تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     02-07-2015

بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے

اسکاٹ لینڈ یارڈ نے طارق میر کے اعترافی بیان کو غلط قرار نہیں دیا‘ اسے اپنے ریکارڈ کا حصہ ماننے سے انکار کیا ہے۔ جب تک طارق میر خود اس بیان کی تردید اور سرفراز مرچنٹ اپنے بیان سے اظہار برأت نہیں کرتے‘ ایم کیو ایم کی جان چھوٹنا مشکل ہے۔ بھارت سے مالی اور اسلحی امداد لینے کے الزامات کی تردید برطانوی حکومت کرتی ہے نہ میٹرو پولیٹن پولیس اور نہ طارق میر‘ محمد انور اور سرفراز مرچنٹ۔
بنی اسرائیل کی طرح تاویل اور حیلہ جوئی میں ہمارے سیاستدانوں اور ان کے وفادار کارکنوں کا کوئی ثانی نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوم سبت کو شکار کے لیے ممنوع قرار دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں نے حیلہ سازی کی جس پر وہ ذلیل بندر قرار پائے۔ ہمارے ہاں سیاسی رہنما‘ مذہبی پیشوائوں کی طرح معصوم عن الخطا اور ہر عیب سے پاک سمجھے جاتے ہیں اس لیے ان کی ہر پہاڑ جیسی غلطی اور تباہ کن اقدام کو مخالفین کی الزام تراشی قرار دینے کا رواج ہے اور کوئی نہ کوئی تاویل گھڑ لی جاتی ہے۔
ہر باخبر شخص جانتا ہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم رکوانے کے لیے بھارت نے کس قدر سفارتی کوششیں کیں۔ بھارتی پریشانی اور بھاگ دوڑ قابل فہم ہے۔ اس نے ممبئی دھماکوں کو بنیاد بنا کر پاکستان کو ہر بین الاقوامی فورم پر نکّو بنا رکھا ہے۔ ذکی الرحمان لکھوی کی عدالتی فیصلے پر رہائی کا معاملہ وہ اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی میں لے کر گیا جہاں چین نے ویٹو کے ذریعے پاکستان کی جان چھڑائی ورنہ بھارت پاکستان پر مختلف النوع پابندیاں لگوانے کے چکر میں تھا۔
ذکی الرحمان لکھوی کی ممبئی حملوں میں شمولیت ایک متنازعہ اور دو ریاستوں کے مابین معاملہ ہے مگر الطاف حسین کے دو ساتھیوں کے اعترافی بیانات‘ خریدے گئے ہتھیاروں کی فہرست اور فراہم کردہ رقوم کی تفصیلات محض پاکستان کی الزام تراشی نہیں‘ برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی ریکارڈ کا حصہ ہے اور ایک ایسے نشریاتی ادارے کا سنسنی خیز انکشاف جس کی ساکھ بہت ہے اور وہ بھارت یا ایم کیو ایم سے کوئی پرخاش بھی نہیں رکھتا۔ الطاف بھائی کے اپنے بیانات ‘ ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کی کراچی میں سرگرمیوں اور صولت مرزا‘ اجمل پہاڑی اور دیگر کارکنوں کے خلاف عدالتی فیصلوں سے بھی اس تاثر کو بھر پور تقویت ملتی ہے جو بی بی سی کی دستاویزی فلم سے پیدا ہوا۔
اقوام متحدہ میں پیش کرنے کے لیے یہ ایک فٹ کیس ہے۔ پاکستانی اداروں کے پاس1992ء سے ثبوتوں کے انبار جمع ہیں۔ بدقسمتی سے کسی سیاسی اور فوجی حکومت نے قومی سلامتی اور ملکی وحدت و استحکام کے منافی ان سرگرمیوں کی روک تھام پر توجہ نہیں دی۔ بھارتی ریشہ دوانیوں کو عالمی سطح پر افشا کرنے سے بھی بوجوہ احتراز برتا؛ البتہ ایم کیو ایم کی انتخابی قوت کو کبھی حکومتوں کے قیام اور گاہے شکست و ریخت کے لیے خوب استعمال کیا۔ قوم1990ء سے یہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔ میاں نواز شریف‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف ‘ آصف علی زرداری نے بار بار یہ غلطی دہرائی۔ تبھی لوگ آج بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ کراچی آپریشن کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا؟ جرائم کا مکمل خاتمہ‘ ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ یا الطاف بھائی کی قیادت میں کراچی و حیدر آباد کی اس مقبول جماعت سے سودے بازی؟
اگر برطانیہ وہ ثبوت و شواہد حکومت پاکستان کے حوالے کر دیتا ہے جو اس کی ایجنسیوں نے حاصل کئے ہیں تو حکومت پاکستان نہ صرف اقوام متحدہ سے رجوع کر سکتی ہے بلکہ برطانیہ میں بھارت کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جا سکتی ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد نیو یارک کی فیڈرل کورٹ نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے دو سابق سربراہوں شجاع پاشا اور ندیم تاج کو طلب کیا تھا کیونکہ ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والے امریکی خاندانوں نے مقدمہ درج کرایا تھا۔ امریکی دفتر خارجہ اور محکمہ قانون نے ایف ایس آئی اے (Foreign Sovereign Immuniteis act)کے تحت کیس چلانے کی مخالفت کی اور یہ جواز عدالت نے قبول کیا۔ اب جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی''را‘‘ کے کراچی میں ہزاروں معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کے ثبوت مل رہے ہیں اور مرنے والوں میں برطانوی شہریت رکھنے والے بھی شامل ہیں تو پاکستان بھر پور فائدہ کیوں نہ اٹھائے اور برطانیہ کو مجبور کیوں نہ کیا جائے کہ وہ عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہماری جائز اور قانونی مدد کرے۔
آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردوں کے علاوہ ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کا قلع قمع کرنے پر قومی اتفاق رائے نے یہ موقع پیدا کیا ہے کہ پاکستان کو ایک پرامن‘ انسان دوست‘ قانون پسند اور روشن خیال جمہوری معاشرے میں تبدیل کیا جائے۔ تاہم یہ مقصد صرف شمالی وزیرستان‘ کراچی اور بلوچستان کے محدود علاقوں میں فوج‘ رینجرز اور ایف سی کے آپریشن سے حاصل ہو سکتا ہے نہ محض سرجری کسی مرض کا دائمی علاج ہے۔ ماضی میں ایسے تمام آپریشن اس بنا پر ناکام ہوئے کہ سرجری کے بعد مرض کے دوبارہ ابھرنے اور مریض کے مستقل شفایاب ہونے کی شعوری کوشش کبھی نہیں ہوئی۔
اب بھی اگر ماضی کی غلطی دہرائی گئی تو نتائج مختلف نہیں نکل سکتے۔ اگر پولیس‘ انتظامیہ ‘ عدلیہ ‘ تفتیشی اداروں اور منتخب حکمرانوں و عوامی نمائندوں کا قبلہ درست نہیں ہوتا‘ ناانصافی‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی‘ لوٹ مار‘ لاقانونیت اورسرکاری وسائل کی خرد برد کا موجودہ کلچر ختم نہیں کیا جاتا‘ عوام کو تعلیم‘ صحت ‘ روزگار کے مساوی مواقع فراہم نہیں کئے جاتے اور احساس محرومی کا قلع قمع نہیں ہوتا تو ملک بھر میں آپریشن کے بعد
دہشت گردوں‘ تخریب کاروں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کی ایک نسل ختم کر دینے کے باوجود ایک نئی اور تازہ دم نسل تیار ہو گی جسے بھارتی ''را‘‘ اور ہمارے دیگر دشمنوں کی ایجنسیاں گود میں لے کر یہ کھیل دوبارہ کسی دوسرے انداز میں شروع کر دیں گی اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
اس آپریشن کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے دائرہ پورے ملک میں ہر اس گروہ اور تنظیم تک وسیع کرنا پڑے گا جس نے قومی وسائل کی بے تحاشہ لوٹ مار‘ ناانصافی اور جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کے ذریعے عسکریت پسندی کو فروغ دیا اور اپنے تحفظ کے لیے مسلح گروہوں سے مصالحت کی یا ان کی موجودگی کو برداشت کیا۔ چھوٹا جرم ہی بالآخر بڑے جرم میں تبدیل ہوتا ہے اور بکری چور کو بنک ڈکیتی کا حوصلہ پڑتا ہے مگر یہاں بکری چور مجرم اور بنک ڈکیت محترم۔ کوئی شریف آدمی کبھی قانون شکنی کرتا ہے نہ غیر ملکی ایجنٹی۔ مگر قوانین یہاں محض شرفا کو تنگ کرنے کے لیے ہیں یا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو تحفظ و پروٹوکول دینے کے لیے۔ اس کلچر کا خاتمہ کیے بغیر پاکستان دہشت گردی سے پاک ہو سکتا ہے نہ مافیاز سے چھٹکارا ممکن۔
موجودہ کرپٹ سیاسی‘ اقتصادی ‘ معاشی اور سماجی ڈھانچہ کیا پاکستان کو دہشت گردی‘ لاقانونیت‘ بدامنی اور بے چینی سے پاک کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔کیونکہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور یہ پرامن بقائے باہمی کے اصول پر ایک دوسرے کے جرائم سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ سرے محل‘ سوئس اکائونٹس میں موجود لوٹ مار کی رقم آصف علی زرداری لے اڑے مگر نواز حکومت نے پوچھا تک نہیں کہ بھائی آپ تو ملکیت سے انکار کرتے تھے ۔کراچی اور سندھ میں لوٹ مار کے قطب مینار آسانی سے بیرون ملک فرار ہو گئے کسی نے روکا تک نہیں‘ یہی حال دوسرے صوبوں کے ڈاکوئوں اور لٹیروں کا ہے۔
اگر آپریشن کا دائرہ اس بنا پر وسیع نہ ہو سکا کہ سارے سیاستدان اور نام نہاد جمہوریت پسند مل کر رکاوٹیں کھڑی کریں گے اور بیرونی آقا ان کی پشت پر ہوں گے تو بہتر ہے کہ کراچی میں مزید بے چینی پیدا کرنے اور بھارت کو ایک طبقے کی سیاسی عصبیت سے مزید فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینے کے بجائے فوری طور پر ہاتھ روک لیا جائے۔ سیاستدانوں کو بیورو کریسی سے مل کر ''اصلاح احوال‘‘ کے اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ عوام جمہوریت کے بھر پور انتقام سے فیضاب ہو سکیں۔ لیکن اگر مکمل تطہیر میں ملک و معاشرے کی بقا کا راز پوشیدہ ہے تو پھر دیر کس بات کی اور سست روی کیوں؟ قوم کی بھر پور پشت پناہی‘ سیاسی تائید و حمایت اور دعائوں کے بعد بے فیض اور بے ثمر سیاسی‘ معاشی اور سماجی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا آسان ہے۔ آثار یہی ہیں کہ پیش رفت جاری ہے اور نتیجہ خیز اقدامات متوقع۔ ایم کیو ایم کراچی بند کرنے کی صلاحیت کھو چکی اور پیپلز پارٹی سندھ میں اس قابل نہیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی کوئی آپریشن کا راستہ روک نہیں سکتا۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved