انسانی فطرت یا جبلت کا یہ پہلو کتنا عجیب ہے کہ جو کچھ میسر ہو اُس سے کما حقہ مستفید ہونے کے بجائے وہ خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ماضی کو یاد کرکے سوچا جاتا ہے کہ کاش ایسا کرلیتے یا ویسا کرلیتے۔ یا پھر مستقبل کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ ایسا ہوا تو یہ کریں گے اور ویسا ہوا تو یوں کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ ماضی اور مستقبل کے درمیان جو ہمارا موجودہ زمانہ ہے اس سے استفادہ کرنے کا وقت کون سا ہے۔
انسان کو جب کوئی بھی کام کی بات نہیں سُوجھتی تب وہ ماہرین کا روپ دھار کر انٹ شنٹ سوچنے لگتا ہے۔ ہم سبھی زندہ ہیں اور بحسن و خوبی زندہ ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ فکر اس بات کی لاحق ہونی چاہیے کہ زندگی کا معیار کس طور بلند کیا جائے اور جو کچھ انسان نے ایجاد یا دریافت کیا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مستفید ہونے کا موقع کس طور فراہم کیا جائے۔ مگر ماہرین ایسی کوئی بھی بات سوچنے کے بجائے رات دن یہ سوچنے میں لگے رہتے ہیں کہ یہ دنیا کب اور کیسے ختم ہوگی!
دنیا کے خاتمے کے بارے میں پیش گوئیوں کا بازار گرم رہا ہے۔ ہر صدی کو انسان اور دنیا کی آخری صدی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ بہت سوں کو یہ کہنے میں انتہائی مسرت محسوس ہوتی ہے کہ دنیا کا انجام بہت قریب ہے یعنی کسی بھی لاد چلے گا بنجارا!
اس دنیا میں انسان نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنے لیے کوئی بہتر مقام تلاش کرے۔ دنیا کو رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اچھی جگہ بنانے کی خاطر ہر دور کے انسان نے بھرپور تگ و دو کی ہے۔ اور ہم ان زمانوں کی بات کر رہے ہیں جب ہر شعبہ ماہرین کی دست برد سے محفوظ تھا! تب انسان زیادہ سے زیادہ کوشش کرکے دنیا کو کچھ دینے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ اور اس کوشش کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم زندگی کے ہر معاملے میں بے مثال سہولتوں سے ہمکنار ہیں تو یہ گزرے ہوئے زمانوں کے انسانوں کی بھرپور محنت اور لگن ہی کا ثمر ہے۔ اگر گزرے ہوئے زمانوں میں بہت سے انسانوں نے مختلف سہولتیں یقینی بنانے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف نہ کی ہوتی تو آج ہم ان بہت سی سہولتوں کو ترس رہے ہوتے۔ بہت سوں کی ''سادگی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ان کے خیال میں ترقی ناگزیر امر ہے یعنی ہر دور میں انسان کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہی رہا ہے اور یہ کہ اس عمل کو تو ہونا ہی تھا۔ ٹھیک ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے کیا کیا؟ ڈیڑھ دو ہزار برس میں انسان نے بہت کچھ کیا ہے۔ کسی ایک چیز کی تیاری میں بھی لوگ آدھی عمر کھپا دیتے تھے۔ اور پھر اس چیز کا معیار بلند کرنے کے لیے دوسرے بہت سے لوگ برسوں پسینہ بہاتے رہتے تھے۔ ہزار سال سے زائد مدت کے دوران انسان نے غیر معمولی محنت کی ہے۔ اور بالخصوص آخری پانچ صدیوں کے دوران یورپ نے زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان اور پرآسائش بنانے کی لگن میں خود کو کھپادیا ہے۔ معاشرتی علوم و فنون کے ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور فطری علوم و فنون کے ماہرین بھی رات دن مصروف رہے تاکہ دنیا کو کچھ ملے۔ اور دنیا کو بہت کچھ ملا ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے ملا ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور دنیا کو زیادہ سے زیادہ پرسکون اور پرآسائش جگہ بنانے پر اپنی توانائیاں صرف کریں۔ مگر ایسا کچھ کرنے کے بجائے ہم تو بس وسوسوں میں گِھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ دنیا کی رونقوں میں اضافہ کرنے اور دوسروں کے زیادہ سے زیادہ کام آنے کے حوالے سے ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے۔ ماہرین کی ''گراں قدر‘‘ آراء کی مہربانی سے ہمیں تو رات دن بس یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اب اس دنیا کا کیا ہوگا، یہ کب اور کیسے ختم ہوگی۔ یا اگر دنیا سلامت رہے گی تو انسان کتنے دن کا مہمان ہے اور کس طرح کے انجام سے دوچار ہوگا۔
آسٹریلیا کے مشہور انجینئر اور سائنس رائٹر ڈیوڈ بیخ نے حال ہی میں لکھا ہے کہ اب یہ دنیا سو سال سے زیادہ چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ وسائل بہت تیزی سے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ جو کچھ کروڑوں یا اربوں سال کے عمل میں زمین کے سینے میں جمع ہوا تھا اسے بلا دریغ خرچ کیا جارہا ہے۔ آج کا انسان بہت کچھ، بہت تیزی سے چاہتا ہے۔ وہ زمین کے وسائل کو انتہائی بے دردی سے ضیاع کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔
ٹھیک ہے، دنیا کے وسائل تیزی سے صرف کئے جارہے ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سہولتیں یقینی بنائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے انسان کے لیے کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟ جو بھی خطرہ ہے وہ زمین کے لیے ہے کہ وہ بچ پائے گی یا نہیں۔ مستقبل کا سوچنا ہے تو زمین کو ذہن میں رکھا جائے۔ انسان کے بارے میں کیا سوچنا؟ وہ تو کب کا مرچکا ہے۔ گزری ہوئی صدی میں جو کچھ سامنے آیا اس کی روشنی میں یہ بات کہنے کے لیے ماہر ہونا لازم نہیں کہ اب انسان کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ کوئی بھی خطرہ تو اس کے لیے ہوتا ہے جس کی سانسیں چل رہی ہوں یا شعور زندہ ہو۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ سانسوں کا تسلسل برقرار ہے مگر شعور ہے کہ عالم خواب سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ لوگ چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے دکھائی دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کی ان سرگرمیوں کو زندگی کہنے کے لیے جگرا چاہیے۔ جینے اور جیے جانے کو زندگی قرار دے کر دل بہلانے کا سامان کرلیا گیا ہے۔
قدرتی یا فطری ماحول سے کماحقہ مستفید ہونے کی کوشش تو ہر دور کے انسان نے کی ہے۔ اب یہ عمل اس لیے تیز ہوگیا ہے کہ خواہشات کی حدود میں پائی جانے والا بہت کچھ یا تقریباً سبھی کچھ ایجاد یا دریافت کرلیا گیا ہے۔ مگر کام کی ہر چیز ایجاد یا دریافت کرلینے سے بات کہاں بنتی ہے؟ جب تک انسان کے اخلاق درست نہ ہو پائیں، جب تک اسے اپنی ذات سے بلند ہوکر دوسروں کا بھلا سوچنے پر مائل نہ کیا جائے تب تک کسی بھی حقیقی بہتری کا محض خواب دیکھا جاسکتا ہے، اسے شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
ہر دور کے انسان کا یہی المیہ رہا ہے کہ اس نے ارضی وسائل سے مستفید ہوکر اپنے شب و روز زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر زندگی کو بہتر بنانے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ ندی نالوں، جھیلوں، دریاؤں بلکہ سمندروں پر تو بہت پُل بنائے ہیں مگر دلوں جو جوڑنے والے پُل بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ہر دور کا انسان صرف شب و روز کی مشقّت آسان بنانے کا خواہش مند تو رہا ہے مگر زندگی کا معیار بلند کرنے اور اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی سعی سے اجتناب برتتا آیا ہے۔
دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی کرنے والے انسان کو بچانے کی فکر کریں تو اچھاہو گا۔ انسان کب کا مرچکا ہے۔ اسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ زندہ ہوگا تو زمین کو بھی نئی زندگی ملے گی اور اس کے وسائل کا ضیاع روکا جاسکے گا۔ انسان کے احساس اور ضمیر کو زندہ کرنا ہے تو بہت مشکل کام مگر کرنے کا کام یہی ہے۔ اگر اس زمین کا برا انجام ٹالنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا سفر قابل رشک بنانا ہے تو باقی سارے کام چھوڑ کر اسی ایک کام کو زندگی کا مقصد ٹھہرانا ہوگا۔ جنہیں اللہ نے سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا کی ہے انہیں مسیحائی کے منصب پر فائز ہوکر انسان کو زندہ کرنا ہی پڑے گا۔