تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-07-2015

انسان کی فتح

انسانی حقوق کی عظیم الشان فتح پر امریکہ بہادر کو بہت بہت ''مبارک‘‘ ہو۔ امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایک ہی جنس کے دو افراد اگر ایک دوسرے سے لذت کشید کرنا چاہیں تو انہیں اجازت ہے۔ نہ صرف یہ کہ معاشرے کو انہیں قبول کرنا چاہیے بلکہ اس جرأت مندانہ فیصلے پر انہیں سر آنکھوں پر بٹھانا چاہیے۔ ان کی خوشی میں شریک ہونا چاہیے۔ مسرت کے اس موقع پر وائٹ ہائوس کو خوب سجایا گیا ہے۔ اس موقع پر ایک امریکی امام مسجد داعی عبداللہ کا تذکرہ بھی زوروں پر ہے، جو ہم جنس افراد کو روحانی رہنمائی فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے۔
امریکہ ہی نہیں، یورپ کے بہت سے ممالک میں ہم جنسوں کو کھلی چھوٹ ہے۔ یورپ اور امریکہ کے ساحل ان افراد سے بھرے ہوئے ہیں، سراپا جو لباس سے عاری ہیں۔ سرِ عام بوس و کنار تو یوں بھی مغرب میں جائز ہے بلکہ اس سے اجتناب کرنے والے جوڑوں کو ذہنی پسماندہ (Abnormal) سمجھا جاتا ہے۔ ان ساحلوں پر سیکڑوں افراد کی موجودگی میں جو کچھ ہوتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہی نہیں، مخصوص کلبوں میں عورتوں اور مرد کے لشکر اکٹھے ہوتے اور سیکڑوں افراد کی موجودگی میں بے حیائی کا کھیل کھیلتے ہیں اور اسے فلمایا جاتا ہے۔ یہ سب گھریلو افراد ہوتے ہیں۔
میں یہاں عاد و ثمود کی بات نہیں کرتا۔ میں سپارٹا کی بات نہیں کرتا، جو ہم جنس پرستی کا قانون نافذ کرنے کے بعد تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوا۔ میں بات کرتا ہوں انسانی جسمانی ساخت کی۔ دوسرے جانداروں کی طرح انسان بھی جوڑے کی شکل میں پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ نے پیدا کیا پہلے آدمؑ کو، پھر انہی کے جسم سے امّاں حواؑ کو پیدا فرمایا۔ کہا: ''وہی (خدا) تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے‘‘ (سورۃ الاعراف 189)
صاف طور پر یہ آدمؑ کے جسم سے حواؑ کی جسمانی پیدائش کا ذکر ہے۔ یہاں شادی کا بنیادی فلسفہ بھی اللہ نے بیان کیا ہے: ''تاکہ وہ (مرد) اس (عورت) سے سکون حاصل کرے‘‘۔ مقصد سکون تھا۔ مقصد عورت کے ذریعے مرد کی تکمیل تھی۔ آ ج یہ ایک دوسرے کو مسلسل اذیت دینے میں بدل گیا ہے۔
خیر اس نے مرد اور عورت کو ایک مختلف انداز میں بنایا۔ جہاں تک نسل بڑھنے کا تعلق تھا، اس نے اس قدر سادہ الفاظ میں یہ فلسفہ بیان کیا جو خدا ہی کو زیبا تھا۔ کہا: ''زین للناس حب الشہوات من النساء والبنین والقناطیر المقنطرۃ ۔۔۔۔۔ لوگوںکے لیے ہم نے کشش پیدا کی عورتوں میں، بیٹوں میں، سونے اور چاندی کے ڈھیر میں‘‘ (سورہ آل عمران 14) یہی کشش ہے جس نے دنیا کے سب سے
طاقتور ملک کے صدر بل کلنٹن سے لے کر دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس تک کو رسوا کر ڈالا۔ انسان جب لالچ اور گناہ میں مبتلا ہو تو عقل کہاں کام کرتی ہے۔
خدا نے پیدا کیا مرد اور عورت کو مختلف اعضا کے ساتھ، مختلف رجحانات کے ساتھ۔ عورت میں بچہ دانی ہی نہ رکھی بلکہ اسے نازک اندام بھی بنایا۔ مامتا پیدا کی۔ یہ صرف مائوں تک محدود نہیں بلکہ سر خالد مسعود خان کے الفاظ میں بیٹیاں بھی اس سے مالامال ہیں۔ وہ تھکے ہارے باپ کے جوتے اتارتی، اس کے پائوں دباتی ہیں، اپنے باپ کی ماں بن جاتی ہیں۔
مغرب نے پہلے خاندانی نظام کو سبوتاژ کیا۔ وہ شادی کے بغیر ہی ایک ساتھ رہنے لگے۔ طلاق عام ہوئی، اکثر بچوں کو والد کا نام تک معلوم نہ ہوتا۔ وہ فطرت سے دور ہوتے چلے گئے۔ پھر وہ کپڑے اتارنے لگے۔ آہستہ آہستہ ہم جنس پرست باہر نکلے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے۔ کیا ان پر خدا کا عذاب نازل ہو گا؟ جی نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اے محمدؐ جب تک تو ان میں موجود ہے، میں انہیں عذاب دینے والا نہیں۔ رسولِ پاکؐ کا جسمِ اقدس اس کرّۂ خاک پر موجود ہے۔ قیامت سے پہلے انسانیت نیست و نابود نہیں ہو گی؛ البتہ زوردار ٹھوکر لگ سکتی ہے۔ لگتی رہی ہے۔
مغرب کا اگلا ہدف کیا ہے؟ مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ اب کے خونی رشتے دار باہر نکلیں گے اور شادی کا حق مانگیں گے۔ چلیے، یہ بھی کر گزرئیے۔ برائی کو جب برائی نہ سمجھا جائے تو انسان کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔ خدا کے الفاظ میں ''بدترین جانوروں سے بدتر‘‘ ، یہاں مشہور امریکی تھامس بیٹی (Thomas Beatie) کا کیس قابلِ ذکر ہے۔ اس کی بیوی چونکہ بانجھ تھی؛ لہٰذا سائنسی ترقی کے اس دور میں اس نے اپنی جنس تبدیل کرائی۔ جرثومہ ادھار لیا اور یکے بعد دیگرے چھ بچوں کو جنم دیا۔ یہ سب تو ٹھیک تھا، سر میں دماغ تو مرد ہی کا تھا۔ مامتا وہ کہاں سے لاتا؛ چنانچہ ''بیچارے‘‘ کی اپنی ''بیوی‘‘ سے علیحدگی ہو گئی۔ اب وہ کس ذہنی کیفیت میں ہے، یہ معلوم نہیں۔
انسانوں کی بھاری اکثریت آج بھی کپڑے پہنتی اور خونی رشتوں کا لحاظ کرتی ہے۔ اسی میں ہماری بقا ہے۔ کوئی اگر انسانیت سوز گناہ کر بیٹھتا ہے تو بھی خدا کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ روزانہ ایک ہزار مرتبہ آیتِ کریمہ کی تسبیح کریں: لا الہٰ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔ اللہ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ظالموں میں سے تھا۔ وہ سب معاف کرنے والوں سے بڑھ کر معاف کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندوں کو گمراہی، تکلیف، خوف اور بھوک سے سلامتی کی طرف لے جاتا ہے لیکن مانگنے والوںکو، گناہ پہ ڈٹ جانے والوں کو نہیں۔ اپنے غلیظ ''حقوق‘‘ کا مطالبہ کرنے والوں کو تو ہرگز نہیں۔
امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے سے بظاہر تو انسان جیتا، خدائی ہار گئی لیکن ابھی آخری مکّا انسانیت کو پڑنا ہے اور وہ بہت زوردار ہو گا۔ مکمل آزادی نام کی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ وہ بیچارے تو اپنی ہی بے چینی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مجبور اور لاچار انسان سائنسی ترقی کے بل پہ خدا بننا چاہتا ہے۔ اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ مسئلہ صرف اور صرف اتنا ہے کہ اس کی راہ میں خدا حائل ہے۔ اس نے یہ دنیا آزمائش کے لیے پیدا کی ہے۔ انسان کو عقل سونپی، اسے کپڑے پہنائے۔ جانوروں کو اس کے ماتحت کیا۔ اس سب کا مقصد یہ تھا کہ انسان ایک بہتر زندگی گزارے۔ اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے کائنات اور اپنے جسم میں موجود نشانیوں کی مدد سے خدا پر ایمان لائے۔ پھر اس کی اطاعت کی کوشش کرتا رہے۔ سائنسی ایجادات سے لیس مغرب والے ایک انوکھی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ہائے رے انسان، تیری کون سی کَل سیدھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved