ ''تم اسے توڑنے کی کوشش کرتی رہو‘‘ اور مفتی صاحب سے کہہ دیا کہ ''تم اسے ٹھاپ لگاتے رہو۔‘‘ حکومتیں وہ کئی ریاستوں میں بناچکے ہیں‘ لیکن فیصلہ ہر جگہ ماما جی کی طرح سناتے ہیں۔ راجستھان کی وزیراعلیٰ کا معاملہ للت مودی صاحب سے پڑ گیا ہے۔ للت مودی کچھ ایسے بیانات جاری کر دیتے ہیں‘ جن کی اشاعت سے ان کے دوست مصیبت میں پڑ جائیں۔ للت مودی خود متنازعہ قسم کی شخصیت ہیں۔کماری وسوندھراکے ساتھ ان کے گھریلو تعلقات ہیں۔ انہوں نے وسوندھرا جی کا نام لے کر کوئی کام کرا لیا اور اعتراض ہونے پر بیان دیا کہ ان کے ساتھ ان کے خاندانی تعلقات ہیں۔ دونوں کا معاملہ بھارت کے ماما جی‘ نریندر مودی کے پاس پہنچا۔ دونوں فریقوں کے مقدمے کی سماعت ہوئی اور ماما جی نے فیصلہ دیا کہ ''تم بیان دیتے رہو۔ تم تردید کرتی رہو۔‘‘ دلی کی پڑوسی ریاست ‘ ہریانہ کے نئے وزیراعلیٰ مودی صاحب کے آدمی ہیں۔ مودی صاحب نے انہیں حکم دیاکہ پریانکا گاندھی کے خاندان کو ٹیکس ڈالو۔ یہ کام بیوروکریسی کے سپرد ہوا اور اس نے حسب روایت پٹواریوں کو لگا کر ان کی خریدی ہوئی زمین پر اعتراضات لگانا شروع کر دیئے۔ معاملہ میڈیا میں آ گیا۔ جب میڈیا اور کانگرس پارٹی کی طرف سے دبائو آیا‘ تو مودی صاحب نے اپنے وزیراعلیٰ سے کہا ''تم دبائو ڈالتے رہو‘‘ اور پریانکا کے شوہر سے کہا ''تم مقابلہ کرتے رہو۔‘‘ مودی صاحب نے ملک کا وزیراعظم بنتے ہی پاکستان کے بارے میں کانگرسی حکومت کی پالیسیوں کا جائزہ لیا۔ ان میں واجپائی کی پالیسیاں بھی زیرغور آئیں۔ مودی صاحب کے انتہائی قابل دماغ نے ایک نکتہ نکالا کہ پنڈت نہرو کے بعد‘ کشمیر کے مسئلے پر کسی بھارتی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔ مودی صاحب تاریخی کام کرنے کے بہت شوقین ہیں‘ لیکن ان کے فیصلے ماما جی کی عدالت جیسے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اسی ہنر کو آزمانے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جا دھمکے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اگر آپ پنڈت نہرو کی
طرح اقوام متحدہ میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کیس لے جائیں‘ توآپ کی پتنگ سارے لیڈروں سے اونچی اڑے گی۔ کچھ مشیروں نے مشورہ دیا کہ ''پاکستان سے پنگا مت لیں۔ہم جب بھی تنازعہ کشمیر ‘یو این کے پاس لے کر جاتے ہیں‘ تو پہلی ہی سماعت میں سلامتی کونسل ماما جی کی عدالت جیسا فیصلہ سنا دیتی ہے۔67 سال ہو گئے۔ پاکستان اور بھارت دونوں وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ لڑتے بھی جا رہے ہیں اور کوئی فیصلہ بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ ‘‘لیکن مودی صاحب کو ایک نادر خیال آیا کہ ''ہم کشمیر کی بجائے ایک نیا پھڈا لے کر سلامتی کونسل کے پاس جاتے ہیں۔ اس کے اراکین سمجھیں گے کہ ہم مسئلہ کشمیر لے کر آ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ بتا کر معزز اراکین کو حیرت زدہ کر دیں گے کہ ہم تو مسئلہ کشمیر لائے ہی نہیں۔ سلامتی کونسل کے سارے معزز اراکین‘ دہشت گردی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اس پر دنیا بھر میں اتفاق رائے موجود ہے۔ میں مولوی لکھوی کا معاملہ لے کر دہشت گردی کا کیس بنائوں گا اور سلامتی کونسل میں یہ موقف اختیار کروں گا کہ پاکستان ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا چیمپئن بنتا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں دہشت گرد بھیجتا ہے۔مولوی لکھوی ممبئی میں دہشت گردی کے منصوبے کا چیف تھا۔ مقدمے میں اپنا کیس ثابت کر چکے ہیں۔ عدالتوں نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ہم ان عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر اپنا کیس سلامتی کونسل کے سامنے لے کے جائیں گے‘ تو کسی بھی رکن کو دہشت گردی کے حق میں بولنے کی جرأت نہیں ہو گی۔‘‘ مودی صاحب نے اپنے نادر خیالات کا اظہار کر کے‘ فخر سے سب کی طرف دیکھا۔ فیصلہ ہوا کہ ہم سلامتی کونسل میں جا کر پاکستان کے خلاف اپنا کیس ثابت کریں گے۔ کیس سلامتی کونسل کے سامنے گیا‘ تو سب نے دہشت گردی کے خلاف تقریریں کیں‘ حتیٰ کہ چین نے بھی۔ جب چین نے دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی بیان کی‘ تو سارے بھارتی وفد کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ مگر جیسے ہی چینی مندوب نے آخری جملے ادا کئے‘ تو بھارتی وفد ٹھنڈا پڑ گیا۔ چینی مندوب نے کہا: ''دہشت گردی کے خلاف ہم سب اکٹھے ہیں‘ لیکن بھارت اپنا کیس ٹھیک طرح سے پیش نہیں کر سکا۔ اس نے جو عدالتی فیصلہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے‘ اس میں بھی بہت سے نکات میں کمزوریاں ہیں۔ اس لئے بھارتی مطالبہ منظور نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ مودی صاحب اپنی پہلی ہی انٹرنیشنل سفارتی مہم میں‘ پہلے ہی قدم پر چت ہو گئے۔مگر اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں تھا۔ ہتھوڑا چین نے مارا۔ اب ہماری وزارت خارجہ بھی بھارت کی مدد سے ‘بھارت ہی کے خلاف ایک کیس لے کر یواین او میں جانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ مندوب ملیحہ لودھی کو فائنل تیاریوں کے لئے بریفنگ دی جا رہی ہے۔ ملادوپیازہ اور بیربل کی بریفنگ سننے کے بعد ملیحہ کیا کیس لے کر سلامتی کونسل میں جائیں گی؟ انتظار کیجئے۔