فروری 1996ء میں بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک غیر ملکی سفارت خانہ نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا جس میں مقتدر شہریوں ، سفارت کاروں اور افسروں کے علاوہ جموںکشمیر کے معرف قانون دان اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکن جلیل اندرابی بھی شریک تھے۔ موضوع بحث اندرابی صاحب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں تھیں۔ انہیں شک تھا کہ دھمکیوں کے پیچھے بھارتی فوج کا ایک افسر ہے۔ مجھے یاد ہے، کھانا کھاتے ہوئے اندرابی صاحب روداد سنا رہے تھے اور سبھی مہمان ہمہ تن گوش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل انہوں نے اپنی مکان کی دوسری منزل سے کچھ مسلح مشکوک افراد کو آس پاس منڈلاتے ہوئے دیکھا تو چھت کے پاس ایک کونے میں چھپ کر انہوں نے ان افراد کی تصویریں کھینچیں۔ بعد میں ان افراد نے ان کے گھر پر دستک بھی دی مگر ان کی اہلیہ ان کو باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ وکیل صاحب گھر موجود نہیں ہیں۔ اگلی صبح اندرابی صاحب نے ایئرپورٹ کا رخ کیا اور پہلی فلائٹ سے دہلی روانہ ہوگئے۔ انہوں نے ان لوگوں کی تصویریں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایس بی چون، وزیر مملکت راجیش پائلٹ، امریکی سفیر فرانک وازنیئر اور دوسرے متعلقہ افراد کو دیں۔ انہوں نے تصویروں میں کچھ افراد کی شناخت بھی کی جو ان کے بقول بھارتی فوج کی راشٹریہ رائفلزکے ساتھ کام کررہے تھے۔ وزیروں، سفیروں اور محفل میں موجود مقتدرافراد نے تصویریںکھنچنے اور دہلی آکر انہیں کرنے کو ان کی غیر معمولی حاضر دماغی قرار دے کر خوب سراہا اوریقین دلایا کہ اب ان پرکوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ بھارت کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور مغربی ممالک کے سفیروں کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرکے جلیل اندرابی سرینگر لوٹ گئے۔ اس پارٹی کے صرف پندرہ دن بعد ہی خبر آئی کہ 8مارچ 1996ء کو انہیں اپنی اہلیہ کی موجودگی میں اغوا کرلیا گیا ہے۔
ان کی اہلیہ نے اغواکارو ں میں راشٹریہ رائفلز کی 35 ویں یونٹ کے میجر اوتار سنگھ کوپہچان بھی لیا تھا۔ سبھی قانونی کارروائیاں کرنے کے باوجود تین ہفتے بعد ان کی لاش دریائے جہلم میں تیرتی ملی۔ چونکہ معاملہ ایک معروف قانوں دان کا تھا اس لیے کسی حد تک عدالتوں نے بھی سرگرمی دکھائی اور فوج پر دبائو ڈالا کہ اوتار سنگھ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ لاتعداد سمن جاری ہونے کے باوجود اوتار سنگھ عدالت میں پیش نہ ہوا۔فوج نے اسے ریٹائرکرکے اور سفری دستاویزات فراہم کرکے کینیڈا بھگا دیا۔ بعد میں وہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سیٹل ہوگیا اورقانونی اداروں حتیٰ کہ ہائی کورٹ کا منہ چڑاتا رہا۔ 2012ء میں وہ خدائی انصاف کا شکار ہوا جب اس نے اپنی پوری فیملی کو قتل کرکے خود کشی کرلی۔
معروف قانون دان کا قتل اور اوتار سنگھ کی کہانی کشمیر میں نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (افسپا) کی بربریت کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔ چونکہ یہ واقعہ ایک معروف شخصیت سے وابستہ تھا اس لیے میڈیا اورعدالت کے سامنے آیا ورنہ ہزاروں ایسے کیسز ہیں جوریکارڈ تک نہ پہنچ پائے۔ کشمیر میں 'افسپا‘ کے نفاذ کے25 سال مکمل ہونے کے موقع پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے اپنی پہلی رپورٹ حال ہی میں شائع کی جو کشمیر پر پہلی گرائونڈ رپورٹ ہے۔ اس سے قبل ان کے کارکنوں پر کشمیر جانے پر پابندی تھی۔ چند سال قبل ایمنسٹی کو چند شرائط کے ساتھ بھارت کے شہر بنگلور میں انڈیا چیپٹر کھولنے کے اجازت دی گئی تھی۔ دو سال قبل اس ادارے نے کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ اورافسپا پرکام کرنا شروع کیا۔ اگرچہ افسپا پرکام گزشتہ برس ستمبر میں مکمل ہوگیا تھا مگر اس دوران اس رپورٹ کے روح و رواں بھارتی نژاد امریکی شہری کریسٹین مہتاکو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا، اس لیے کافی تاخیر کے بعد گزشتہ ہفتے یہ رپورٹ جاری کی گئی۔
رپورٹ میں سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاست میںافسپا کے25 برسوں کے دوران 43 ہزار افراد ہلاک ہو ئے۔ غیر سرکاری ادارے اورکشمیر میں سرگرم مقامی کارکن یہ تعداد دگنی بتاتے ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق یہ رپورٹ زمینی سطح کی تحقیق، دستیاب دستاویزات اور آر ٹی آئی ایکٹ کے حکام کی طرف سے فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی اہلکاروں نے انسانی حقوق کی پامالی سے متاثرہ 58 کنبوں سے بھی بات چیت کی ۔ ''جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے سکیورٹی فورسز میں جوابدہی کی ناکامی‘‘ کے زیر عنوان اس رپورٹ میں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا تذکرہ کرنے کے علاوہ اس بات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح ان واقعات کے ضمن میں سرکاری رد عمل انصاف کی فراہمی میں ناکام رہا۔ رپورٹ میں ریاست کے اندر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کئی واقعات کا ذکرکیا گیا ہے جن میں 2010ء میں نادی ہل بارہمولہ کے تین نوجوانوں کی مڑھل سیکٹر میں فرضی جھڑپ کے دوران ہلاکت بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں 2010ء میں فورسز کے ہاتھوں100سے زائد مظاہرین کی ہلاکت ، 3500کی گرفتاری اور120پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کا بھی ذکرکیا گیا ہے۔ فورسزکے زیر حراست اموات اورگمشدگی کے کئی واقعات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ریاست میں
آرمڈ فورسز سپیشل پاورزایکٹ 1990ء کی دفعہ7 کے تحت ایسے واقعات میں ملوث فورسز اہلکاروں کو قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل ہے۔ آرمی ایکٹ 1950ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز فوجی جوڈیشل نظام میں رہ کر زیادتیاں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے خلاف شفاف مقدمہ نہیں چلایا جاتا، فوجی عدالتوں کے ذریعے بھی بہت زیادہ ملوث اہلکاروں کے رینک میں کمی اور دو سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سکیورٹی فورسزکی طرف سے ان معاملات کی ناقص تحقیقات ، سول عدالت میں مقدمہ چلانے یا سرکاری انکوائری میں عدم تعاون کی وجہ سے انصاف کی فراہمی غیر یقینی ہے۔ شکایت کنندگان کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت بھارت کے باہرعام جرائم جیسے عصمت دری اور قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اس کا ارتکاب ڈیوٹی کے دوران کیا ہو۔ جموں کشمیر'' ڈسٹربڈ ایریا ‘‘ ہونے کی وجہ سے اہلکاروںکو ہر وقت ڈیوٹی پر تصورکیا جاتا ہے اور ان کے خلاف صرف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے کئی بار فوجی عدالتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اس میں اصلاحات کی سفارش کی ہے۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ فوج آج تک ریاست میں تعینات اہلکاروں کی تعداد ظاہرکرنے سے انکار کرتی آئی ہے جبکہ ماہرین کے مطابق ریاست میں6 لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات ہیں جو جنگجو مخالف کارروائیوں اور لائن آف کنٹرول کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست میں امن اور قانون کی اندرونی عملداری کے لیے مقامی پولیس کے ساتھ ساتھ سی آر پی ایف اور بی ایس ایف اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی تعینات ہے۔ رپورٹ
میںبتایا گیا ہے کہ وزارت دفاع کی طرف سے زیادتیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ 18اپریل 2012ء کو وزارت دفاع نے حق اطلاع سے متعلق قانون کے تحت ایک درخواست کے جواب میں بتایا کہ وزرات کو فوجی اہلکاروںکے خلاف کارروائی عمل میں لانے کے لیے 44 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے35 معاملات میں ایسا کرنے سے انکارکیا گیا۔ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں افسپا کی فوری واپسی پر زور دیتے ہوئے کہاکہ فوجی عدالتوں کا دائرہ کار صرف فوجی نوعیت کے جرائم تک محدود کیا جائے جبکہ معصوم شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کے مرتکب فوجی اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی اجازت حاصل کرنے میں حائل تمام رکاوٹیں دورکی جائیں۔
اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کشمیر میں سیاسی لیڈروں کا کہنا ہے کہ یہ اقوام عالم کے ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ ان کا کہنا ہے جب حکومت خود یہ اعتراف کرتی ہے کہ کشمیر میں تشدد کے حوالے سے کمی آئی ہے تو افسپا کے جاری رکھنے کی کیا وجہ ہے؟سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی دور حکمرانی میں اس ایکٹ کی منسوخی کے لیے خاصی تگ و دو کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، اگر پوری ریاست سے اس ایکٹ کا خاتمہ نہیں ہوتا تو سرینگر یا اس سے متصل علاقوں سے جہاںاب لا اینڈ آرڈر میں فوج کا عمل دخل نہیں ہے، اس کی واپسی ہوسکتی ہے۔ کانگریس کی قیادت والی گزشتہ حکومت میں وزیرداخلہ پی چدمبرم بھی اس ایکٹ کی منسوخی کے حامی تھے اور دبے لفظوں میں ان کو وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حمایت بھی حاصل تھی مگر فوج کے سخت رویے اورکابینہ میں وزیر دفاع اے کے انتونی کی مخالفت نے سیاسی قیادت کی تجویزوںپر پانی پھیر دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے جمہوری نظام میںجہاں فوج کے مقابلے میں سیاسی قیادت کو فوقیت حاصل ہے، حقیقت میں کتنا درست ہے؟ اس لیے کہ سیاچن گلیشیر کے حوالے سے بھی فوج نے سیاسی قیادت کا فیصلہ ویٹو کر دیا تھا۔