تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     02-07-2015

ایک پیش گوئی جو پوری ہونے جا رہی ہے؟

تین سال پہلے ہنری کسنجر نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ''اگلے دس سال میں دنیا میں اسرائیل نامی ریاست نہیں ہوگی ‘‘۔ کیا اپنی گھنائونی کارروائیوںکے باعث اسرائیل یہ پیش گوئی خود ہی پوری کرنے جارہا ہے؟ سابق امریکی وزیر خارجہ نے یہ ڈرامائی بیان میڈیا کو حیرت کے سمندر میں غوطے دینے کے لیے نہیں دیا تھا اور نہ ہی یہ محض ایک بیان تھا، اس کے پیچھے بیاسی صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تھی۔۔۔۔۔ ''اسرائیل کے بعد مشرق ِو سطیٰ‘‘۔
سولہ انٹیلی جنس ایجنسیوںپر مشتمل امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے تعاون سے لکھی جانے والی رپورٹ کے مصنفین نے نتیجہ نکالا کہ اس وقت اسرائیل امریکی مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کے طرز ِعمل اور رویے کی وجہ سے امریکہ کے عرب اور مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آتا جا رہا ہے۔ لہٰذا یہ ریاست وسیع تر عالمی برادری کے درمیان ناچاقی پیداکرنے اور اس کے باہمی تعلقات کو تنائو کا شکار کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین رپورٹ جس کا عنوان '' ایف ‘‘ ہے کے مطابق اقوام متحدہ نے اسرائیل پر2014ء کی غزہ جنگ کے دوران روا رکھی جانے والی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے۔ اس رپورٹ میں حماس پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس کی طرف سے اسرائیل کے شہریوں پر راکٹ برسائے جاتے ہیں۔
اسرائیلی اور فلسطینی رہنمائوں کی جانب سے الزام در الزام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس تنائو کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ رمضان کے مقدس ایام میں بہت سے مسلمان القدس جاکر مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ مسجد خانہ کعبہ اور مسجد ِ نبویﷺ کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مقدس چٹان پر تعمیر کردہ یہ مسجد وہ مقام ہے جہاں سے ہمارے رسولﷺ معراج شریف پر روانہ ہوئے۔ جب میں حالیہ سفر کے دوران اسرائیل گئی تو میرے ساتھ بس کی نشست پر ایک نوجوان عورت بیٹھی ہوئی تھی، اس کا نام جہاں تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کے والدین کی شدید خواہش تھی کہ وہ رمضان کے دوران اس مقدس مقام کی زیارت کریں ، لیکن اسرائیل نے ویزہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اُس وقت ہماری بس کنگ حسین برِج (اردن) پر سے گزررہی تھی۔ جہاں، ریاض میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے جبکہ اُس کے والدین عمان میں مقیم ہیں۔ اس کی ایک بہن یروشلم میں رہائش پذیر ہے۔ جہاں نے مجھے بتایا کہ اس کی بہن کا ایک چھوٹا بچہ ہے جس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے کے بہانے اسرائیلی حکام نے اُسے ویزہ جاری کیا تھا۔
قدیم شہریروشلم اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ مسلمان اسے بیت المقدس یا القدس کہتے ہیں۔ اسی شہر میں مسجد اقصیٰ اور
قبۃ الصخرہ (ڈوم آف راک) ہیں۔ میں محسوس کرسکتی ہوںکہ یہاں بہت تنائو کی سی کیفیت ہے۔ حال ہی میں فلسطینی شہری نے ایک اسرائیلی پولیس مین کو چھرا گھونپ کر ہلاک کردیا تھا۔ کئی سالوں سے اس شہر کے قبضے کے لیے مسلمانوں اور یہودیوںکے درمیان جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ حالیہ تاریخ کا خوفناک ترین تصادم 1969ء کی جنگ تھی جب اسرائیلی فوجیوں نے اقصیٰ مسجد کو نذرِ آتش کرتے ہوئے اُس منبر کو تباہ کردیا جو صلاح الدین ایوبی کے دورکی نشانی تھا۔ یاد رہے کے یروشلم یا بیت المقدس کو صلاح الدین ایوبی نے یروشلم فتح کیا تھا۔ اُس کے بعد سے غیر مسلموں کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب میں اس مسجد میں داخل ہوئی تو ایک گارڈ نے کہا سورۃ فاتحہ کی تلاوت کریں۔ اس علاقے کا انتظام ایک اسلامی ٹرسٹ کے پاس ہے جس کی سرپرستی اردن کرتا ہے۔ یہاں صرف مسلمانوں کو ہی داخلے کی اجازت ہے۔
رمضان المبارک کے دوران اسرائیل مسلمان عبادت گزاروں پر بہت سختی کرتا ہے۔ وہ غالباً یہاں فلسطینی نوجوانوں کو داخل ہونے سے روکنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسرائیلی پولیس کے ساتھ نہ الجھیں۔ گزشتہ برس پچاس سال سے کم عمر مسلمانوں کوجمعۃ الوداع ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ شنید ہے کہ اس سال اسرائیل غزہ سے آٹھ سو کے قریب مسلمانوں کو نماز ِجمعہ کی ادائیگی کی اجازت دے گا۔ اس دوران غزہ کے دو سو شہریوں کو بھی مغربی کنارے میں رہنے والے اپنے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت ہوگی۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ یہ اجازت بیان بازی سے آگے نہیں بڑھے گی اور اسرائیل عملی طور پراس کی اجازت نہیں دے گا۔ ایک شہری نے مجھے بتایا کہ یہ صرف اس وقت ہوگا جب ہنری کسنجر کی پیش گوئی سچ ثابت ہوگی۔ دریں اثنا فلسطینی وزیر ِخارجہ نے اسرائیلی جارحیت کا واضح ثبوت پیش کیا ہے۔ لگتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو حسب دستور ہنری کسنجر کی مذکورہ رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیںگے اور وہ آئندہ بھی اس طرح کی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے رہیں گے، یہاں تک کہ ایک دن ان کا اپنا ملک اسی ٹوکری میں جاگرے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved