کام تھوڑا سا الٹا ہو گیا۔ جناب آصف زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونا تو یہی تھا مگر جیسا ہونا چاہئے تھا‘ ویسا نہیں ہوا۔ ایسے مواقع پر عموماً موسمی پرندے پہلے اڑتے ہیں لیکن زرداری صاحب کی ''انقلابی‘‘ تقریر کے بعد پارٹی کو جن لوگوں نے الوداع کہا‘ وہ تو اس پارٹی کے پرانے اور آزمودہ کارکن تھے اور ان کی شہرت بھی مخلص اور ایماندار کارکن کی رہی ہے‘ جیسے اشرف سوہنا‘ پارٹی سے وفاداری میں ہمیشہ نمایاں رہے اور ''انقلابی‘‘ تقریر کے بعد پارٹی چھوڑنے میں وہی پیش پیش تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ بغیر کچھ بتائے‘ انہوں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔ وہ کئی دن پہلے سے بے اطمینانی کا اظہار کر رہے تھے اور پارٹی قیادت کو اپنے جذبات سے آگاہ بھی کر دیا تھا‘ مگر ان کا گلہ یہ ہے کہ میری اس بے اطمینانی سے باخبر ہونے کے باوجود‘ مجھے پارٹی کے موجودہ قائدین میں سے کسی نے رسماً بھی یہ نہیں کہا کہ ''آپ اتنے پرانے ساتھی ہیں‘ اپنی شکایات قیادت تک پہنچا کر ان کا ردعمل دیکھ لیں اور آخری فیصلہ پھر کریں۔ وہاں تو کسی نے پوچھا ہی نہیں‘‘۔ جس کا صاف مطلب تھا کہ پارٹی کی موجودہ انقلابی قیادت کو پرانے کارکنوں کی ضرورت نہیں۔ صمصام بخاری جیسے سیاست دان‘ ہر جماعت کے لئے باعث اعزاز ہوتے ہیں۔ ان کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ انتخابات میں ان کی کامیابی کے امکانات ہمیشہ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے حامیوں کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے‘ جو اکثر ان کا ساتھ دیتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد‘ وہ غریبوں کی مدد کے لئے آیا ہوا تحفے کا ہار تو کیا انگوٹھی بھی گھر لے کر نہیں گئے۔ جن کا حق تھا‘ انہیں پہنچا دیا۔ عام طور سے جہاں ایک وزارت میں دو وزیر ہو جائیں تو ہمیشہ سینئر وزیر کام پر جپھا مار کر بیٹھتا ہے جبکہ چھوٹا وزیر‘ اپنے لئے کام تلاش کرتا رہتا ہے تو اس میں دونوں کے درمیان کشمکش چل پڑتی ہے لیکن صمصام بخاری اتنے بے نیاز قسم کے وزیر تھے کہ کائرہ صاحب نے جو کام ان کے لئے چھوڑ دیا‘ انہوں نے کر دیا۔ خود کبھی اختیارات کے لئے ہاتھ پیر نہیں مارے‘ لیکن کائرہ صاحب خود بھی مالیاتی دلچسپیاں رکھنے والے وزیر نہیں تھے‘ انہیں صرف کام سے غرض تھی۔ یہی سبب ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات میں‘ چھوٹے بڑے وزیر کے درمیان کبھی زور آزمائی نہیں ہوئی۔ پارٹی سے ان کی وفاداری شک و شبے سے بالاتر تھی۔ ''انقلابی‘‘ تقریر کے بعد ان کے پارٹی چھوڑ نے پر‘ اپنوں اور غیروں‘ سب کو تعجب ہوا۔
میں ذاتی طور پر‘ اسے آصف زرداری صاحب کی قائدانہ طبیعت کا نتیجہ سمجھتا ہوں‘ مثلاً وہ بھٹو صاحب اور بی بی شہید کے سیاسی کارناموں پر یوں قبضہ جما کر بیٹھے کہ دونوں باپ بیٹی نے جو بھی بڑا کام کیا‘ وہ اسے خود سے منسوب کر کے اس طرح کریڈٹ لیتے تھے‘ جیسے شروع ہی سے پارٹی کی قیادت‘ وہی کرتے آ رہے ہوں۔ وہ یہ کہنے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے کہ شملہ معاہدہ ''ہم نے کیا تھا‘‘۔ ان کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ اگر کبھی شملہ معاہدہ کا ذکر آتا تو وہ کہتے کہ ''میں نے مذاکرات میں اندرا گاندھی کو قائل کیا۔ میں نے مغربی پاکستان کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ میں نے اپوزیشن کے دانت کھٹے کر دیے‘‘۔ وہ سارے کریڈٹ یوں لیتے تھے‘ جیسے بھٹو صاحب اور بی بی شہید محض ان کی سیاسی قیادت کے لئے میدان ہموار کر رہے تھے۔ اصل قیادت کے فرائض انہی کے سپرد ہونا تھے۔ موقع پرست تو اس طرح کے دعوے سن کر خاموش ہو جاتے ہیں‘ مگر بعض خوشامد میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ''جی پارٹی کو سچی قیادت تو آپ کی آمد سے ملی ہے‘‘۔ زرداری صاحب کے وفاداروں کی پوری ٹیم دوران اقتدار‘ ان کے جو قصیدے پڑھتی رہی‘ اتنے شاید خود بھٹو صاحب کے بھی نہ پڑھے گئے ہوں۔ ان کی خوشامد کرنے والے زیادہ خوش نصیب بھی نہیں ہوتے ہوں گے۔ ایک جلسے میں کوئی صاحب بڑھ چڑھ کر‘ جئے بھٹو‘ جئے بھٹو کے دیوانہ وار نعرے لگا رہے تھے‘ جس سے بھٹو صاحب کی تقریر میں خلل پڑ رہا تھا۔ دوسری تیسری بار جیالے نے نعرہ لگایا تو بھٹو صاحب نے جھاڑتے ہوئے کہا ''چپ کر اوئے چمچے‘‘۔ ایسے لیڈر کی خوشامد کر کے کسی کو کیا حاصل ہونا تھا؟ بھٹو صاحب کے خوشامدی بڑے ماہر اور تجربے کار تھے۔ ہمیشہ تخلیے میں وفاداری کا اظہار کرتے۔ ماہر فن خوشامدی کو بھٹو صاحب کی خوشنودی حاصل ہو جاتی اور اناڑی خوشامدی کو جھڑکیاں پڑ جاتیں۔ زرداری صاحب کے ہاں الٹا حساب ہے۔ اناڑی خوشامدی ان کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے اور ماہر خوشامدی کی وفاداری کا زرداری صاحب‘ کو اندازہ اس وقت ہوتا‘ جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے‘ ماہر خوشامدی نہ صرف انہیں سب سے پہلے چھوڑتے بلکہ جتنی کمائی بطور امانت قائد نے اس کے پاس رکھوائی ہوتی‘ وہ اسے ہمیشہ کے لئے ہضم کر کے فارغ ہو جاتا۔ مجھے پاشا نامی ایک شخص کا نام یادآتا ہے جو ان کا ٹی وی چینل کھولنے کے نام پر کروڑوں روپے جیب میں ڈال کر رفوچکر ہو گیا تھا‘ لیکن یہ ماننے کی بات ہے کہ ان کے دور اقتدار میں میاں منظور وٹو جیسے مثالی وفادار بھی زرداری صاحب کو مل جاتے ہیں۔ وٹو صاحب وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جنرل مشرف اگر مزید چند روز اقتدار میں رہ جاتے تو یقینا ان کے وزیر اعظم‘ وٹو صاحب تھے۔ زرداری صاحب کا بھی اگر دائو لگا تو ان کے آئندہ وزیر اعظم‘ وٹو صاحب ہی ہوں گے۔ ان کے پارٹی کے اندر موجود رہنے کا سبب بھی یہی ہو سکتا ہے‘ لیکن وہ اتنے بھی اناڑی نہیں کہ اگر زرداری صاحب کے اقتدار کا وقت دور ہوا تو رشتہ وفا کو بلاوجہ طول دیتے رہیں گے۔ ان کے پارٹی کے اندر موجود رہنے کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک زرداری صاحب کے اقتدار کا نزدیک ہونا اور دوسری وجہ یہ کہ انہیں جس ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے‘ وہ اسے مکمل کرنے کے بعد ہی پارٹی سے فارغ ہوں گے‘ یعنی وہ پارٹی چھوڑ کر جانے والے آخری شخص ہوں گے۔
تجربہ تو یہی ہے کہ وٹو صاحب جس کے ساتھ بھی عہد وفا استوار کر لیں‘ اس کے اقتدار کے آخری دن تک وہ اس کے ساتھ رہتے ہیں‘ مگر اس مرتبہ زرداری صاحب کے ساتھ وفاداری کرنے والی ایک اور شخصیت نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ وہ اپنے لیڈر سے عہد وفا کا اتنی گھن گرج کے ساتھ اعلان کرتی ہیں کہ زرداری صاحب کے ساتھ‘ ان سے زیادہ کوئی وفاداری نہیں کر سکتا۔ انہوں نے ٹی وی چینلز پر خوب گرجتے ہوئے نعرہ لگایا کہ ''میں زرداری زرداری کرتی ہوں کیونکہ وہ بھٹو بھٹو کرتا ہے‘‘۔ مگر اینکرز بھی تیز طرار ہوتے ہیں۔ ایک اینکر نے بڑے بھول پن سے پوچھا؛ ''کیا آپ نے شادی کر لی ہے‘‘؟۔ موصوفہ نے اپنی شادی کی خبر کی فوراً تصدیق کر دی اور جب شوہر کا نام پوچھا گیا‘ تو انہوں نے دلیری سے جواب دیا کہ ''شوہر کا نام نہیں بتائوں گی‘‘۔ مجھے اپنے یا پیپلز پارٹی کے آخری وقت پر پتہ چلا کہ محترم خاتون ڈاکٹر تنویر زمانی پیپلز پارٹی کی ''ممتاز رہنما‘‘ ہیں۔ میری قسمت دیکھئے کہ میں نے بی بی شہید کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی انہیں کافی عرصے تک ممتاز رہنما نہیں مانا تھا۔ اب یہ دن بھی دیکھنا پڑ گیا کہ میں ڈاکٹر تنویر زمانی کا نام پہلی مرتبہ سنتے ہی‘ انہیں پیپلز پارٹی کی ''ممتاز رہنما‘‘ کی حیثیت میں جان رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ بفضل خدا ایک ماہر سرجن ہیں۔ انہوں نے شادی کرتے یا زرداری صاحب کو اپنا قائد تسلیم کرتے وقت‘ ان کی شخصیت کی یقیناً پوری سرجری کر لی ہو گی۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیںآئی کہ انہوں نے زرداری زرداری کا ورد شروع کرنے کے بعد‘ ہندو عورت کی طرح سفید لباس کیوں پہن لیا ہے؟ جب کسی لیڈر کا آخری وقت آتا ہے تو اس کے چاہنے والوں کی تعداد گھٹتے گھٹتے صرف 2 رہ جاتی ہے۔ پھر ان میں بھرپور مقابلہ ہوتا ہے اور آخری وقت پر صرف ایک وفادار رہ جاتا ہے۔ ابھی تک زرداری صاحب کے وفاداروں میں دو سے زیادہ لوگ شامل ہیں۔ ان میں جو تین نام جو مجھے نمایاں نظر آرہے ہیں‘ وہ منظور وٹو‘ ڈاکٹر قیوم سومرو اور ڈاکٹر تنویر زمانی ہیں۔ یہ زرداری صاحب کی سیاسی زندگی کا شاید آخری موقع ہو کہ ان سے وفا کرنے والے آخری تین رہ گئے ہوں۔ اب ان میں سے ایک‘ دو تین کہہ کر دوڑ لگانے کا وہ موقعہ ضائع نہیں کریں گے۔ اسے بھی کہیں‘ وفائوں کا چھابہ لگانے کی جگہ چاہئے۔ آخر میں صرف دو وفادار بچ جائیں گے۔ آخری مقابلہ ان کے درمیان ہو گا۔ ڈاکٹر تنویر زمانی اور ڈاکٹر قیوم سومرو۔ دیکھئے! ان میں سے کون فتح یاب ہوتا ہے؟ اگر ڈاکٹر صاحبہ کے شوہر کا نام قیوم سومرو نکلا تو پھر؟