وہ عجیب سا شخص تھا۔ پندرہ سولہ برس سے ملاقات تھی۔یہ تو یاد نہیں کہ اُسے پہلی بار کہاں دیکھا تھا۔ دیکھا ہو گا یونیورسٹی میں، کسی جلسے میں یا ''نوائے وقت‘‘ کے دفتر میں۔ ہاں، آخری بار اسے ''نقوش‘‘کی تقریب میں دیکھا، یہاں صدر ضیاء الحق مہمانِ خصوصی تھے اور وہ میری طرح مہمان۔ ہلٹن ( اب آواری) کے ہال میں جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھا تو اسے کسی سے باتیں کرتے دیکھا۔ چہرے پر پسینے کے قطرے تھے اور رنگ زرد تھا۔ بالکل اڑا ہوا۔ رک کر پوچھا: ''طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ جواب تھا ''نہیں‘‘ یوں لگا جیسے اس کے دل پر دبائو پڑ رہا ہو، لیکن اُس کے لہجے میں سرد مہری تھی، اُداسی تھی اس کی عادت کے برعکس۔ ناچار آگے بڑھنا پڑا۔
وہ لکھتا بھی دھڑلے سے تھا اور بولتا بھی دھڑلے سے تھا۔ عام طور پر جلسوں میں مقالات لکھ کر لاتا اورگھن گرج سے سناتا۔ وہ پڑھتا نہیں بولتا تھا۔ کسی اور شخص کو عام اجتماعات میں اس طرح اپنا مقالہ سناتے، بلکہ سنواتے نہیں پایا۔اُسے چونک جانے کا شوق تھا اور چونکا دینے کا بھی۔ شعیب بن عزیز ''میائوں‘‘ بھی کرتا تو وہ اسے بم کا دھماکہ سمجھ کر اُچھل پڑتا۔چونکا دینے والے نکتے ڈھونڈنا اس کا مشغلہ تھا۔ اپنے وجود کا احساس دِلاتا اور داد یا بے داد پا کر ہلکا ہو جاتا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کا نوٹس لیا جائے اسے تسلیم کیا جائے۔ وہ کسی جگہ ہو تو گفتگو اُس سے ہو یا اُس کے بارے میں ہو۔
وہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کا استاد تھا۔ اس کے سینکڑوں طالب علم مختلف مناصب پر فائز ہیں۔ ریڈیو ٹیلی ویژن سے لے کر اخبارات کے دفاتر اور تعلقاتِ عامہ کے اداروں تک اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔وہ محض تدریس کا آدمی نہیں تھا۔ اسے کمرہ بند کر کے کام میں جتے رہنا پسند نہ تھا۔ سرگوشی بھی لائوڈ سپیکر سامنے رکھ کر کرتا اور لطف اٹھاتا۔ کیریئر کا آغاز اخبار نویس کے طور پر کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر کا اخبار نویس توانا ہوتا چلا گیا۔ وہ اپنے کلاس روم، اپنے شعبے یا اپنی یونیورسٹی میں خود کو محدود رکھنے پر راضی نہ ہوا۔
مسٹر بھٹو کے دور میں اسے رائٹسٹ سمجھا جاتا تھا۔ ترنگ میں آتا تو بہت کچھ کہہ گزرتا۔ ایک سال یوم حمید نظامی پر گرما گرم مقالہ پڑھ دیا۔واہ واہ کرنے والے ''عوامی حکومت‘‘ کے ردعمل سے گھبرائے۔ مجید نظامی صاحب نے اعلان کیا کہ اگر اس مقالے کی پاداش میں مقالہ نویس کو ملازمت سے الگ کر دیا گیا تو اسی تنخواہ اور مراعات پر ''نوائے وقت‘‘ کے دروازے اس پر کھل جائیں گے۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد میں اس نے رفتہ رفتہ اپنا لہجہ بدل ڈالا۔ اس کا سبب اس کا اپنا مزاج بھی تھا اور جنرل صاحب کا مزاج بھی۔جرنیلی اسلامائزیشن سے اختلاف بڑھنے لگا۔ وہ جامد فقہ پر ایمان لانے کو تیار نہ تھا۔اب اسے''لیفٹسٹ‘‘ سمجھا جانے لگا۔ لیکن ''لیفٹسٹ‘‘ وہ اتنا ہی تھا کہ ''الٹرا رائٹسٹ‘‘ اسے ایسا سمجھنے لگے۔ الٹرا ''لیفٹسٹ‘‘ حضرات نے اسے سنجیدگی سے نہ اپنایا۔ اِسی دوران ''نوائے وقت‘‘ سے ناتہ توڑ کر اس نے ''جنگ‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔
مجھے اس سے کئی معاملات میں اختلاف رہتا۔ عام طور پر سمجھا جاتا کہ ہم ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ ایک دن وہ اچانک میرے دفتر چلا آتا یا مَیں اُس سے بڑھ کر مل لیتا۔ کبھی ٹھن جاتی، کبھی بن آتی، تو یوں لگتا کہ بدلا ہوا زمانہ ہے۔ بسا اوقات روایتی دانشوروں کی طرح وہ نکتہ برائے نکتہ بھی اٹھاتا، بلکہ کہیں اور سے اُٹھا کر لے آتا۔ تو مَیں بھی اس کے کولہو کے مقابلے میں اپنا کولہو ہلا لیتا۔ یہاں پہنچ کر موضوع تبدیل ہو جاتا۔ جلسوں میں کبھی وہ میرے کسی فقرے پر تڑپ اٹھتا، کبھی مجھے تیر کھا کر مسکرانا پڑتا۔ وہ غصہ بہت کھاتا تھا، لیکن اندر سے جھاگ کی طرح تھا ملائم ہی ملائم، کبھی اُس کے غصے پر مجھے پیار آ جاتا، کبھی میرے پیار پر اُسے غصہ آ جاتا۔
اُسے دیکھ کر چھیڑنے، گد گدانے کے لئے طبیعت مچل اٹھتی، کئی بار اسلام آباد اکٹھے جانا ہوتا۔ کبھی وزیراعظم کی بریفنگ میں، کبھی کسی اور اجلاس میں شرکت کے لئے۔ ایک بار اسلام آباد میں چند بے تکلف اخباری احباب کے ساتھ مل کر اسے تنگ کرنے کا پُرلطف پروگرام بنایا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کا استاد اور بزرگوار ارشاد احمد حقانی ایک سرکاری کالج کے وائس پرنسپل، دونوں سرکاری ملازم اور دونوں کا خاص موضوع سیاست۔ مسعود شورش کے ذمے لگایا کہ اسے بتا دو آج شام مجیب شامی وزیراعظم محمد خان جونیجو سے علی الاعلان یہ گزارش کرے گا کہ سرکاری ملازموں اور اخبار نویسوں کو بریفنگ کے لئے الگ الگ بلایا جائے ہمارے ساتھ ''ملازمین‘‘ کی نشست سے ہمارا ''استحقاق‘‘ مجروح ہوتا ہے۔
مسعود نے اس کے کمرے میں ٹیلیفون کر کے ''شاگردی‘‘ کا حق ادا کرتے ہوئے یہ ''راز‘‘ اس تک پہنچا دیا۔ شام تک اس کا عالم دیدنی تھا۔ کبھی کہتا مذاق کی کوئی حد ہونی چاہئے۔ کبھی کہتا یقین نہیں کر سکتا کہ مجیب شامی اس طرح کی (گری ہوئی) حرکت کر سکتا ہے ،کبھی سنجیدہ ہو جاتا! نکلوا مجھے نوکری سے۔ کر لو اپنا کلیجہ ٹھنڈا۔ کبھی کہتا نہ بلائیں مجھے بریفنگ میں، اس سے کیا فرق پڑے گا۔ غرض، کبھی اِدھر کی کبھی اُدھر کی کہتا رہا پہلو بدل بدل کر شام تک۔ وزیراعظم سے مل کر باہر آ رہے تھے تو ایک مخصوص مسکراہٹ اس کے چہرے پر تھی۔ وہاں کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا تھا۔
وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا‘ نہ اپنا مکان بنوا سکا‘ نہ کار خرید سکا‘ نہ اپنے گھر میں ٹیلیفون لگوا سکا۔ ٹیلیفون کا معاملہ بھی عجیب تھا اپنا پرائیویٹ نمبر لگوانے کے لئے درخواست دی تو سالہا سال گزر گئے۔ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ ان حالات میں کبھی شکوہ کرتا، میرا نمبر نہیں آ رہا۔ ضرور حکومت رکاوٹ بن گئی ہے۔ کوئی خفیہ ہاتھ مجھے سزا دینا چاہتا ہے۔ کبھی یہ کہہ کر اطمینان کا سانس لینے میں مصروف ہو جاتا کہ فون لگ گیا تو مجھ سے زیادہ حکومت کے کام آئے گا اسے ٹیپ کیا جائے گا اور میری ''مصروفیات‘‘ کی تفصیل بیٹھے بٹھائے حکومت کے پاس پہنچ جائے گی۔ اس نے اپنے قلم سے تلوار کا کام لینے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ اس کے الفاظ اپنی جگہ آپ بناتے بناتے پڑھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے۔
اس شخص نے صرف48سال ہمارے درمیان گزار کر وہاں کا رُخ کیا جہاں ہم سب نے چلے جانا ہے۔ تیزی اس کے مزاج میں تھی، سو بھاگ کر چلا گیا۔ اتفاق یہ کہ اس دن مَیں لاہور سے باہر تھا۔رات گئے واپس پہنچا تو اہلیہ نے بتایا وارث میر صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ شام کو جنازہ تھا۔ میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ جاتے جاتے بھی چونکانے سے باز نہیں آیا۔ اُسے ہمارا ساتھ چھوڑے اٹھارہ برس ہو گئے۔ جولائی ہی میں اُس کی برسی منائی جائے گی، اور وہ ایک بار پھر پوری شدت سے ہمارے درمیان ہو گا۔ وہ ہم سے جدا ہو کر بھی جدا کہاں ہوا ہے... دور ہو کر بھی دور کہاں ہوا ہے!!!
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)