تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-07-2015

زائدالمیعاد

گوجرانوالہ میں ریل کے سانحہ کو دوسرا دن ختم ہونے والاہے۔ مگر ابھی تک حادثے کی وجہ معلوم کرنا تو دور کی بات ہے‘ وجہ معلوم کرنا کس کا فرض تھا؟ اسی کا فیصلہ نہیں ہو رہا۔ مثلاً حادثے کی وجوہ بتانے کا سارا کام محکمہ ریلوے کے حکام خود کر رہے ہیں، جن کی ذمہ داری بعد میں آتی ہے۔ سب سے پہلا کام ریلوے پولیس کا تھا، جس کا اپنا ایک آئی جی ہوتا ہے۔ سکیورٹی کی ذمہ داری ریلوے پولیس کی ہونی چاہیے اور یہ حادثہ سکیورٹی کی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہو سکتا تھا۔ مگر نہ تو ریلوے پولیس کے آئی جی موقع پر گئے نہ پولیس کے سکیورٹی سیکشن کے ماہرین نے موقع پر جا کر جائزہ لیا اور نہ کوئی رائے دی۔ علاقے کے حوالے سے گوجرانوالہ کے ڈی آئی جی‘ اپنے علاقے میں اتنے بڑے حادثے کے ذمہ دار تھے۔ ان کا بھی فرض تھا کہ وہ مقامی صورتحال کا جائزہ لے کر سکیورٹی والوں کی غلطی یا کوتاہی کو ظاہر کرتے۔ وہ بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ تبصرہ کون کر رہا ہے؟ وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق۔ وزیرکی معیت میں کون لوگ کھڑے تھے؟ ریلوے کے بابو۔ اصل میں یہی لوگ ہوتے ہیں‘ جو ایسے حادثوں کے حقیقی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ریلوے کے نظام میں سکیورٹی کا انتظام انتہائی فول پروف ہوتا تھا۔ چونکہ ریلوے کا نیٹ ورک بہت دور تک پھیلا ہوا ہے، اس لئے اس کی سکیورٹی کا نیٹ ورک بھی دور تک پھیلا ہوتا ہے۔ ریلوے لائن کی ہر جگہ سکیورٹی اور نگرانی کا کام ایک ایک فرلانگ پر کیا جاتا ہے۔ مثلاً سکیورٹی کے تہہ در تہہ انتظامات کا اندازہ چند باتوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ریلوے کے مستقل مزدور وں کا نیٹ ورک ایک علیحدہ تنظیم ہے۔ ان کی ہزاروں ٹیمیں ریلوے لائن کی دیکھ بھال پر مامور ہوتی ہیں اور ہر ٹیم کے حصے میں دو تین کلومیٹر کا علاقہ ہوتا ہے۔ یہ مزدور دن میں دوچار گھنٹے اپنے زیرنگرانی حصے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس دوران وہ صفائی کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ یعنی پٹڑی کے درمیان کہیں گھاس پھوس اگے یا کوئی غیرمعمولی چیز پڑی نظر آئے یا کہیں خرابی دکھائی دے جائے‘ تو اپنے حصے کا کام خود کر کے‘ وہ واقعہ کی اطلاع قریبی ریلوے سٹیشن تک پہنچاتے ہیں۔
دوسرا نیٹ ورک انسپیکشن کا شعبہ ہے۔ پرانے زمانے میں آپ دیکھتے ہوں گے کہ ریلوے لائن پر ایک ٹرالی دوڑا کرتی تھی جسے چلانے کے ذمہ دار مزدور ہوتے تھے اور اوپر ایک افسر اور اس کا ماتحت بیٹھے ریلوے لائن کا ہر طرح سے جائزہ لیا کرتے۔ انہیں ٹرالیئر کہا جاتا تھا۔ جہاں کوئی خرابی ہوتی ہوئی یا ہو چکی دکھائی دیتی‘ اسی وقت متعلقہ حکام کو اس کی اطلاع کر دی جاتی۔ اب دیکھ بھال کرنے کے سارے انتظامات شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ انگریز نے ریلوے کا نظام اپنی سہولت کے لئے بنایا تھا۔ تجارت کے علاوہ ریلوے کا استعمال دفاعی ضروریات کے لئے کیا جاتا۔ آزادی سے پہلے سڑکوں کا نظام اتنا وسیع نہیں تھا، لیکن ریل کی پٹڑی دور دور تک گئی ہوئی تھی اور جہاں بھی کوئی بغاوت یا
حکومت کودرپیش کوئی خطرہ سامنے آتا‘ تو فوجی دستوں کی تیزرفتار نقل و حمل کے لئے ریلوے سے کام لیا جاتا تھا۔ اسی طرح فوجی سامان کی تیزرفتار نقل و حرکت بھی ریلوے کے ذریعے ہی کی جاتی، اس لئے فوجی ٹرینوں کی سیکورٹی پر فوج کا ایک شعبہ بھی باقاعدہ نظر رکھتا۔ لیکن گوجرانوالہ کے سانحہ سے معلوم ہوا کہ ریلوے کی سکیورٹی میں اب فوج کا کوئی عمل دخل ہی نہیں رہ گیا، پاکستان میں جس طرح دہشت گردی کے خلاف فوج جنگ لڑ رہی ہے‘ ایسی صورتحال میں فوجی افسران اہل و عیال سمیت جس ٹرین میں سفر کر رہے ہوں‘ اس کی سکیورٹی کا تو غیرمعمولی تحفظ کیا جانا چاہیے تھا۔ حادثے کی پوری تفصیلات جاننے اور پڑھنے کے بعد میں تو یہی جان سکا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں ایک سو سے زیادہ فوجیوں کو لے کر جانے والی گاڑی کے لئے خصوصی سکیورٹی کے انتظامات ہی نہیں کئے جاتے، حالانکہ ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہو ‘ تو فوجی نقل و حرکت کے وقت غیرمعمولی حفاظتی انتظامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ دہشت گرد معاشرے کے ہر شعبے میں چھپے ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی جگہ‘ کسی بھی وقت فوجی دستوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی بھی حرکت کر سکتے ہیں، لیکن حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی‘ مجھے دہشت گردوں کی کارروائی نہیں لگتی۔ دہشت گردوں نے آج تک ریلوے کو نشانہ بنا کر جتنی بھی دہشت گردی کی ہے‘ اس میں ہر واقعہ ریلوے لائن پر ہوا۔ خدا کا شکر ہے‘ ریل کا ذریعہ استعمال کرنے والے فوجی ابھی تک دوران سفر محفوظ رہے۔ اس سانحہ کے بعد فوجیوں کی نقل و حمل کے دوران خصوصی حفاظتی انتظامات کا ایک سیکشن لازمی طور پر بنا دینا چاہیے۔ بنیادی طور پر یہ سانحہ ریلوے کی روایتی کرپشن کا نتیجہ لگتا ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ریلوے کا سارا محکمہ‘ ساری ذمہ داری دہشت گردوں پر ڈالنے کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔ ابھی تک سکیورٹی کے کسی ماہر یا ذمہ دار نے اس حادثے پر اظہار خیال نہیں کیا، جیسے ریلوے کا آئی جی یا علاقے کا ڈی آئی جی یا خفیہ ایجنسیوں کا کوئی ذریعہ۔ یہ سب خاموش ہیں۔ صرف ریلوے کے بابو بول رہے ہیں اور ان سب کا حاصل کلام یہی ہوتا ہے کہ سانحے کے ذمہ دار دہشت گرد ہیں اور وہ اسے دہشت گردی کا واقعہ ثابت کرنے پر سارا زور لگا رہے ہیں۔
حقائق یہ ہیں کہ ریلوے کا نظام ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے۔ پاکستانی اور بھارتی ریلوے کی عمر کم و بیش ایک ہے۔ بلکہ بھارتی ریلوے کا سارا ڈھانچہ
ہم سے زیادہ پرانا ہے۔ وہاں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے‘ تو بھارت میں ریلوے لائن کا شاید ہی کوئی ٹکڑا یا پل ایسا ہو‘ جس کی ازسرنو تعمیرنہ کی جا چکی ہو۔ انجن نئے آ چکے ہیں۔ پٹڑیوں اور پلوں کی ازسرنو تعمیر ہو چکی ہے اور مسافروں کے لئے سہولتوں کا مقابلہ کرنے میں تو ہماری ریلوے قرون وسطیٰ کی چیز لگتی ہے۔ ڈبے کھٹارا ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں ہماری ریلوے سروس تانگہ سروس کی طرح ہے۔ جہاں انجن چاہتا ہے گھوڑے کی طرح چلنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ ڈبوں کے اندر پانی کی فراہمی ہمیشہ ناقص رہتی ہے۔ کسی باتھ روم کا نل خراب ہوتا ہے‘ تو کسی میں پانی نہیں آتا اور کسی میں پانی ہو تو اس کی ٹوٹی مسلسل چل رہی ہوتی ہے۔ کرپشن بھارت میں بھی ہے۔ وہ مرغی کا انڈا کھاتے ہیں‘ مرغی نہیں کھاتے، لیکن ہماری ریلوے انتظامیہ ماشااللہ پاکستان کے ہر محکمے سے زیادہ کرپٹ ہے۔ سچ پوچھئے تو موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے حکومت اور عوام دونوں ہی ریلوے کو بھولی بسری کہانی تصور کرنے لگے تھے۔ سامان کی ٹرانسپورٹیشن کے لئے ٹرکوں کا استعمال ہونے لگاتھا اور مسافر سڑکوں کی ٹرانسپورٹ کا رخ کر چکے تھے۔ افسروں کے ٹھاٹ باٹ جوں کے توں تھے اور خسارہ حکومت پورا کیا کرتی تھی۔ سعد رفیق نے آ کے اس کھٹارا ریلوے سروس کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہاتھ پائوں مارے، لیکن سوسال پرانی اس مشینری کو ٹھیک کرنے کے لئے کم از کم 20سال تو درکار ہیں۔ اس کے پل، اس کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ریلوے سٹیشن‘ جن میں مسافر خانوں کا نام و نشان تک نہیں، اس کے انجن، اس کے ڈبے، ہر چیز بدلنے والی ہے اور یہ اتنا بڑا کام ہے‘ جو ریلوے کی موجودہ افسر شاہی اور ملازمین کر ہی نہیں سکتے۔ ریلوے کا سارا کھٹارا ڈھانچہ تبدل ہونے والا ہے۔اس زمانے کے انجن‘ ڈبے‘ کمیونیکیشن سسٹم‘ سارے کا سارا متروک ہو چکا ہے‘ جسے ریلوے کا موجودہ سٹاف استعمال کرنا جانتا ہے۔ مسافر ٹرینوں کا ٹائم ٹیبل‘ ٹرانسپورٹروں سے پوچھ کر تیار کیا جاتا ہے اور مال گاڑیاں‘ گڈز ٹرانسپورٹ مافیا کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ سے چلائی جاتی ہیں۔ اب تو خیر یہ سارا کچھ ہی گزرے زمانے کی کہانی بن گیا۔ نہ مسافر ریلوں کا رخ کرتے ہیں اور نہ گڈزٹرانسپورٹ کے لئے ریل گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قیمتی سامان کی تو کوئی گارنٹی ہی نہیں۔ مال گاڑی میں آپ نئی کار رکھیں اور وصول کرتے وقت ‘ پرانے ماڈل کی ٹوٹی پھوٹی کار دیکھ کر جھگڑا کریں کہ یہ میری نئی کار نہیں، آپ کی شکایت سننے والا کوئی نہیں ہو گا۔ البتہ اپنی کار کی تلاش میں آپ اتنا کچھ خرچ کر چکے ہوتے ہیں کہ جھگڑا نہ کرتے‘ تو نئی کار خریدلیتے۔ ہمارا ریلوے کا پورے کا پورا ڈھانچہ زائدالمیعاد ہے اور زائد المیعاد چیزوں کو استعمال کرنے کا مقصد مسلسل بے آرامی اور خسارہ ہے۔ اگر پاکستان کو ریلوے کا نظام درست کرنا ہے‘ تو اسے دس سال کے لئے مکمل طور پر فوج کے حوالے کر دینا چاہیے۔ یا پھر چینیوں کا انتظار کرنا چاہیے کہ وہ یہاں آ کر جدید ریلوے سسٹم متعارف کرائیں۔ ریلوے کا سارا نظام بھی ردی اور زائدالمیعاد، نظام کے چلانے والے بھی ردی اور زائدالمیعاد۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved