کراچی میں غفلت برتنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''کراچی میں غفلت برتنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے‘‘ جس کے لیے نیب سب سے مؤثر ادارہ ہے جس سے اپنی مرضی کا اور پسندیدہ احتساب کروایا جا سکتا ہے اور جن کی مساعیٔ جمیلہ سے پلی بارگیننگ کے ذریعے خزانے میں کافی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ فالتو اضافہ کافی حد تک ٹھکانے بھی لگایا جا رہا ہے اور اب ماشاء اللہ غیرملکی قرضے کی برکت سے مالی ذخائر میں اس قدر ریل پیل ہو چکی ہے کہ میں وزیر خزانہ اور قوم کو اس کی مبارکباد بھی دے چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو جواب دینا ہوگا اور وہ اپنے جواب میں ہر طرح کا عذر پیش کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم لوڈشیڈنگ وغیرہ کے سلسلے میں پیش کرتے رہتے ہیں اور قوم اس پر یقین بھی کر لیتی ہے ا ور اب اس نے صبر بھی کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ عوام بنیادی طور پر صابر و شاکر واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا‘‘ بشرطیکہ یہ منطقی سلسلہ ہماری طرف ہی دراز نہ ہو جائے حالانکہ ہم منطقی وغیرہ میں یقین ہی نہیں رکھتے۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعلیٰ سندھ فوری تحقیقات کرائیں‘‘ کیونکہ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور ہماری تحقیقات کا بھی کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا جبکہ نتیجوں کا معاملہ ہم نے ویسے بھی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
عام بازاروں میں بھی اشیاء مناسب
داموں پر ملنی چاہئیں... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''عام بازاروں میں بھی اشیاء مناسب داموں پر ملنی چاہئیں‘‘ اگرچہ سستے بازاروں میں مناسب داموں پر ملنے والی اشیاء کی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی؛ تاہم وہ عام لوگوں کے معیار کے مطابق ہی ہوتی ہے کیونکہ جیسے عوام ہوتے ہیں‘ ویسی ہی کوالٹی بھی ہوتی ہے‘ یعنی جیسا منہ ویسی چپت؛ تاہم مناسب دام وہی ہوتے ہیں جنہیں دکاندار مناسب سمجھے اور اگر دکانداروں کا خیال ہم نہیں رکھیں گے تو اور کون رکھے گا جبکہ ہمارے اور اُن کے درمیان فرق اگر ہے تو اتنا ہی کہ ہم ذرا بڑے دکاندار ہیں اور اب تک سارا کچھ مناسب نرخوں پر ہی فروخت کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ناجائز منافع خوروں کی جگہ جیل ہے‘‘ اگرچہ انہیں جیل بھیجنے کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں ہے اس لیے انہیں اپنے آپ ہی اُدھر کا رُخ کر لینا چاہیے کیونکہ ہم عوام سے دعوے کرنے ہی میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ اپنے کاروبار کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتے۔ اگرچہ ہمارا سارا کام ماشاء اللہ آٹو میٹک طریقے سے ہی چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملتان میٹرو بس منصوبہ مقررہ وقت میں مکمل کیا جائے‘‘ تاکہ جو لوگ مہنگائی‘ بے روزگاری اور طبی سہولتیں نہ ملنے کے بعد بھی زندہ رہ جائیں انہیں کم از کم سفر تو سہولت سے کرنے کو ملے‘ اگرچہ آخرت کا سفر اختیار کرنے والے یہ سفر زیادہ سہولت سے کر چکے ہوں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سٹی اینڈ گلڈ کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
وفاق نے ایف آئی اے سے پولیس
کے اختیارات واپس نہ لیے تو
عدالت جائیں گے... قائم علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''وفاق نے ایف آئی اے سے پولیس کے اختیارات واپس نہ لیے تو عدالت جائیں گے‘‘ کیونکہ ایف آئی اے صرف شرفاء کو تنگ کر رہی ہے اور ان کے روزگار پر لات مارنے میں مصروف ہے حالانکہ لینڈ مافیا‘ بھتہ خوری اور دیگر ذرائع سے رزق حلال روزِ اول سے کمایا جا رہا ہے اور آج تک کسی نے اس پر اعتراض کیا ہے نہ کارروائی؛ چنانچہ ان معززین کی طبع کے خلاف ایسی کارروائیاں بند ہونی چاہئیں اور عرصۂ دراز سے جاری اس سسٹم کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش نہ کی جائے جو ہماری روایات کا ایک راسخ حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم صوبائی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دیں گے‘‘ جس میں سونے کی خودمختاری اور آزادی کو اولیت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ تقریبات اور اجلاسوں میں سو جانا تو ایک طرف‘ میں تو تقریر کرنے کے دوران بھی سو جاتا ہوں کیونکہ سونے کا جو اصلی وقت ہے وہ ان مندرجہ بالا معصوموں کی سرپرستی اور دیکھ بھال میں ہی گزر جاتا ہے جبکہ اس میں زبان کے لڑکھڑانے کی آزادی بھی شامل ہے جس کا مظاہرہ اکثر اوقات کرتا بھی رہتا ہوں؛ تاہم شکر ہے کہ ابھی میں نے خود لڑکھڑانا شروع نہیں کیا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اور‘ اب اقتدار جاوید کی چند تازہ نظمیں:
شیر کی آنکھ
دشت‘ دریائوں کے بیچ... گہرے ہرے رنگ کی شال میں... ایک لپٹا ہوا مٹی کا ٹکڑا ہے... مکھڑا ہے... اک تنومند‘ ہشاش رقاص کا... جو ہوا کی طرح... زندگی کے کڑے سے گزر جاتا ہے... دشت‘ شفاف چشمے سے... اک گھونٹ بھرتے ہرن کا... زمانوں پرانا المناک دکھڑا ہے... مشرق سے مغرب تلک... جتنی رنگیں پرندوں کی ڈاریں ہیں... جنت سے آئی ہوئی... برف کے گالوں کی طرح اڑتی ہوئی... روشنی میں نہائی ہوئی... جتنی پریوں کی کومل قطاریں ہیں... انواع و اقسام کے جتنے حشرات ہیں... شیر کی آنکھ سے کوئی اوجھل نہیں ہے... درخت اور درختوں کی رنگین شاخیں... درختوں کی رنگین شاخوں پہ پکتے ہوئے پھل... سبھی شیر کی آنکھ میں ایک چلتی ہوئی فلم کی طرح محفوظ ہیں... دشت کا کوئی گوشہ... ہزاروں برس کی کتھا سے بھرا کوئی گوشہ... کہیں کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے... جہاں شیر کی... تیز طرار‘ گولی کی صورت نکلتی ہوئی آنکھ... جا کر ٹھہرتی نہ ہو... شیر نے آنکھ کے ایک کونے میں... مستی سے لبریز بچوں کو... اور دوسرے میں... کسی حاملہ شیرنی کو چھپایا ہوا ہے... فقط شیر کی آنکھ میں... دشت سارا سمایا ہوا ہے!
اندھراتا
میں پردہ گرانے لگا ہوں... پلک سے پلک کو ملانے لگا ہوں... زمانہ مرے خواب میں آ کے رونے لگا ہے... میں اونٹوں کو لے آئوں... آخر کہاں جا کے چرنے لگے ہیں... جہاں پر... پرندے پروں کو نہیں کھولتے... جہاں... سرحدیں ہیں فلک جیسی قائم... وہاں پائوں دھرنے لگے ہیں... میں بھیڑوں کو دوہ لوں... کئی مائوں کی چھاتیاں... چھپکلی کی طرح... سوکھے سینے کی چھت سے... اک عرصے سے لٹکی ہوئی ہیں... انہیں جا کے موہ لوں... کئی ناختائیں... کہ واپس پلٹنا تھا جن کو... چمکتی دوپہروں سے پہلے... وہ مرگ آسا اندھے خلائوں میں... بھٹکی ہوئی ہیں... گدھے والا... بے وزن روئی کو لادے ہوئے... شہر سے لوٹ آیا ہے... ہلکی تھی روئی... بہت بھاری دن تھا... طلہ دوز تاجر سے... موتی بھی لانے کا... اس سے کہا تھا... جو رنگیں عروسانہ جوڑے میں... جڑنے ہیں... ناداں دلہن کو بھی معلوم ہے... تیز بارش تو ہونی ہے... اولے تو پڑنے ہیں... نازک سی ٹہنی پہ جھولا ہے... جھولے کی رسی ہے نازک... سو رسی میں بل آخرِ کار پڑنے ہیں... اندھراتا بڑھنے لگا ہے... مچھیرے نے دریا سے واپس بھی آنا ہے... تندور میں... گیلی شاخیں جلانی ہیں... تندور کی طرح... خوابوں بھری جل رہی ہے... اُسے بھی کشادہ‘ بھرے بازوئوں میں تو آنا ہے!
آج کا مطلع
جھڑپ اور جھگڑا تو ہونا ہی تھا
محبت میں اتنا تو ہونا ہی تھا