کراچی کے مکین دس دن سے ایسی گرمی جھیل رہے ہیں کہ ذرا سی ٹھنڈک کو بھی ہمالیہ کی فضا سمجھ کر قبول کرتے ہیں! جس طرف دیکھیے، گرمی ہے اور گرما گرمی ہے۔ ایسے میں اگر کسی کی بات میں ٹھنڈی ہوا کی تاثیر پائی جائے تو دل اس پر نثار ہونے کو کیوں نہ چاہے؟
شاہ سائیں یعنی سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے ہم یوں ہی تو پرستار نہیں ہیں۔ وہ ہمیں اور ہم جیسے دوسرے بہت سے چاہنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتے۔ گڑ دیں نہ دیں، گڑ جیسی میٹھی باتیں تو کر جاتے ہیں۔ فی زمانہ اتنا بھی کافی ہے۔ یہ دور تو ایسی بے مروّتی کا ہے کہ کوئی کسی کا اپنا بخار بھی مفت نہ دے۔
شاہ سائیں کا مزاج ایسا ٹھنڈا ٹھار ہے کہ جو ان کے ساتھ چلتے ہیں ان کے مزاج میں بھی لاجواب ٹھنڈک در آتی ہے اور وہ بھی سُکون کی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ صوبائی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی اِس صفت کا مظہر ہے۔ برسوں مراقبہ کرتے رہنے سے بھی مزاج میں وہ لچک اور نرمی پیدا نہیں ہوتی جو شاہ سائیں کی سنگت نصیب ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔
کراچی کے حالیہ بحران یعنی ہیٹ سٹروک نے نہ جانے کتنوں کو شدید متاثر کیا مگر شاہ سائیں ذرا بھی اُس کے دام میں نہ آئے۔ اُن کے لہجے کی شائستگی، مزاج کی نرمی اور ٹھنڈک برقرار ہے۔ کہنے والوں نے پتا نہیں کیا کیا کہا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے دو دن قبل کراچی کے بحران پر سندھ حکومت کو لتاڑتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی عمر بہت ہوگئی ہے، اب انہیں آرام کی ضرورت ہے۔ عوام کی آنکھوں میں شدید غصہ ہے، قائم علی شاہ کو ریفریجریٹر میں رکھ دیا جائے! براہِ راست الفاظ میں شاہ سائیں کو سرد خانے میں رکھنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ مگر شاہ سائیں نے ذرا بھی بُرا نہیں مانا۔ بڑی عمر کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی تو ہے کہ انسان تنقید جھیل لیتا ہے۔
گرمی کا زور کچھ ٹوٹا اور موسم نے ذرا سکون کا سانس لیا تو شاہ سائیں بھی بیدار ہوئے اور سوچا کہ اب شہر کا جائزہ لیا جائے۔ وہ اپنے رفقائے کار کے ساتھ اورنگی ٹاؤن کے ایک ہسپتال پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے ہیٹ سٹروک کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کی عیادت کرنے اور انتظامیہ سے بریفنگ لینے کے ساتھ ساتھ میڈیا سے بات بھی کی۔ میڈیا سے ان کا بات کرنا سننے والوں پر غضب ڈھاگیا۔ ہم بھی ہمہ تن گوش ہوئے اور قلم سنبھال لیا تاکہ شاہ سائیں کی باتوں سے کچھ کشید کرکے آپ کی بھی تشفّی کریں!
شدید گرمی نے کراچی میں بڑے بڑوں کا پِتّہ پانی کردیا اور وہ ڈھیر ہوگئے مگر شاہ سائیں کے قدم ذرا نہ ڈگمگائے۔ شاہ سائیں جب بھی میڈیا سے بات کرتے ہیں، زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ ہسپتال میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھی ان کی زبان کئی بار پھسلی۔ بعض دل جلے کہتے ہیں کہ یہ عمر کا اثر ہے یعنی اب شاہ سائیں کو وزیر اعلیٰ کا منصب چھوڑ دینا چاہیے۔
ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ زبان کے پھسلنے کی بنیاد پر شاہ سائیں کو ہٹانا لازم ہے تو بتایا جائے کہ جن کی زبان نہیں پھسلتی وہ کون سے ایسے تیر مار رہے ہیں کہ انہیں ان کے منصب پر رہنے دیا جائے! شاہ سائیں کم از کم اتنا تو کر رہے ہیں کہ لوگوں کے ہونٹوں پر تبسم بکھرے، چند لمحات ہی کو سہی دل ہنس تو لے! جس ماحول میں صرف دکھ اور پریشانیاں ہوں اُس میں چند لمحات کے لیے لوگوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم کرنا کتنی بڑی نیکی ہوسکتی ہے اِس کا اندازہ تو آپ خود بھی لگا سکتے ہیں!
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہیٹ سٹروک کا اثر ہسپتال کی انتظامیہ پر بھی کم نہیں ہوا۔ اس نے پتا نہیں کیسی بریفنگ دی کہ شاہ سائیں نے میڈیا کے سامنے کہہ دیا اِس ہسپتال میں ہیٹ سٹروک کی زد میں آئے کسی شخص کی موت واقع نہیں ہوئی۔ سچ یہ ہے کہ اس ہسپتال میں ایسی 45 اموات واقع ہوئیں۔ ساتھ ہی شاہ سائیں نے بتایا کہ شہر کے ہسپتالوں میں ہیٹ سٹروک کی زد میں آئے ہوئے 1100 افراد کو طبی امداد دی گئی۔ اس پر بعض لوگ یہ سمجھے کہ شاید شاہ سائیں پر بھی موسم کی شدت اثر کرگئی ہے! پیچھے کھڑے ہوئے صوبائی وزراء میں سے کسی نے لقمہ دیا کہ جناب، یہ تعداد تو دنیا سے گزر جانے والوں کی ہے۔ طبی امداد تو کم و بیش 12 ہزار افراد کو دی گئی۔
شہر میں 100 افراد مر جائیں تو حکومت 10 بتاتی ہے۔ شاہ سائیں دو چار سے آگے نہیں بڑھتے۔ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ وہ حقیقت پر کوئی پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ شاہ سائیں خیرپور کے ہیں۔ ان کے مزاج اور باتوں میں خیر ہی خیر ہے۔ جو اموات واقع ہوچکی ہیں وہ انہیں بھی اموات کہنے کو تیار نہیں تو اس کا سبب یہی ہے کہ ان کا مزاج ''خیر پوری‘‘ ہے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک مرحلے پر شاہ سائیں نے کراچی کی آبادی پہلے 20 لاکھ بتائی، پھر 20 کروڑ تک پہنچے اور آخر میں تقریباً درست یعنی 2 کروڑ بتائی۔
کراچی کی آبادی بیان کرنے کے معاملے میں شاہ سائیں نے اگر تھوڑا سا غچہ کھایا تو حیرت کیوں ہو؟ کراچی کی آبادی ہے ہی ایسی فریب کار کہ کسی کو کچھ دکھائی دیتی ہے اور کسی کو کچھ۔ اس کم بخت نے بہت سوں کو ذلیل کیا ہے۔ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا تو ہے ہی ایسا جنتر منتر کہ جو اس میں گیا وہ سلامت واپس نہ آیا۔ شاہ سائیں نے کراچی کی آبادی کو 20 لاکھ بتایا تو درست بتایا کہ کیونکہ ہر سال وفاقی اور صوبائی بجٹ میں فنڈز مختص کرتے وقت کراچی کی آبادی اتنی ہی تصور کی جاتی ہے! اہل کراچی بھی جب بجٹ میں اپنے لیے منصوبے اور فنڈز دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ شاید ٹھٹھہ، ذوالفقار آباد اور حیدر آباد کے پہلو میں کوئی نیا شہر بسایا جارہا ہے!
شاہ سائیں کی زبان نے پھسل کر کراچی کی آبادی 20 کروڑ بتائی تو یہ بھی کچھ غلط نہ تھا۔ جس رفتار سے لوگ آ آکر اس شہر میں آباد ہو رہے ہیں اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کی آبادی کو 20 کروڑ کی منزل تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ شاہ سائیں کو اللہ سلامت رکھے۔ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ان کی زندگی ہی میں 20 کروڑ کی منزل نہ آجائے!
تیسری کوشش میں شاہ سائیں نے کراچی کی آبادی کو 2 کروڑ بتایا۔ یہ بھی غنیمت ہے ورنہ لوگ اس شہر میں چار پانچ عشرے گزار کر بھی اندازہ نہیں لگا پاتے کہ اس جنجال پورے میں کتنے نفوس آباد ہیں۔ اور 2 کروڑ کا عدد بھی ایسا عجیب ہے کہ اِدھر اُدھر کھسکنے کا نام نہیں لیتا۔ خود ہم بھی دو عشروں سے کراچی کی آبادی کو 2 کروڑ سنتے آئے ہیں۔
ایک مرحلے پر شاہ سائیں نے کہا کہ ہیٹ سٹروک کی زد میں آنے پر جو لوگ علاج کے لیے ہسپتال لائے گئے ان کا تعلق ''مریض‘‘ طبقے سے تھا! غالباً وہ ''غریب طبقے‘‘ کہنا چاہتے تھے۔ خیر، مریض طبقہ کہنا بھی کچھ ایسا غلط نہیں کہ شاہ سائیں پر تنقید کے تیر برسائے جائیں۔ پہلی بار تو یہ ہے کہ جنہیں ہیٹ سٹروک نے نشانہ بنایا وہ غریب بالآخر ہسپتال پہنچ کر مریض طبقے کا حصہ تو بن ہی گئے! اور اس سے ہٹ کر بھی سوچیے تو کیا غریبی کسی مرض سے کم ہے! اور جو غربت کے مرض میں مبتلا ہو اُسے اگر مریض نہ سمجھا جائے تو اور کیا سمجھا جائے؟
معمر ہوکر انسان ضعیف یعنی کمزور ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبالؔ کی نظر میں یہ جرم ہے۔ ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
شاہ سائیں بھی معمر اور ضعیف ہیں۔ مگر اللہ نے انہیں ایسا ''کمال‘‘ عطا فرمایا ہے کہ ان کی باتیں سن کر منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ع
''انعامِ ضعیفی‘‘ ہیں کچھ ایسے ہی ''کمالات‘‘