عمران خان کو غلط ثابت کرنے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری وطن واپس آ بھی جائیں تو پیپلز پارٹی کو بھلا کتنے نفل کا ثواب۔ جب زرداری صاحب ملک میں تھے تو پیپلز پارٹی کون سا تیر مار رہی تھی کہ ان کی عدم موجودگی سے فتوحات کا راستہ رک گیا۔
گزشتہ روز نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں بچوں کے نظریاتی سمر کیمپ سے خطاب کے بعد وفاقی مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب سے گپ شپ چل رہی تھی‘ انہوں نے پیپلز پارٹی کے احیا کا سوال اٹھایا۔ میں نے اس ''جماندرو‘‘ مسلم لیگی اور میاں نواز شریف کے ساتھی سے یہی عرض کیا کہ پیپلز پارٹی نے اپنی طبعی سیاسی عمر پوری کر لی ع
اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
پیپلز پارٹی ایک وفاقی سیاسی جماعت ہے اور دنیا بھر میں وفاقی سیاسی جماعتیں ملکی وحدت اور قومی اتحاد کی علامت ہوتی ہیں مگر یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنے کرتوتوں کے سبب یہ جماعت آہستہ آہستہ اندرون سندھ کی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور دو بڑے شہروں حیدر آباد اور سکھر میں بھی اس کی اپیل محدود اور سرگرمیاں مفقود ہیں‘ اور اندرون سندھ اس کی مقبولیت بھی کسی سیاسی و معاشی ایجنڈے اور احسن کارگزاری کی مرہون منت نہیں‘ قوم پرستی کے نعروں اور بھٹو خاندان سے عقیدت مندانہ جذبات کا شاخسانہ ہے‘ مگرتابکے؟
پیپلز پارٹی کی حالت محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں بھی چنداں قابل رشک نہ تھی۔ قیادت کی جلاوطنی اور مفاہمتی سیاست نے جیالوں کو مایوس کیا‘ ویسے بھی کارکنوں کی ایک نسل بوڑھی ہو چکی جبکہ نئی نسل کو پارٹی میں لانے کے لیے قیادت نے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہ کی۔ \\\\پیپلز پارٹی‘ محترمہ کے بعد قیادت کے بحران کا شکار ہوئی تو آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں نے اس بحران سے نمٹنے کی بجائے بھٹو خاندان کی خدمات و قربانیوں کے ذکر اور بھٹو بھٹو کے نعروں سے بوڑھے جیالوں کا خون گرمانا چاہا مگر ؎
جلا ہے جسم‘ دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جواب راکھ‘ جستجو کیا ہے
کہاں بھٹو اور ان کی صاحبزادی کی شعلہ بیانی اور کہاں داماد کی لن ترانی۔ مسلم لیگ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ کمزور‘ دھڑے بندی کا شکار اور شکست و ریخت سے دوچارتھی ۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ‘ خان عبدالقیوم خان‘ حنیف رامے ‘ غلام مصطفی کھر بھی اسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہے مگر پھر جنرل ضیاء الحق کی سپورٹ اور میاں نواز شریف کی فعال قیادت کے سبب یہ ملک گیر جماعت بن گئی اور آج اقتدار میں ہے۔ میاں صاحب نے مسلم لیگ کا احیا کرتے ہوئے نہ صرف ماضی کے مزاروں سے پیچھا چھڑایا بلکہ تازہ ولولہ‘ نیا خون اور ماضی سے مختلف بیانہ بھی دیا۔ جب میاں صاحب مسلم لیگ کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے تحریک استقلال‘ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے مایوس ارکان کو گلے لگا رہے تھے تو مخالفین عموماً ایسے ہی الزامات عائد کرتے جن کا ان دنوں عمران خان کو سامنا ہے۔
پیپلز پارٹی کے احیا میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟ متحرک‘ فعال اور صاحب بصیرت قیادت‘ نظریاتی کارکنوں اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ سیاسی‘ معاشی سماجی ایجنڈے کا فقدان اور موجودہ ملکی حالات کے فہم و ادراک سے محرومی۔ بلاول بھٹو نوجوان ہیں‘ فعال اور معیاری بیرونی اداروں سے تعلیم یافتہ مگر اتالیق ان کے کون ہیں... جناب آصف علی زرداری‘ پھوپھی فریال تالپور‘ خالہ صنم بھٹو اور انکلز یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمن‘ سبحان اللہ ع
ایں خانہ ہمہ آفتاب است
ان میں سے کوئی ایک بھی پیپلز پارٹی کو چلانے کے قابل ہوتا تو وفاق کی علامت سیاسی جماعت اندرون سندھ تک محدود اپنے زخم کیوں چاٹ رہی ہوتی۔
بلاول بھٹو کو اگر نوجوانوں کی ایک نئی اور صاف ستھری ٹیم کے ساتھ میدان سیاست میں اتارا جاتا‘ اسے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی فوٹو کاپی بنانے کے بجائے اپنی عقل و دانش بروئے کار لانے اور اپنے خیالات و نظریات کے مطابق عوام سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا تو شاید بہتری کی امید کی جا سکتی تھی مگر تاحال برخوردار یہ فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ انہیں والد گرامی کا ترکہ بچانا ہے یا والدہ محترمہ کی پارٹی۔ دونوں کے تقاضے مختلف ہیں اور الگ الگ مردان کار درکار۔ یوسف رضا گیلانی سے شرجیل میمن اور راجہ پرویز اشرف سے لے کر سراج درانی تک ترکہ بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور پارٹی ڈبونے میں بھی مگر پارٹی بچانے کے لیے اور طرح کے رفقا کار کی ضرورت ہے۔بلاول کے اردگرد کوئی جے اے رحیم‘ حنیف رامے اور مبشر حسن نظر نہیں آتا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کے مابین رابطوں کا فقدان ہے۔ ووٹر کو متاثر کرنے کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ نعرہ۔ لوگ موجودہ آدم خور سیاسی‘ معاشی اور سماجی ڈھانچے کا انہدام چاہتے ہیں‘ لٹیروں‘ بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں اور قبضہ مافیا کا بھی خاتمہ مگر پارٹی ان طبقات سے مفاہمت کو بہترین پالیسی تصور کرتی ہے۔ زرداری صاحب موجودہ عوام دشمن سیاسی و انتخابی نظام کو بچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں جس سے پیپلز پارٹی کے مخلص کارکن اور ووٹر کی دل شکنی ہوتی ہے جو زندگی بھر انقلاب اور تبدیلی کے نعرے سنتا اور لگاتا رہا۔
پیپلز پارٹی کے کارکن اور سمجھدار لیڈروں کی اب تک مجبوری یہ رہی کہ وہ مایوسی و بے چینی کے باوجود جائیں تو جائیں کہاں؟ کسی مذہبی اور علاقائی جماعت میں وہ جا نہیںسکتے تھے‘ یہ ان کے مزاج کے خلاف تھا۔ مسلم لیگ (ن) کو وہ ضیاء الحق کی باقیات اور میاں نواز شریف کو سابقہ فوجی آمر کا جانشین سمجھتے تھے۔ مسلم لیگ (ق) میں جو لوگ گئے انہیں بالآخر مایوسی ہوئی۔ چنانچہ یہ کڑھنے‘ جلنے کے باوجود پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے اور امید بہار میں اپنی جوانیاں لٹادیں۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی صورت میں انہیں ایک متبادل پلیٹ فارم اور قائد میسر آیا ہے تو وہ چھلانگیں لگا کر اس کا رخ کر رہے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ ‘نوجوانوں کی صحبت اور کافی حد تک لبرل ماحول ‘ اندھے کو اور کیا چاہیے دو آنکھیں ۔ چودھری سرور‘ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جب پیپلز پارٹی کے سابقہ ارکان اسمبلی اور وزراء کو تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں تو وہ دیر نہیں لگاتے ۔ آصف علی زرداری سے عمران خان اور منظور وٹو سے چودھری سرور و شاہ محمود قریشی کا موازنہ کرتے وقت انہیں تحریک انصاف کے سوا کوئی دوسری آپشن نظر نہیں آتی۔
اب کوئی انہیں فصلی بٹیرے کہے ‘ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی کرپشن میں حصہ دار یا بھیگے ہوئے کارتوس‘ ایک بار تو یہ پیپلز پارٹی کی کشتی سے اتر کر تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہو گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بروقت درست فیصلہ کیا۔ بلدیاتی اور اگلے عام انتخابات میں ایک ایسی پارٹی سے وابستہ ہونا مفید ہے جس کا ہر حلقے میں ووٹ بنک ہے ...نوجوان‘ جذباتی ‘ متحرک اور نظریاتی کارکن اور عمران خان کی کرشماتی قیادت۔
ویسے بھی یہ سارے کے سارے بُرے اس بنا پر ہیں کہ ان کی اگلی منزل تحریک انصاف ہے ‘ اگر یہ مسلم لیگ کا رخ کرتے تو کوئی ان پر پھبتی کستا ‘نہ بے وفائی کا طعنہ دیتا۔ عبدالقادر بلوچ‘ سکندر بوسن ‘ مرتضیٰ جتوئی‘ زاہد حامد اور ماروی میمن کو پرویز مشرف کا ساتھی کوئی نہیں کہتا اور ممتاز بھٹو‘ لیاقت جتوئی‘ پرویز رشید اور دیگر کو ماضی میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کا طعنہ کبھی نہیں ملا۔ان میں سے کوئی تحریک انصاف کا رخ کر کے دیکھے ‘آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائیگا۔
میںنے سرتاج عزیز صاحب سے عرض کیا کہ پیپلز پارٹی کے تلوں میں اب تیل نہیں۔ مقابلہ عمران خان اور میاں نواز شریف میں ہے۔ اس قدر غلطیوں کے باوجود تحریک انصاف اور عمران خان‘ اگر مسلم لیگ (ن) سے لے کر پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم سے لے کر اے این پی اورمحمود خان اچکزئی سے لے کر مولانا فضل الرحمن کا مشترکہ ہدف ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں سب کے لیے چیلنج عمران خان اور تحریک انصاف ہے‘ پیپلز پارٹی کو بطور اپوزیشن زندہ رکھنا مسلم لیگ (ن) اور میاں صاحب کی مجبوری ہے کیونکہ ایک کمزور اور کرپشن کے الزامات سے چور جماعت کا سیاسی و انتخابی میدان میں مقابلہ کرنا آسان ہے جسے اب فوج کو للکارنے کی بنا پر مزید مشکلات کا سامنا ہے ‘بہ نسبت تحریک انصاف کے‘ جس کے لیڈر اور کارکن ڈٹ کر چومکھی لڑ رہے ہیں اور اگر ماضی کی غلطیوںکا ازالہ کرنے میں کامیاب رہے تو تاریخی کامرانی ان کی شدت سے منتظر ہے۔
پیپلز پارٹی کی شکست و ریخت کا ذمہ دار کوئی اور نہیں‘ ایسٹیبلشمنٹ نہ مخالفین اور نہ غیر جمہوری قوتیں ‘ یہ قیادت کے کرموں کا پھل ہے اور بار بار کی غلطیوں‘ بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کا نتیجہ ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغوں نے مجھے