تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-07-2015

کتابی سلسلے ’’زرنگار‘‘ کا تازہ شُمارہ

فیصل آباد سے شائع ہونے والا یہ پرچہ ہمارے دوست ضیاء حسین ضیاء کی ادارت میں بڑی دُھوم دھام سے باقاعدہ شائع ہوتا رہا ہے جس میں چند سال کا وقفہ آ گیا کیونکہ موصوف بسلسلہ کاروبار کراچی تشریف لے گئے تھے۔ اب انہوں نے اپنی واپسی کی اطلاع اس کے شمارہ 13-14 سے دی ہے جو تقریباً 500 صفحات پر مشتمل ہے اور جس کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔ مندرجات کے حوالے سے یہ شمارہ حسبِ معمول اپنے معیار کے مطابق ہے اور ملک کے معروف تخلیق کاروں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ سرورق عبدالحمید شاہد کے موقلم کا نتیجہ ہے اور اسے زرنگار بُک فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔ سلسلۂ سلام و نعت کے بعد مختصۂ امام خمینیؒ کے نام سے خصوصی گوشے میں امام خمینی کی غیر مذہبی شاعری کے عنوان سے ایک طویل مضمون ہے جو ابن علی واعظ کا ترجمہ کردہ ہے۔ اس کے بعد امام کی شاعری کے نمونے درج کئے گئے ہیں جو رسالے کے 66 صفحات کو محیط ہیں؛ جبکہ یہ سب کچھ فارسی زبان سے ماخوذ ہے اور ادب کے عام قاری کو اس سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ اگر امام خمینی کو ہدیۂ عقیدت پیش کرنا ہی مقصود تھا تو رسالے کے اتنے صفحے خرچ کرنے کی بجائے ادارۂ زرنگار فاؤنڈیشن اسے ایک کتاب کی صورت میں پیش کر دیتا تو کہیں بہتر ہوتا۔
اس شمارے کی خاص الخاص پیشکش شاعرہ ریحانہ قمر کا طویل انٹرویو ہے جو حسب معمول خود مدیر نے کیا ہے جس کے بعد موصوفہ کی شاعری کے نمونے ہیں جو 23 غزلوں اور ایک نظم پر مشتمل ہیں۔
ریحانہ قمر چار پانچ شعری مجموعوں کی خالق ہونے کے باوجود ہمارے قابل ذکر شعراء میں شمار نہیں ہوتیں کیونکہ جدید غزل کے تقاصوں کے برعکس ان میں جدید طرز احساس، تازگی اور تاثیر بھی بہت حد تک ناپید ہیں‘ بس محض چالو قسم کی شاعری ہے جیسی کہ بالعموم مشاعروں میں پیش کی جاتی ہے۔ اس لئے یہ شاعری جدید اردو میں کوئی اضافہ ہونا تو درکنار واقعتاً اس سے خاصے فاصلے پر ہے۔ کتاب کے پسِ سرورق اشتہار کے مطابق ادارہ ان کا تازہ مجموعۂ کلام بھی شائع کر رہا ہے اور رسالے میں اس غیر معمولی پزیرائی کا باعث بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اندرون سرورق کے ایک اور رنگین اشتہار کے مطابق کسی سید نواب حیدر نقوی کا مجموعۂ کلام بھی یہی ادارہ چھاپ رہا ہے جنہیں اشتہار کی عبارت کے مطابق ''غالب کا خوشبو بردار شاعر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ مجھے اپنی نالائقی کا اعتراف ہے کہ میں نے نقوی صاحب کا نام بھی کبھی نہیں سُنا، اور اگر سُنا یا کہیں پڑھا بھی ہو تو اسے قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔ اندازہ ہے کہ زرنگار کے اگلے شمارے میں سید نواب حیدر نقوی صاحب کا زوردار انٹرویو اور ڈھیر سارا کلام بھی شائع ہو گا۔ میری ناقص رائے میں یہ ادب میں کمپرومائز کی ایک صورت ہے جس کی توقع ضیاء حسین ضیاء جیسے مدیر سے ہر گز نہیں تھی اور ایسا لگتا ہے کہ ماٹھے اشاعتی اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی ایسی ہی کتابیں ایسی ہی شرائط پر شائع
کرے گا۔ بہرحال یہ ادارے کے کاروبار کا معاملہ ہے جس میں دخل نہیں دیا جا سکتا؛ تاہم یہی دیکھا گیا ہے کہ ادب میں جہاں جہاں بھی کاروبار شامل ہو گیا ہے، کاروبار تو شاید چل نکلا ہو، ادب کی حالت پتلی ہی رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ نئے نئے اشاعتی ادارے اسی طرح قائم ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں کیونکہ وہ ادیبوں کو رائلٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اور انہی کتابوں کی اشاعت پر اکتفا کرتے ہیں جن کی سرمایہ کاری خود شوقین مصنفین کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جس میں ناشر کا کوئی رسک نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس ادارے کی ترقی کے لئے نیک خواہشات اور ادب کے لئے دعائے خیر!
مضامین لکھنے والوں میں انور سدید، نظام صدیقی، راغب شکیب، مشرف عالمی ذوقی، ڈاکٹر سید قاسم جلال، ارشد جاوید، معصومہ شیرازی اور خود ضیا حسین ضیا شامل ہیں جبکہ افسانے رشید امجد، مشرف عالم ذوقی، ابرار مجیب الجبیل، سمیع آہوجہ، ڈاکٹر زین السالکین سالک، دردانہ نوشین خان اور پروفیسر لالہ رُخ بخاری کے قلم سے ہیں جبکہ دو ناولٹ بھی شامل ہیں جس میں فرانزکا فکا کے ناولٹ ''کایا پلٹ‘‘ کا ترجمہ محمد عاصم بٹ نے کیا ہے۔ ''صلیب‘‘ کے نام سے ناولٹ کی قسط ضیاء حسین ضیاء کے قلم سے ہے۔ انشائیہ سیمی کرن نے تحریر کیا ہے۔
نظموں اور خصوصاً غزلوں کی بھرمار ہے جیسا کہ ہر جریدے میں ہر بار ہوتی ہے لیکن دل کو چُھو لینے والی شاعری سے عموماً پرہیز کیا گیا ہے۔ قارئین کے تفنن طبع کے لئے میں نے بہرحال کچھ اشعار نکالے ہیں جو بلاتکلف پیش کئے جاتے ہیں: ؎
اُس نے پھولوں پہ مرے نام کا آرام کیا
میں نے کانٹوں پہ کہیں رات گزاری اُس کی
(اشرف یوسفی )
شام تو کچھ سایوں کے ساتھ گزار آیا ہوں
ہجر کا دن اب اپنے ساتھ بسر کرنا ہے
پتھروں کے قریب آئینہ رکھ دیا
ایک کرچی ہوا، دُوسرا رکھ دیا
دل کو خالی نہ ہونے دیا رنج سے
جب پُرانا ہُوا تو نیا رکھ دیا
جانے کب کس گھڑی یاد اُترے تری
خواب کی سیڑھیوں پہ دیا رکھ دیا
(حسن عباس رضا)
یہ کس دیار میں آ کر بسے ہیں ہم کہ جہاں
سفر کا ذکر بھی وجہِ ملال ہو گیا ہے
(افتخار شفیع)
اس میں کچھ وحشتِ دل بھی تو رکھی جاتی ہے
باغ بس پُھول اُگانے سے کہاں بنتا ہے
(الیاس بابر اعوان)
پاؤں مضبوطی سے دھرتی پہ جمائے ہوئے ہوں
جانے کیا ہے کہ جو اُوپر کی طرف کھینچتا ہے
(حجاز مہدی)
میں نے پھر خواب نہیں نیند سے رشتہ رکھا
یہ محبت میں مری آخری پسپائی تھی
(ضیاء حسین ضیاء)
اجالے میں اوجھل رہا آنکھ سے
اندھیرے میں جُگنو دکھائی دیا
(انور شعور)
مجھ کو دُنیا نے قمر بانٹنا چاہا لیکن
جس طرف دل تھا اُدھر ساری کی ساری میں تھی
(ریحانہ قمر)
اس کے علاوہ کتابوں پر تبصرے ہیں اور قارئین کے خطوط۔
آج کا مقطع
صبح سی ہر دم کیے رکھتا ہے جو ہر سُو‘ ظفرؔ
دیکھنے میں اس کا اپنا شام جیسا رنگ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved