تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-07-2015

تم اتنا اونچا اڑے کہ پہاڑوں کو ٹیلے سمجھنے لگے

یہ خدا کی دنیا ہے ، خدا کی دنیا ۔ بندے کب سے اس کے مالک ہو گئے؟ یہ بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے !
یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ جوڈیشل کمیشن انتخابات کو مکمل طور پر درست قرار دے سکے ۔ ملک بھر میں فارم پندرہ کی ''گمشدگی‘‘، پنجاب میں الیکشن کمیشن کی بجائے ریٹرننگ افسروں کی طرف سے اضافی بیلٹ پیپر منگوانے، آخری دنوں میں رائے ونڈ میں فیصلہ سازی کے اعتراف سمیت متعدد شواہد موجود ہیں ۔ فارم پندرہ کی مثال یوں ہے... دن بھر کسی سٹور میں اشیا کی فروخت کے بعد شام کوکمپیوٹر بتانے سے انکار کر دے کہ کتنی مالیت کی کون کون سی اشیا بکیں؟ بظاہر دو ہی امکانات ہیں۔ تیس چالیس نشستوں پر تازہ انتخاب یا ملک بھر میں نئے الیکشن۔
طاقت کے مراکز ایک دوسرے کی طرف دیکھا کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ فوجی قیادت کیا سوچ رہی ہے ؟فوجی عدالتوں کے خلاف ریمارکس ذہن میں رکھیے۔ خوش وہ بہرحال نہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے پولیس، استغاثہ اور عدالتی کارروائی کی رفتار یہی رہی ، مجرم یوں ہی چُھٹتے رہے ، فوجی عدالتیں بروئے کار نہ آسکیں تو ایک بڑے حادثے کا اندیشہ ہے۔ نہایت ہی معتبر ذرائع کے مطابق میاں محمد نواز شریف زرداری صاحب کو پیہم پیغامات بھیج رہے ہیں: میں آپ کی مدد کرنے کا آرزومند ہوں مگر مجبور ہوں۔
عمران خان سے کد رکھنے والے میڈیا گروپ نے مہم چلا رکھی ہے کہ وہ اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکے ۔یہ کہ 35پنکچروں ، خلیل الرحمٰن رمدے اورافتخار چوہدری کے خلاف انہوں نے کوئی شہادت پیش نہ کی۔ تحریکِ انصاف کوبہت سے حریفوں کا سامنا ہے ۔ ایک تو وہی میڈیا گروپ جو شریف خاندا ن کا حلیف ہے اور افواجِ پاکستان سے عناد رکھتا ہے ۔ ثانیاً الیکشن کمیشن ، جس کی تشکیل ساز باز
سے ہوئی ۔ثالثاً اپنا سب سے بڑا مخالف وہ خود ہے ۔اپنا مقدمہ سب سے بڑھ کر خود کپتان نے خراب کیا۔ یہ کہنے کی ضرورت کیا تھی کہ 35پنکچروں والا بیان سیاسی تھا۔ شریف خاندان کے وفادار اخبار نویسوں کو وہ کیوں انٹر ویو دیتا ہے ؟دوسری وجوہ کے علاوہ، سیف اللہ نیازی ، شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری ایسوں کی موجودگی میں کوئی شخص جذباتی توازن کیسے قائم رکھ سکتاہے ؟ میڈیا گروپ نے غیر محتاط جملے کو پکڑ لیا ، پروپیگنڈے کا طوفان اٹھادیا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو۔ وہ اسے معاف کرنے والے نہیں ۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے مفادات ہیں ۔ وسائل ان کے پاس بہت ہیں ، تجزیہ اور تکنیک بھی ۔ شریف خاندان اس کاروبار کا خوگر ہے ۔ میڈیااور سیاست میں ان کے حلیف اور دنیا بھر میں ان کے سرپرست بھی ۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل ایک عرب سفیر نے جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین ، اور اسحٰق خاکوانی کی موجودگی میں کپتان سے کہا تھا: شریفوں کی حمایت کا ہم نے فیصلہ کیا ہے۔آپ کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہیے۔
امریکہ بہادر نون لیگ کو ترجیح دے گا یا نیٹو سپلائی روکنے والی تحریکِ انصاف کو ؟
جہاں تک خلیل الرحمن رمدے ، افتخار محمد چوہدری اور نجم سیٹھی پر عائد الزامات کا تعلق ہے ، بعض نکات درست ہونے کے باوجود عدالتوں میں ثابت نہیں کیے جاسکتے۔ گواہ اور تحریری شواہد پیش کرنا گاہے ممکن نہیں ہوتا۔ قانونی زبان میں یہ کہ وہ Admissibleنہیں ہوتے۔
صورتِ حال قدرے سازگار ہونے پر کل جناب نجم سیٹھی کی پرواز قابلِ دید تھی۔ویسی ہی ،الیکشن جیتنے کے بعد جیسے نریندر مودی کی ۔ برسبیلِ تذکرہ ،موصوف بے گناہ کیسے ہوگئے ؟انہیں عمران خان سے نمٹنے ہی کے لیے وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا وگرنہ ایک متنازع اور معمولی اخبار نویس کو یہ منصب سونپنے کا جواز کیا تھا؟ وزیرِ اعلیٰ ہی تھے کہ ایف بی آر نے آنجناب کو نوٹس دیا: واشنگٹن میں آپ دس کروڑ روپے کی جائیداد کے مالک ہیں ۔ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کا ٹیکس واجب الادا ہے ۔ظاہر ہے کہ شریف خاندان کی انہوں نے مدد کرنا تھی،جس نے عالی جناب کی ٹیکس چوری کو ڈھانپا ۔ پھر انہیں کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا یا۔ ایف بی آر کا نوٹس وہیں پڑا ہے۔ عدالتی فیصلوں کے باوجود پی سی بی سے وہ چمٹے رہے ۔ بھارت اور مغربی ممالک میں وزیرِ اعظم کے غیر اعلانیہ سفیر رہے ۔ امریکیوں اور بھارتیوں کے وہ پسندیدہ ہیں او رفوج کے مخالف۔ ہر لحاظ سے شریف خاندان کوسازگار۔ ان کی اہلیہ محترمہ مریم نواز کی اتالیق ہیں ۔ وہ سینیٹر ہو گئی ہوتیں اگر پی سی بی پہ ہنگامہ نہ اٹھتا ، اگر پہلے سے یہ معاملہ طشت ازبام نہ ہو جاتا۔ کہا جاتاہے کہ اس کے باوجود ایک رشتے دار خاتون کو ایم این اے بنوانے میں وہ کامیاب رہے ۔ 35پنکچر والی بات پرانہیں توہین کا بہت احساس ہوا ؛چنانچہ ہفتے کی شام انہوں نے ہر اس شخص کی تذلیل کی ، جو اختلاف کا مرتکب تھا۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ۔خدا مودی کو وزارتِ عظمیٰ اور نجم سیٹھی کو ٹی وی نہ دے ۔ اللہ بے نیاز ہے ۔ کن نشانیوں سے زندگی کے کیسے کیسے بھید وہ ہم پر آشکار کرتاہے ۔
پارسائی کا وہ دعویٰ کرتا رہا۔ خود رحمی کا شکار ایک مظلوم اور معصوم آدمی ۔بہادری کا اعلان بہت ہے ، ملک کو لوٹ کھانے والوں کے خلاف وہ بات کیوں نہیں کرتا ، جن کی جائیدادیں تین براعظموں میں پھیلی ہیں ۔ لند ن میں جن کی اولادیں شاہانہ زندگی بسر کرتی ہیں۔
ایم کیو ایم خود اپنے بانی اور پیپلزپارٹی اپنے لیڈر کے ہاتھوں خوار ہے۔ شریفوں کی کوشش یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ گلیاں ہو جان سنجیاں ، وچ مرزا یار پھرے ۔ عطیہ فیضی کے نام اپنے خط میں اقبالؔ نے پوچھا تھا ''کیا اللہ نے اپنی دنیا شیطان کے حوالے کر دی ہے؟‘‘ کیا قائداعظم کے پاکستان سے پروردگار بے نیاز ہوا ؟ ان لیڈروں کے حوالے کر دیا ، جن کی حرص و ہوس کی آگ کبھی بجھتی ہی نہیں۔ میڈیا اگر سچ بولنے پر تل جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی تقدیر بدل جائے مگر افسوس، مگر افسوس!
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
عمران خان نے پہاڑ سی غلطیاں کی ۔ خوشامدیوں کے ایک جرائم پیشہ ٹولے نے اسے گھیر رکھا ہے ۔ 2012ء کا پورابرس پارٹی الیکشن میں ضائع کر دیا۔ نکمّے ، نا اہل او ربد عنوان لیڈر ان جعلی انتخابات میں پارٹی پر مسلّط ہو گئے ۔ ٹکٹ تاخیر سے دیے اور زیادہ تر غلط ۔ پولنگ ایجنٹ تک مقرر نہ کیے ۔وہ سمجھ نہ سکا ، چار اہم ملک اور کاروباری طبقہ شریف خاندان کی پشت پر کھڑا ہے۔ اس کے احمق اور خود غرض مشیر اسے کیا بتاتے ؟ فروری 2012ء میں خفیہ ایجنسیوں کا تخمینہ یہ تھا : 90سیٹیں عمران خان جیت لے گا۔ نجی سروے بھی یہی تھا بلکہ 91۔ یہ گھٹ کر 35رہ گئیں تو اس کا ذمہ دار وہ خود بھی ہے ۔سب سے بڑھ کر خود ہی !
کپتان اب بھی نہیں سمجھ رہا کہ اس کے صدر دفتر تک میں جاسوس موجود ہیں ۔شریف خاندان کو شاید وہ تباہ کردے ۔ خود مگر اقتدار میں نہیں آسکتا۔
میرِ سپاہ نا سزا، لشکریاں شکستہ صف
ہائے وہ تیرِ نیم کش، جس کا نہ ہو کوئی ہدف
اقبالؔ کا ایک دوسرا شعر اس پہ اور بھی صادق آتاہے ۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ایسے آدمی کی کوئی کیا مدد کر سکتاہے ، اپنے ساتھ جو خود مخلص نہ ہو۔ واضح ترجیحات پر سلیقہ مندی کے ساتھ کام کرنے کی بجائے جو چاپلوسوں میں گھرا رہے ۔ عباس اطہر مرحوم کے دو مصرعے زعم کے مارے کپتان اور اس کی جان کو اٹکے ہوئے نجم سیٹھی کے لیے ۔
تم اتنا اونچا اڑے کہ سنائی، دکھائی نہ دیتے تھے
تم اتنا اونچا اڑے کہ پہاڑوں کو ٹیلے سمجھنے لگے
یہ خدا کی دنیا ہے ، خدا کی دنیا ۔ بندے کب سے اس کے مالک ہو گئے؟ یہ بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved