وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ میں اربوں کی خوردبرد کے مقدمات نیب میں بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لاڑکانہ ڈیویلپمنٹ‘ شہید بے نظیر آباد ڈیویلپمنٹ اور تعمیر کراچی پروگرام سمیت 10 منصوبوں میں 59 ارب روپے کی خوردبرد کے 32 کیسز بنائے جائیں گے جبکہ ان منصوبوں کے پراجیکٹ ڈائریکٹرز جنرل اور انجینئرز کے خلاف یہ مقدمات تیار کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ یہ پاکستان کے دل کی آواز ہے کہ کراچی آپریشن کو کسی رورعایت کے بغیر اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ اس اندھیر گردی کا قلع قمع ہو سکے۔
اگر تو صرف کراچی میں کرپشن اور خوردبرد کا بازار گرم ہے اور ملک کے باقی صوبوں بالخصوص پنجاب میں ان جرائم کی شکایات نہیں ہیں اور یہاں حاکموں کے آشیانوں پر سادھو سنت ہی بیٹھے ہوئے ہیں تو پھر اس آپریشن کو بیشک کراچی تک ہی محدود رکھا جائے‘ اور اگر پنجاب میں اربوں سے لے کر کھربوں تک کی خوردبرد کھلے بندوں ہو رہی ہے اور جس کی غیر تردید شدہ کہانیاں لوگوں کو ازبر ہونا شروع ہوگئی ہیں تو ان سے چشم پوشی کر کے وفاقی حکومت کس غیرجانبداری اور بے امتیازی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وفاقی سطح کے اربوں کے جو سکینڈلز منظرعام پر آ رہے ہیں وہ ایک الگ مواد ہے جو پوری کتاب کا متقاضی ہے۔
یہ شور بطور خاص مچایا جاتا ہے کہ صفائی ستھرائی جب تک اپنے گھر سے شروع نہ کی جائے‘ وہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی اور نہ اسے کوئی اعتبار ہی حاصل ہوگا بلکہ بڑی آسانی سے کہا جا سکے گا کہ صرف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے بلکہ متاثرہ پارٹیوں نے یہ کہنا شروع بھی کردیا ہے۔ اور اگر وفاق اور پنجاب کی سطح پر یہ کام شروع کر بھی دیا جائے تو اس کی حیثیت ایک مذاق سے زیادہ نہیں ہوگی کیونکہ جب تک نیب اور ایف آئی اے وزیراعظم کی آہنی گرفت میں ہیں‘ اس سے انصاف اور غیر جانبداری کی ذرہ بھر بھی امید کیسے کی جا سکتی ہے اور اس میں دورائیں ہو ہی نہیں سکتیں۔
اور جہاں تک احتساب کے گھر سے شروع کیے جانے کا تعلق ہے تو کراچی میں سارا آپریشن چونکہ رینجرز اور فوج کے ذریعے کیا جا رہا ہے جو آرمی چیف ہی کو جواب دہ ہیں تو اس فارمولے کے مطابق ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف سب سے پہلے کارروائی ہونی چاہیے جو خوردبرد اور زراندوزی میں ملوث ہیں اور جن میں سے بعض کے خلاف انکوائریاں ہوئیں اور وہ گنہگار بھی ثابت ہوئے بلکہ کئی سول عدالت سے سزایاب بھی ہوئے اور جن کا معاملہ سابق آرمی چیف نے یہ کہہ کر اپنی تحویل میں لے لیا کہ فوج میں احتساب کا ایک اپنا نظام موجود ہے اور ہم انہیں اس نظام کے تحت ٹرائی کر کے سزا دیں گے۔ جن جرنیلوں نے بھاری جائدادیں بنائیں اور ملیں قائم کیں اُن سے کسی نے نہ پوچھا‘ نہ ہی اُن سے جنہوں نے سپریم کورٹ میں تسلیم کیا کہ انہوں نے سیاسی لیڈروں میں پیسے تقسیم کیے (اصغر خاں کیس) نہ اُن سے جنہیں اوجڑی کیمپ سانحہ مالا مال کر گیا اور نہ ہی اُن سے جنہوں نے تین دریا بھارت کے ہاتھ بیچ کھائے!
علاوہ ازیں جنرل (ر) پرویز مشرف جن کے خلاف قتل اور غداری کے الزامات کے تحت متعدد مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور فوج کی یہ خواہش ہرگز ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ مقدمات کے باوجود اب بھی یہ خیال عام ہے کہ اس ضمن میں حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ طے پا چکا ہے جس کے تحت موصوف کی آخر گلوخلاصی ہو جائے گی جبکہ مقدمات کی پیروی بھی سابقہ جوش و خروش کے ساتھ نہیں کی جا رہی۔
چنانچہ اگر مذکورہ جرنیلوں کا احتساب نہیں کیا جاتا اور ان کے مقدمات اور معاملات پر مٹی ہی ڈالی جاتی رہے گی تو کراچی میں شروع کیے جانے والے احتسابی عمل کو اپنے اخلاقی جواز کی کمی ہی کا سامنا رہے گا۔
یہ تاثر بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ آرمی چیف موجودہ حکومت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور حکومت جس حد تک کمزور‘ کرپٹ اور نااہل ثابت ہو رہی ہے اور عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کی امید بھری نگاہیں جس طرح آرمی چیف پر جمی ہوئی ہیں‘ ان کا تقاضا ہے کہ اگر احتساب کرنا ہے تو سب کا کیا جائے اور سب کا احتساب ہوتا نظر بھی آئے کیونکہ صورتِ حال اس قدر نازک ہو چکی ہے کہ اگر عدلیہ سمیت کسی نے بھی کچھ نہ کیا تو تاریخ میں یہ سب کچھ اپنے آپ ہی درج ہو جائے گا کہ ملک کو کرپشن کے اس بھنور سے نکالنے کے لیے کون کیا کر سکتا تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔
کراچی کی صورت حال آئندہ چند دنوں میں دھماکہ خیز بھی ہو سکتی ہے اور اگر احتسابی معاملے کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کی بجائے موجودہ ناقابل قبول طرزِ عمل کے رحم و کرم پر رکھا گیا تو یہ معاملہ قابو سے باہر بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہر وہ کام جو اخلاقی جواز کے فقدان یا کمی کا شکار ہو‘ اس کے انجام سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اس بحران کا حل مارشل لاء میں ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی اس کا علاج کسی اور طرح سے فوج کے اقتدار سنبھالنے سے ہے کیونکہ حل ہونے کی بجائے مسئلہ اس سے زیادہ گمبھیر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ اسے اخلاقی جواز صرف غیرجانبداری اور نیک نیتی ہی سے دیا جا سکتا ہے اور جب تک آپ کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہوں گے‘ کسی اقدام سے بھی خیر کی توقع نہیں باندھی جا سکتی۔ وما علینا الالبلاغ۔
آج کا مقطع
ظفرؔ، وہ سانولا، چھوٹا سا ہاتھ رکھ دل پر
کہ وہ بھی دیکھے سفینہ خطر میں اتنا ہے