چھوڑ کر جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ دل پاکستان کے لیے دھڑکتے تھے۔ کام مسلم لیگ کے لیے دن رات کیا تھا مگر بٹوارہ ہوا تو یہی فیصلہ کیا گیا کہ یہیں رہیں گے۔ تعلقات مثالی تھے۔ کامنی بڑے ابا کی یعنی دادا کی بہن بنی ہوئی تھی۔ راکھی باندھی تھی۔ زمین تھی‘ مکان تھے‘ دکانیں تھیں‘ ایک پورا سلسلہ چل رہا تھا۔ بہت سے خاندان ان کے سامنے گھروں کو مقفل کر کے جا رہے تھے کہ حالات معمول پر آئے تو واپس آ جائیں گے۔ بڑے ابا کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ واپس ہی آنا ہے تو بھاگنے کی کیا منطق ہے؟
پھر یوں ہوا کہ جو آگ دور تھی‘ پاس آتی گئی۔ ساتھ والا محلہ بلوے کی نذر ہوا تو یہاں بھی کھلبلی مچ گئی۔ اطلاعات یہ تھیں کہ چار عورتوں کو اٹھا کر لے گئے۔ تین مرد مارے گئے۔ باقی کسی نہ کسی طرح جان بچا کر ریلوے سٹیشن کو نکل گئے۔ کسی کو نہ معلوم ہوا کہ ان پر کیا گزری۔
بالآخر حملہ ہو گیا۔ کامنی تڑپ کر اٹھی اور منہ بولے بھائی کے گھر کی طرف بھاگنے لگی تو اس کے میاں اور بیٹوں نے روک لیا۔ انہی بیٹوں نے بڑے ابا کے سینے میں کرپان اتاری‘ زیور لوٹے۔ پھر ٹھاکر صاحب پہنچ گئے۔ سب کو لعن طعن کی۔ گھر تو جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔ صرف بڑے ابا کی نوجوان پوتی اور اس کی پھپھو بچی تھیں۔ ٹھاکر صاحب نے دونوں کے سروں پر چادریں ڈالیں اور اپنے محافظوں کے ساتھ‘ انہیں اس کیمپ میں چھوڑ آئے جہاں مسلمانوں کو رکھا جا رہا تھا۔ اردگرد سے بچے کھچے لُٹے ہوئے مسلمان‘ کچھ گروہوں کی شکل میں اور کچھ اِکا دُکا یہیں جمع ہو رہے تھے۔ یہ گائوں فیروزپور کے مضافات میں واقع تھا۔
پھر ایک دن اعلان ہوا کہ قافلہ دو دن بعد پاکستان کے لیے روانہ ہوگا۔ ہر طرف چھائی ہوئی موت کی زردی میں بھی
پاکستان کا سبز رنگ آنکھوں سے جھلکنے لگا۔ شہیدوں کی مائوں اور بہنوں نے اور بچے ہوئے بوڑھوں نے گٹھڑیاں تیار کیں۔ مگر افسوس! آدھا راستہ طے ہوا تھا اور آدھا راستہ سرحد تک باقی تھا کہ حملہ ہو گیا۔ پولیس جو ''حفاظت‘‘ کے لیے ساتھ تھی‘ تماشائی بنی رہی۔ دارو پئے ہوئے سکھ جنگلی درندوں کی طرح تھے۔ مطلع صاف ہوا تو بوڑھی عورتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھیں۔ نوجوان‘ خواتین کو بچانے کی ناکام کوشش میں شہید ہو گئے تھے۔ چار مسلمان دوشیزائیں بچ گئی تھیں۔ پھر سکھوں کے ایک نیم مدہوش گروہ میں توتکار ہوئی کہ کون کس کو لے جائے گا۔
یہ صرف چار مسلمان لڑکیوں کا المیہ نہیں‘ ہزاروں مسلمان عورتیں پاکستان نہ پہنچ پائیں۔ گورداسپور سے بٹھنڈہ تک اور کپورتھلہ سے فیروزپور تک‘ بھارتی پنجاب کے اضلاع پر قیامت نہیں‘ قیامتیں گزر گئیں۔ کچھ ان اغوا شدہ مسلمان عورتوں کی تعداد ستر ہزار بتاتے ہیں‘ کچھ اس سے بھی زیادہ! ان کے ساتھ زبردستی شادیاں کی گئیں۔ انہوں نے ابتدا میں چھپ چھپ کر نمازیں پڑھیں۔ پھر گوردواروں اور مندروں میں لے جائی گئیں۔ سکھ بچوں کو جنم دیا۔ کچھ مر گئیں‘ کچھ زندگی کے دن کاٹ رہی ہیں۔ زندگی کا آخری سانس ان کے لیے رہائی کی خوشخبری لائے گا۔ مدت ہوئی ایک دلدوز واقعہ سنا تھا۔ کینیڈا میں ایک مسلمان خاندان‘ گھر کے صحن میں کبھی کبھی باربی کیو پارٹی کرتا تھا۔ ایک دن انہیں خیال آیا کہ پڑوس میں سکھ فیملی رہتی ہے‘ گوشت کی خوشبو انہیں ناگوار گزرتی ہوگی‘ معذرت کرنے گئے۔ گھر میں
خاتون خانہ تھی۔ پڑوسیوں نے معذرت کی تو ایک عجیب‘ ناقابل بیان‘ تاثر اس کے چہرے پر پایا جس کی توجیہ کرنے سے قاصر تھے۔ اپنے آپ پر قابو پا کر خاتون نے بتایا کہ وہ خوشبو سے لطف اندوز ہوتی ہے‘ اس لیے کہ یہ بچپن یاد دلاتی ہے جب اس کے گھر میں گوشت پکتا تھا۔ راوی یہ نہیں بتاتا کہ یہ بتاتے وقت وہ روئی یا نہیں۔ اگر اس کی آنکھوں سے کوئی اشک نہ بہہ سکا تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ آنسوئوں کی مقدار محدود ہوتی ہے اور زندگی کا کرب لامحدود! یہ اُن ہزاروں عورتوں میں سے تھی جو زبردستی رکھ لی گئیں اور جن سے سکھ اولاد پیدا ہوئی۔
یہ مسلمان عورتیں... زندہ ہیں یا مردہ‘ جو پاکستان کی نذر ہوئیں‘ جن کے ماں باپ اور بھائیوں نے پاکستان کو اپنا خون دیا اور جنہوں نے وہ عزت پاکستان پر نچھاور کردی جو خون سے زیادہ قیمتی تھی۔ یہ عورتیں اُن مقدموں کی اصل مدعی ہیں جو پاکستان میں لوٹی ہوئی دولت کے سلسلے میں چل رہے ہیں اور ابھی چلنے ہیں۔
کل ہی نیب نے بتایا ہے کہ بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے آٹھ ارب روپے کے اثاثے ''بنائے‘‘ ہیں۔ اللہ کے بندو! چشمِ تصور سے دیکھنے کی کوشش کرو! اس ملک کی بنیادوں میں صرف شہیدوں کا خون نہیں‘ بہنوں‘ مائوں اور بیٹیوں کی عصمتیں بھی رچی ہوئی ہیں۔ اور حالت یہ ہے کہ آرمرڈ گاڑیوں کی خریداری میں غبن‘ سی سی ٹی وی کیمروں کی خریداری میں غبن‘ کراچی کی صرف ایک آبادی کے ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ریونیو محکمے میں پچیس کروڑ کا غبن‘ صرف ایک سال (2012-13ء) کے دوران سندھ کے لائیو سٹاک اور ماہی گیری کے محکموں میں پونے تین ارب روپوں کی کرپشن... اور یہ سب تو دیگ کے چند چاول ہیں۔ صوبائی سیکرٹری صاحب باقاعدہ پانچ سال کی چھٹی منظور کراتے ہیں اور کینیڈا جا کر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کہتا ہے کہ صرف ایک مالی سال کے دوران 34 محکموں میں ایک کھرب انتیس ارب سات کروڑ روپے کی خردبرد ہوئی اور یہ ایک صوبے کا حال ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے افسر ملک سے باہر بھاگ گئے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرتا دھرتا فرار ہو گئے۔ واٹر اور سیوریج بورڈ کے مدارالمہام سرحد پار کر گئے۔ کیا بے بسی ہے ریاست کی! اور کیا کسمپرسی ہے حکومت کے اُن اداروں کی جن کا فرض تھا کہ چوروں کو بھاگنے نہ دیں۔ وزیراعلیٰ کی‘ یعنی صوبائی حکومت کے سربراہ کی سمری میں جعل سازی کر کے بائیس کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی۔ تھانوں کی مرمت کے لیے جعلی ٹینڈر جاری ہوئے۔ ایک ایک رات میں سولہ سولہ سو افراد کو بھرتی کیا گیا۔ کوئی برملا اعتراف کرتا ہے کہ ستر فیصد کس بڑے گھر کو جاتا تھا۔ کوئی اطلاع دیتا ہے کہ گھوسٹ ملازمین کے کھاتے میں اتنے کروڑ بنائے۔ پوری دنیا میں جائدادیں‘ محلات‘ اپارٹمنٹ‘ کارخانے‘ بینک بیلنس بکھرے پڑے ہیں۔ ایک ایک کروڑ بار استغفار کی تسبیح کرنے والے روزِ روشن جیسی ناقابل تردید کرپشن کی مدافعت کرتے ہیں تو آسمانوں پر فرشتے سراپا حیرت ہو جاتے ہیں۔
سنو! غور سے سنو‘ چیخ بلند ہوئی ہے۔ وہ دیکھو! کرپان سینے میں دھنس گئی ہے۔ ''بچائو‘ مجھے بچائو‘‘، پاکستان آنے والی ٹرین سے مسلمان لڑکی کو کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے۔ ''ابو‘ امی! مجھے بچا لو...‘‘ بال کھینچ کر‘ نشے میں ڈوبا سکھ اُسے زمین پر پٹختا ہے۔ اللہ کے بندو! اوپر دیکھو‘ تارتار عصمتیں بادلوں سے اوپر اڑتی جا رہی ہیں۔ کیا یہ قربانیاں‘ یہ کرپان سے ٹکڑے ہوتے سینے‘ یہ لہو کے دریا‘ یہ عزتوں کے جنازے سب اس لیے تھے کہ اس ملک کو ڈاکو لوٹ لیں؟ بھیڑیے بھنبھوڑ ڈالیں؟ چور گٹھڑیاں باندھ کر سرحدیں پار کر جائیں اور چہروں سے شرم و حیا کی آخری جھلی اتار پھینکنے والے رہنمائی کے دعوے کریں؟
فوج مدعی ہے نہ نیب! حکومت مدعی ہے نہ ریاست! پولیس مدعی ہے نہ انٹیلی جنس ایجنسیاں۔ نہ آج کے عوام آدھے جن میں سے بے حس ہیں اور باقی آدھے بے بس۔
مدعی وہ چیختی دوشیزائیں ہیں جو پاکستان آنے کی تڑپ میں وہیں رہ گئیں اور زندگیاں‘ موت تک قبروں میں گزاردیں۔ اے اُس پیغمبر کو بھیجنے والے! جس کے مبارک جسم پر کھردری چٹائی کے نشان پڑ جاتے تھے‘ کیا قزاقوں سے ہماری جان کبھی نہیں چھوٹے گی؟ ؎
بجلیاں اب تو ترے ابرِ کرم کی برسیں
عمر بھر اپنے سلگنے کا تماشا دیکھا