تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     06-07-2015

انصاف کے منتظر منصف

سیالکوٹ کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے خرم ورک نے 2005ء میں سول جج کا امتحان پاس کیا اور گجرات میں تعینات ہوگیا۔ سول جج مقرر ہوئے اسے دو سال ہی گزرے تھے کہ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔2009ء میں عدلیہ کا افتخار بحال ہوگیا تو خیال یہ تھا کہ اب ماتحت عدلیہ میں بھی بہتری آئے گی لیکن یہ خیال ہی رہا، حقیقت نہ بن سکا۔ وکلاء اپنی کامیابی کا خراج ضلعی عدالتوں میں بیٹھے ججوں سے لینے پر تل گئے۔ منصفوں کے گریبان وکیلوں کے ہاتھ میں آگئے۔ خرم ورک ہر روز کمرۂ عدالت میںاپنی اور اپنے ساتھیوں کی عزت نیلام ہوتے دیکھتا مگر خاموش رہتاکیونکہ عدلیہ کے ساتھ وکلاء بھی آزاد ہوچکے تھے۔ آخر ایک روز اسے اس عذاب سے نکلنے کا موقع یوں ملا کہ وہ برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کچھ عرصہ برطانیہ میں رہ کر اسے وہاں کے نظام انصاف اور وکلاء کے رویوں کا جائزہ لینے کا موقع ملا تو پاکستان کی ضلعی عدالتوں کا ماحول اور بھی ناقابلِ برداشت لگنے لگا۔ برطانیہ سے واپس آکر اس نے ایک بار پھر منصف کی کرسی سنبھالی اور اپنا کام کرنے لگا۔ بڑی حکمت سے اس نے بے مہار وکلاء کو بھی اپنی بے عزتی کرنے سے روکے رکھا اور انصاف کے تقاضے بھی پورے کرتا رہا۔ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اس کے ذہن میں ہر نوکری پیشہ شخص کی طرح یہ خیال رہتا کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب وہ ترقی کرکے ایسی جگہ بیٹھا ہوگا جہاں وہ اس نظام انصاف میں منصف کی عزت بحال کرا سکے گا۔ اس انتظار میں 
2015 ء آگیا ۔ اسے نوکری کرتے دس برس ہوچکے تھے، امید ہوچلی تھی کہ کچھ عرصے میں وہ ایڈیشنل سیشن جج بن جائے گا، لیکن اس کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ طے ہوگیا کہ وکلاء کو ماتحت عدلیہ میں ''حصہ ‘‘ دیا جائے۔ حصہ دینے کا طریقِ کار یہ وضع ہوا کہ پنجاب میںوکالت کا دس سالہ تجربہ رکھنے والے ایک سو اٹھاون وکلاء قانون کامعمولی سا امتحان دے کر براہ راست ایڈیشنل سیشن جج بھرتی ہوکر ان سینکڑوں سول ججوں کے اوپر بیٹھ جائیں گے جنہوں نے کافی مشکل امتحان میں کامیابی حاصل کی اور دس سال سے زیادہ عدالتی تجربہ بھی انہیں حاصل ہے۔ خرم ورک پر ایڈیشنل سیشن ججوں کی براہ راست بھرتی کی خبر بم بن کر گری، کیونکہ اس صورت میں اس کا کیریئر تباہ ہوجانا تھا۔ اس نے درخواست دی کہ اسے بھی یہ امتحان دینے کی اجازت دی جائے تو ایک طویل قانونی اور دفتری جنگ شروع ہوئی جس میں پنجاب کے 875 سول جج ایک طرف تھے تو وکلاء دوسری طرف۔ 2009کے بعد اس طرح کی ہر جنگ کا نتیجہ وکلاء کی جیت کی صورت میں نکلا ہے، سو اس جنگ میں بھی وکلاء جیت گئے اور سول ججوں کو باوجود اہلیت کے یہ امتحان دینے کی اجازت نہ ملی۔ اس کا مطلب تھا کہ اب پنجاب میں سول ججوں پر ترقی کے دروازے بند ہوچکے تھے، ان کا کیریئر تباہ ہوچکا تھا۔ خرم ورک یہ برداشت نہ کرسکا اور استعفٰی دے کرگھر بیٹھ گیا۔ اسے 
یہ گوارہ نہیں تھا کہ مقابلے کے مشکل ترین امتحانوں میں سے ایک پاس کرکے وہ تو سول جج بنے جبکہ اس کے ساتھ اسی امتحان میں فیل ہوجانے والے ایک آسان سا امتحان دے کر اس کے اوپر آ بیٹھیں۔ 
خرم ورک تو نوکری چھوڑ کر چلا گیا لیکن پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں آویزش کی بنیاد پڑ گئی۔ اب صورت حال یہ بن رہی ہے کہ ایڈیشنل سیشن ججوں کی براہ راست بھرتی کے بعد ایڈیشنل سیشن جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بننے کے اہل افراد میں اکثریت ان لوگوں کی ہو جائے گی جو براہ راست بھرتی ہوئے ہیں جبکہ سول ججوں کے لیے ایڈیشنل سیشن جج کی اسامیاں بھی ختم ہوجائیں گی اور وہ سترہویں گریڈ میں بھرتی ہوکر اٹھارویں میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ لیاقت اور اہلیت کے مقابلے میں وکالت کا بول بالا ہوجائے گا ۔ وہ نوجوان جنہوں نے دن رات ایک کرکے سول ججی کا امتحان پاس کیا تھا، مایوس ہوکر نوکریاں چھوڑیں گے یا محض اپنی ملازمت کے دن پورے کریں گے کیونکہ اچھی کارکردگی پر بھی انہیں سول جج ہی رہنا ہے تو پھر کام کرنے کا فائدہ؟ 
ماتحت عدلیہ میں وکلاء کو براہ راست ایڈیشنل سیشن جج بھرتی کرنے کا طریق کار 1994ء میں اس وقت اختیار کیا گیا جب انتظامیہ اور عدلیہ میںمکمل علیحدگی عمل میں آئی۔ اس وقت اس بھرتی کی دلیل یہ تھی کہ ماتحت عدلیہ میں فوجداری مقدمات سننے کی مناسب اہلیت موجود نہیں اس لیے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تجربہ کار وکلاء کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کچھ عرصے بعد یہ مشق ختم کردی جاتی اور ضلعی عدلیہ میں داخلے کا صرف ایک ہی راستہ رکھا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 2006ء تک براہ راست ایڈیشنل سیشن ججوں کی بھرتی میں یہ خیال رکھا گیا کہ اس طرح کی بھرتیاں ترقیوں میں ان لوگوں کا حق نہ ماریں جو سول ججی کا امتحان پاس کرکے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے لاہور ہائیکورٹ کی جاری کردہ ایڈیشنل سیشن ججوں کی سینیارٹی لسٹ کے پہلے اسّی ناموں میں سے صرف21ایسے ہیں جو براہ راست اس سیٹ پر بھرتی ہوئے، لیکن اس کے بعد 63 ایسے نام ہیں جو 2009ء سے2013ء تک بھرتی ہوئے‘ گویا عدلیہ وکلاء کے ہاتھ میں جاتی چلی گئی۔ اب صورت یہ بنی ہے کہ پنجاب کے 345 ایڈیشنل سیشن ججوں میں بظاہر صرف 84 بار سے آئے ہیں اور باقی سروس سے یعنی سول جج سے ایڈیشنل سیشن جج بنے ہیں، لیکن عملی طور پر سروس سے تعلق رکھنے والے اکثر جج عمر کے اس حصے میں ہیں کہ وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بننے سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور براہِ راست بھرتی ہونے والے اگلے عہدوں پر فائز ہوجائیں گے۔ براہِ راست بھرتی کی نئی کھیپ کی آمد کے ساتھ ہی پنجاب کے سارے سول جج ایک بار پھر جونیر قرار پائیں گے اور جب ان کی ترقی کا وقت آئے گا تو ساتھ ہی ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ بھی آجائے گی۔
گزرے زمانے کی بات ہے کہ پچیس چھبیس سال کا ایک نوجوان جب سول ججی کا امتحان پاس کرکے اپنا عہدہ سنبھالتا تھا تو اس کے سامنے ایک طویل کیریئر ہوتا تھا کہ وہ ٹھیک چلتا رہا تو کم از کم ایڈیشنل سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوگا اور اگر قسمت نے یاوری کی تو ایک دن ہائیکورٹ کے بنچ میں بھی بیٹھ جائے گا کیونکہ کہا جاتا تھا کہ ہائیکورٹ میں30 فیصد ججز ماتحت عدلیہ سے آئیں گے۔ زمانہ بدلا تو دستور بھی بدل گیا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے ججز میں ماتحت عدلیہ سے آنے والے آٹھ ایسے جج صاحبان ہیں جو وکیل سے براہ راست ایڈیشنل سیشن جج بنے اور پھر بنچ تک پہنچے جبکہ صرف ایک جج صاحب ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا آغاز سول جج کے طور پر کیا تھا اور وہ بھی آئندہ سال ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی امکان نہیں کہ آئندہ کوئی سول جج اپنی محنت، لیاقت ، دیانت اور عدالتی تجربے کے باوجود کبھی ہائیکورٹ کے بینچ تک پہنچ سکے ۔ اب جبکہ پنجاب میں سول جج بننے والے نوجوانوں پر ترقی کی راہیں بند کر دی گئی ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میںہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ میں تعلقات کار کی نوعیت کیا ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved