تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-07-2015

آئی ایم ایف مہا راج

پنجاب میں راجہ پورس کے بعد مقامی حکمرانوں میں سب سے زیادہ شہرت مہا راجہ رنجیت سنگھ (1780ء تا 1839ء) کے حصے میں آئی۔ راجہ پورس کے زمانے میں سکندرِ اعظم جیسے مغربی استعمارنے پنجاب پر یلغار کی۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں پنجاب پر مشرقی سرحدوں سے فرنگیوں کے حملوں کا دور تھا جبکہ مغرب سے ازبک،تاجک،فارسی دان ،ایرانی اور درانی ایشیاء کی اس فوڈ باسکٹ پر قبضے کے لیے مسلسل لشکر کشی کرتے رہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ٹیکس ،جرمانہ، جبریہ اور نذرانہ سمیت ''بزورِ تلوار‘‘ ٹیکس وصولیوں کے ذریعے اپنے اختیارو ا قتدار کو مضبوط کیا۔
1947 ء کے بعد پہلی مرتبہ 2013ء کی معذور جمہوریت نے اقتدار کے ایوانوں میں آئی ایم ایف مہا راج آف واشنگٹن شریف کے لیے سارے دروازے کھول ڈالے۔اور خود دہلی قلعے کے ''آخری تاجداروں‘‘ کی طرح ''معاشی حملہ آوروں‘‘ سے وظیفے ،خلعت اور جاگیریں وصول کرنا شروع کیں۔ان خوش بختوں میں سرِ فہرست وزیراعظم کے سمدھی ہیں بلکہ نذیر ناجی صاحب کے بقول موجودہ حکومت کی بجٹ تراشی کرنے والیـ ''کَھل مستری‘‘ اسحاق ڈار ۔ان کے دو انداز دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ایک جب وہ آئی ایم ایف مہا راج آف واشنگٹن شریف کے سامنے مسکین صورت ،بڑھی ہوئی شیو اوراُلجھی ہوئی لِٹ کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ پاکستان کے سارے لوگ ان جتنے ہی غریب ہیں‘اس لیے اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی جمہوریہ میں ڈالروں کے بغیر جمہوریت نہیں بچ سکتی۔ ڈالر بھی وہ جو آئی ایم ایف مہا راج کے قرضے میں ''تبرّک‘‘ کے طور پر ہاتھ آئیں۔ ہمارے دیہی سماج میں جو ''غیرت مند مرد‘‘ عورتوں کی سب سے زیادہ پٹائی کرتے ہیں ان کی بھاری اکثریت خود کوئی کام کاج نہیں کرتی ۔ وہ اس قدر باعزت اور باغیرت مرد ہیں جن کی خواتین کھیتوں سے لے کر چوراہوں تک سارا دن دستِ سوال دراز کرکے جو کمائی کرتی ہیں وہ شام کو مجازی خدا کے ہاں جمع ہو جاتی ہے۔یونان کوئی بڑا ملک نہیں نہ پاکستان جتنی آبادی نہ ہمارے برابر زراعت اور نہ ہی ہم سے زیادہ ''باعزت حکمران‘‘، وہاں مانگنے والی عورتیں تو نہیں ملتیں‘ ورکر اورکام کاج کرنے والی سب کی سب ہیں۔یونان کی بے نام حکومت نے اسی ہفتے آئی ایم ایف مہاراج ''قرضہ سکیم‘‘ کی آفر یہ کہہ کر واپس کر دی کہ اس کی شرائط ہماری قوم کی بے عزتی کرنے والی ہیں اور ملکی وقار کے منافی بھی۔
دوسری جانب ہم ہیں۔ہمیں عوامی جلسوں میں اقبال کا طائرِ لاہوتی لہرا لہرا کر گانے کا شوق ہے۔ہمارے اکثر لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ بیرسٹر علامہ ڈاکٹرسرمحمد اقبالؒ نے اپنی شاعری میں جو کچھ بھی کہا وہ ان کو سامنے رکھ کر کہا۔شاعرِ مشرق کا اسرارِ خودی تو خاص طور پر ہمارے لیڈروں کی تقریب پذیرائی کے لیے تخلیق ہوا۔یہ بغیر پَرکے شاہین اور بغیر دُم اور دانت کے ایسے شیر ہیں جو کہتے ہیں ہم 9دفعہ منتخب ہوئے۔شاعرِ مشرق بیچارہ تو دودھ فروش سے بھی الیکشن نہ جیت سکے۔ صرف یہی نہیں‘ مفکّرِ اسلام و عوام کامفکر فرزند ارجمند مکرمی جسٹس جاوید اقبال اور ان کا قابل وکیل پوتاولید اقبال تک الیکشن ہار بیٹھے ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ یہ الیکشن تھے یا ''نورا سلیکشن‘‘۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ اِن سیاسی مافیاز کے لڑکے، لڑکیاں، داماد، بہنوئی اور سالے اورپھر آگے اُن کے بھی لڑکے، لڑکیاں ،داماد ،بہنوئی اور سالے اسمبلیوں تک جا پہنچے۔
جناب محمدعلی جناح قائداعظمؒ کے خاندان سے کوئی اسمبلی تک نہ پہنچ سکا۔اور تو اور ایک صاف ،شفاف اورانتہائی بلکہ بنیادی جمہوری الیکشن میں ان کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ ڈاکٹر فاطمہ جناح انتخاب نہ جیت سکیں۔اس لیے موجودہ انتخابی نظام، حالیہ الیکشن کمیشن اور تازہ فلسفۂ جمہوریت کے مطابق بڑے لیڈر وہ نہیں جنہوں نے فرنگیوں کو ہندوستان سے نکالا‘ ہمارے لیے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا‘ پھر اس کی تعبیر اپنے خونِ جگر سے ممکن بنائی ۔اصلی لیڈر تووہ ہیں جو آئی ایم ایف مہا راج کے سامنے سجدہ ریز ہو کر پہلے کشکول بھرتے ہیں پھر سجدۂِ تعظیم سے اُٹھتے ہی قوم کو بھکاری سمجھ کر ایک ایک دانہ فنڈ اور قطرہ قطرہ ریلیف نچھاورفرماتے ہیں۔باقی سارے ڈالر، یورو، ریال اور پاؤنڈ پھر دوبارہ آئی ایم ایف مہاراج آف واشنگٹن شریف کے منظورِ نظر بینکوں تک پہنچا کر حقِ نمک مع ثوابِ دارین کماتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک اہم ادارے کے ایک بڑے وفد نے پاکستان کے نظام میں اصلاح کے لیے تجاویز مانگیں ۔میری دو باتیں آپ سے شیئر کرنے کے قابل ہیں۔میں نے کہا اس نظام کے گملوں میں تیار ہونے والی لیڈر شپ کی لوڈ شیڈنگ کا ایک ہی طریقہ ہے‘ آئینی طور پر ایک خاندان سے ایک ممبر کو پارلیمینٹ میں جانے کی اجازت دی جائے۔ جس خاندان کا ممبر صوبائی اسمبلی،قومی اسمبلی یا سینٹ میں براہ راست الیکشن سے آجائے ایسے خاندان کو خصوصی سیٹ ملنے پر پابندی ہو‘خاص طور پر ایک خاندان کے ایک فرد سے زیادہ کو نہ پارٹی عہدہ مل سکے نہ اسمبلی یا لوکل اتھارٹی کی نشست۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیںتو پھر سیاست میں وراثت ختم‘ سیاسی جماعتوں میں ملکیت کا راستہ رُکے گا ۔ سیاسی خاندان میں رشتہ داری یاشادی کے بل پر نا اہل،نکّمے اور کرپٹ داماداور بہنوئی نظام سے باہر ہو جائیں گے۔
ایک سوال یہ تھا کون سا نیا قانون بنایا جائے...؟ میں نے کہاپاکستان میں پہلے ہی قوانین کا ''لنڈا بازار‘‘ لگا ہے‘ خاص طور پر دو طرح کے قوانین کی تو ریڑھیاں اور ٹھیلے بھرے پڑے ہیں۔ایک وہ جو ''ضابطے‘‘ سیاسی چمچوں کے کہنے پر سیاسی مخالفوں کے خلاف بنائے گئے جبکہ دوسرے وہ ''قانون‘‘ جو غیر ملکی این جی اوز کی لابنگ ، ڈالروں اور مخلوط ''ڈِنرز‘‘ کے زیرِ اثر منظور ہوتے رہے۔ 
آئی ایم ایف مہا راج نے پچھلے دنوں ہمارے شہزادوں کی کارکردگی تولنے کے لیے تین نئی شرطیں رکھ دیں۔
پہلی شرط یہ کہ اس مالی سال میں پاکستان کے قومی اداروں کی لوٹ سیل مکمل کی جائے ۔وطن کے اثاثے بیچنے والے اورکوڑیوں کے مول خریدنے والے ایک ہی ہیں‘ ویسے ہی جیسے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو کچھ دے اور پھر بایاں دائیں کو وہی واپس کرڈالے‘ اس لیے نجکاری کا فیصلہ سرمایہ کاری کو مضبوط ہی نہیں کرتا بلکہ مزدورکاری اور محنت کشی کو کمزوری اور فقیری میں بدلتا ہے۔اسی وجہ سے سرمایہ داری،جاگیرداری اور چور بازاری کے نظام میں ایک طرف ناجائز دولت کے ڈھیر اور دوسری جانب بَرہنہ غربت کے جزیرے مسلسل بن رہے ہیں۔ دوسری شرط میں واشنگٹن شریف کے مہا راج نے فرمایا گردشی قرضہ بجلی کے ان گاہکوں کے بل میں ڈال دو جو پیسے دے کر لوڈ شیڈنگ خریدتے ہیں ۔تیسر افرمان یہ تھا پاکستان کے کسی غریب آدمی کو ریاست کے خزانے سے ایک ٹیڈی پیسہ بھی نہیں ملے گا۔یہ سب پڑھ کر بھی کیاآپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بالادستی ہے؟ معیشت سے قومی سلامتی تک‘ خارجہ پالیسی سے پھجّے کے سری پائے تک: 
کہاں کے درویش، امیر و سلطاں کی چوکھٹوں کے غلام ہیں یہ
بقولِ اقبال تیغ جس میں کو ئی نہیں، وہ نیام ہیں یہ
نفس کے ہتھے چڑے ہوئے ہیں، رہِ صداقت میں خام ہیں یہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved