داعش کے لیڈران نے اپنے ٹریننگ کیمپ میں پانچ سے آٹھ سال تک کی عمر کے بچوں کو خود کش جیکٹیں پہناتے ہوئے جنت کی بشارت دی تو ایک بچے نے چند قدم دور کھڑے دوسرے بچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معصومیت سے کہا کہ اسے بھی میرے ساتھ جنت میں بھیج دیا جائے۔ خود کش جیکٹ پہنانے والے نے چند لمحوں تک اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر اسے بازو سے پکڑ کر چند سیکنڈ تک ہوا میں لہراتے ہوئے پوری قوت سے دور اچھال دیا۔ ایک کربناک چیخ بلند ہوئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ اس بچے نے جس دوسرے بچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے بھی جنت میں جانے کیلئے خود کش جیکٹ پہنا کر ساتھ بھیجنے کو کہا تھا وہ عراق کے شہر رماوی کے قریبی علاقے میں داعش کے مقامی سربراہ کا بیٹا تھا۔ پانچ سے آٹھ سال تک کی عمر کے بچوں کا دہشت گردی کیلئے استعمال پاکستان ،افغانستان اور عراق میں داعش اور تحریک طالبان کی جانب سے دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور شاید یہ سرکار دوعالمؐ کے احکامات اور سنت کی مخالفت کی وہ آخری حد تھی جو آئی ایس آئی ایس (داعش) اور تحریک طالبان پاکستان نے پار کر لی ہے۔ دین کی ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ نبی کریمؐ بچوں کو جنگ میں شامل نہیں کیا کرتے تھے اور کفار کے مقابلے کے لیے روانہ ہونے والے اسلامی لشکر کا باقاعدہ معائنہ کیا کرتے کہ کہیں ان میں دس سال سے کم عمر کے بچے تو شامل نہیں۔ جب اسلام میں دین کے ستون نماز کی پابندی دس سال کی عمر تک کے بچوں کیلئے لازمی قرار دی گئی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دس سال سے کم عمر کے بچوں کو خود کش حملوں اور جنگوں کیلئے استعمال کیا جائے؟ بلکہ رمضان المبارک کے روزے بھی اس وقت تک فرض نہیں جب تک بچے بلوغت تک نہ پہنچ جائیں؟ لیکن احکاماتِ رسول اﷲ کے برعکس القاعدہ، داعش اور تحریک طالبان9 سال سے کم عمر کے بچوں کو خود کش حملوں میں استعمال کر رہی ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کے خلاف کبھی مسجدوں میں تو کبھی سکولوں ، بسوںاور بازاروں میں۔
کیا داعش اور القاعدہ سمیت تحریک طالبان اتنا بھی دینی علم نہیں رکھتے کہ چاروں خلفائے راشدینؓ نے اپنے اپنے ادوار میں جنگوں پر جانے والی فوجوں کو مقابل فوج کے بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے سختی سے منع کیا تھا؟لیکن سب نے دیکھا کہ تحریکِ طالبان نے پشاور کے آرمی پبلک سکول کے بچوں کا قتل عام کیا۔ تحریک طالبان اور داعش کی بر بریت اور کفر کی انتہا اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے نزدیک یہ پانچ سات سال کی عمروںکے بچے وہ زبردست ہتھیار ہیں‘ جن پر کسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا اور انہیں وہ جب چاہیں‘ جیسے چاہیں‘ جہاں چاہیں آسانی سے قتل عام کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ داعش اور تحریک طالبان اس بات پر خوش ہیں کہ ان بچوں کے کسی بھی جگہ آنے جانے پر شک نہیں کیا جا سکتا۔اب تک عراق، شام، پاکستان اور افغانستان سمیت بہت سے مسلم ممالک میں اس قدر بے گناہ بچے اور عورتیں خود کش حملوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں کہ ان کا حساب لگایا جائے تو انسانیت کانپ کر رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں خود کش اور فدائی حملوں میں پچاس ہزار کے لگ بھگ بے گناہ اور انتہائی غریب مسلمان شہید ہوچکے ہیںاور جو ان حملوں میں بچ گئے ان میں سے کئی زندگی بھر کیلئے معذور ہو گئے۔ ان کا کیا قصور تھا ؟ پانچ سے سات آٹھ سال عمر کے بچوں کو خود کش دھماکوں کے لیے استعمال کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ ان خود کش حملوں میں جاں بحق ہونے والے ایک خدا ،قرآن اور ایک رسولؐ کے ماننے والے تھے۔ یہ سب صبح شام قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کر رکھی تھی۔ انہوں نے مقامِ ابراہیمی پر سجدے کیے تھے۔ حجر اسود کے بوسے لیے تھے۔ روضۂ رسول اﷲ پر نہ جانے کتنی بار اپنا ما تھا رگڑا ہوگا۔ پیارے نبیؐ کے روضہ اقدس کے سبز گنبد کی چھائوں میں انہوں نے نہ جانے کتنے آنسو بہائے ہوں گے۔ تمہارے فدائی حملوں کا شکار ہونے والے کئی اسلام کے نام لیوا ا پنے گھروں سے اپنے بچوں کیلئے رزق حلال کمانے نکلے ہوں گے
اور کیا تم رسول اﷲﷺ کا یہ فرمان بھی بھول گئے ہو کہ حصولِ رزقِ حلا ل عین عبادت ہے اور تم نے انہیں عین عبادت کے دوران شہید کر دیا۔ جن کو تم نے عین عبادت کے دوران شہید کیا‘ ان کا مرتبہ تو اپنے اﷲ کے حضور اور بلند ہو گیا‘ لیکن فدائی حملے کرنے والے اور کروانے والے اﷲ کے غضب کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
اسلام کے قلعہ کے نام سے جانے والے وطن پاکستان کی محافظ فوج ایف سی‘ لیویز اورپولیس کے اہل کاروں اور دوسرے راہ چلتے مسافروں کو جہاد کے نام پر قتل کرنے والو!! معصوم بچوں کو ورغلانے والو!! قرآن پاک کی سورہ نساء کی یہ آیت نمبر 94 ایک بار پھر پڑھ لو ''اے ایمان والو! جب تم جہاد کو چلو تو تحقیق کر لو اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں‘‘۔اس آیت مبارکہ کی شان نزول یہ ہے کہ مرداس بن نہیک جو اہل فدک تھے اور ابھی ان کے قبیلہ کا کوئی فرد سوائے ان کے مسلمان نہیں ہوا تھا‘ ایک دن ان کے قبیلہ والوں نے دور سے ایک لشکر کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو سب بھاگ گئے لیکن مرداس نے چونکہ اسلامی لشکر کا جھنڈا دور سے ہی پہچان لیا تھا اس لیے وہ کھڑے رہے اور جب اسلامی لشکر قریب آیا تو انہوں نے آگے بڑھ کر السلام علیکم کہا‘ لیکن اسلامی لشکر کے اسامہ بن زید نے انہیں یہ سمجھتے ہوئے قتل کر دیا کہ وہ اپنی جان بچا نے کیلئے ایسا کر رہا ہے۔رسول اﷲ تک جب یہ خبر
پہنچی تو انہیں سخت صدمہ ہو ا اور وہ بہت نا راض ہوئے اس پر اوپر بیان کی گئی آیت مبارکہ نا زل ہوئی۔اب فدائی حملے کروانے اور کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اﷲ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے صاف حکم دے رکھاہے کہ اگر تم جہاد کیلئے نکلو تو السلام علیکم کہنے والے کو قتل نہ کرو۔ یاد رکھیں کہ اﷲ اوراس کے رسول کے احکامات کو نہ ماننے والوں اور اﷲ تعالیٰ کے رسولؐ کو ناراض کرنے والوں کے بارے میں سورہ انعام میں ارشاد ربانی ہے ''جنہوں نے ہما ری آیتیں جھٹلائیں انہیں اس نافرمانی کی پاداش میں سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘ (آیت نمبر 49) فدائی حملے کروانے والوں‘ معصوم بچوں کو ورغلاکر گمراہ کرنے والوں اور مسلما نوں کو آپس میں لڑانے والوں کے متعلق سورۃ النسا آیات 91-90 میں ارشاد خداوندی ہے ''ایک اور قسم کے منافق تمہیں ایسے ملیں گے‘ جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی‘ مگر جب کبھی فتنہ کا موقع پائیں گے اس میں کود پڑیں گے۔ ایسے لوگ اگر تمہارے مقابلے سے باز نہ رہیں اور صلح و سلامتی تمہارے آگے پیش نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو جہاں وہ ملیں انہیں پکڑو اور مارو‘ ان پر ہاتھ اٹھانے کے لیے ہم نے تمہیں کھلی حجت دے دی تھی‘‘۔ اپنے غیر ملکی آقائوں کی شہ پر اس طرح کے فدائی اور خود کش حملے کرانے والے‘ بم دھماکوں اور بارودی سرنگوں اور گھات لگا کر قتل کرنے والے‘ یہ سب لوگ اسلام اور قرآن کی رو سے ہر مسلمان کے دشمن ہیں اور قرآن پاک نے اس آیت مبارکہ کی رو سے قانون نا فذ کرنے والے اداروں کو انہیں قتل کرنے کا مکمل اختیار دے دیاہے اور یہی اصل جہاد ہے!