عبداللہ حسین کے حوالے سے جو کچھ اخبارات میں آ چکا ہے‘ اسے دہرانا محض وقت کا ضیاع ہوگا اس لیے اس سے قطع نظر کرتے ہوئے بات کرتے ہیں۔ انتقال سے چند روز پہلے میں نے فون کیا اور حاصلِ عمر ایوارڈ ملنے پر مبارکباد دی تو کہنے لگے‘ میں یہ ایوارڈ وصول کرنے کیا جائوں گا اس لیے ان سے یہی کہوں گا کہ باقی سب کچھ خود رکھ لیں البتہ اس کے ہمراہ جو پانچ لاکھ کی رقم ہے‘ وہ ضرور بھیج دیں کہ اپنا علاج تو کرا سکوں۔ پھر میرا حال احوال پوچھا‘ بتایا تو بولے کہ میں ذرا بہتر ہوتا ہوں تو ملنے کے لیے آئوں گا۔
''اکادمی ادبیات‘‘ والے نئے ادب کے معمار سلسلے میں عبداللہ حسین پر کتاب شائع کرنے لگے تو آصف فرخی اور دیگران کے علاوہ اس پر کچھ لکھنے کی مجھے بھی دعوت دی؛ چنانچہ میں نے زیادہ تر ''اداس نسلیں‘‘ پر ہی اظہار خیال کیا البتہ اس ناول اور دوسری تصنیفات کے حوالے سے میرے جو تحفظات تھے‘ میں نے وہ بھی لکھ دیا‘ مثلاً ایک جگہ انہوں نے ایک عورت کے ہاتھوں یکے بعد دیگرے تین مردوں کو قتل کردینا بیان کیا ہے۔ میں نے اس سے اختلاف کیا۔ نیز ایک امام مسجد کے ہاتھوں مسجد کے باہر پتھر مار کر ایک نوزائیدہ حرامی بچے کا سر کچلنے پر بھی میرا اختلاف تھا کہ آدمی چاہے وہ لادین ہی کیوں نہ ہو‘ اتنا
سفاک نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک عورت کے ہاتھوں درانتی کے وار سے سامنے بیٹھے ہوئے مرد کا عضو کاٹ دینے کا جو ذکر کیا ہے میں نے اس سے بھی اختلاف کیا اور لکھا کہ جو نقشہ انہوں نے کھینچا ہے‘ اس صورت میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ کہانی کو تعقلاتی منطقے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اور جو کچھ مصنف لکھے‘ ضروری ہے کہ ساتھ ساتھ قاری کو قائل بھی کرتا جائے۔
ان سے فون پر گپ شپ ہوتی رہتی تھی جس دوران میں نے انہیں ایک بار کہا کہ شاعر کو فکشن اور فکشن رائٹر کو شاعری ضرور پڑھنی چاہیے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کے فن پر اظہارِ خیال بھی کرنا چاہیے جس سے انہوں نے اتفاق بھی کیا تھا۔ میرا نقطۂ نظر یہ تھا کہ نثر اور شاعری کو ایک دوسری سے اتنا زیادہ دور نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک دوسری پر اثرانداز ہونے کی کوشش بھی کرنی چاہیے جس سے دونوں میں ایک تازگی کے در آنے کا امکان بھی موجود ہے جبکہ یہ بجائے خود ادب کے لیے کئی حوالوں سے فائدہ رساں ہو سکتا ہے۔ اس لیے
میں نے وقت کے ایک بڑے فکشن رائٹر انتظار حسین سے اپنے ایک مجموعۂ غزل کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی جو انہوں نے بڑی محبت سے پوری کردی۔ اسی طرح جب 'اب تک‘ کی چوتھی جلد کی اشاعت کا آغاز ہو رہا تھا تو میں نے عبداللہ حسین سے فلیپ لکھنے کی درخواست کی۔ کہنے لگے میں تو نثر کا آدمی ہوں اور شاعری کچھ زیادہ پڑھتا بھی نہیں ہوں‘ اس لیے میں شعری مجموعے کا فلیپ کیا لکھوں گا بلکہ یہ بھی بتایا کہ فلیپ وغیرہ میں لکھتا بھی نہیں ہوں۔ کہنے لگے کہ ہمارے ایک فکشن رائٹر فلیپ لکھوانے کے لیے تین دن تک آتے رہے جو کہ میں نے نہیں لکھا؛ چنانچہ اصرار کرنے کی بجائے میں نے کہا کہ لکھ دیں تو ٹھیک ہے‘ نہ لکھیں تو بھی ٹھیک ہے۔ میری اس بے نیازی سے متاثر بھی ہوئے اور آخری آمادگی ظاہر کردی اور پھر ایک ہلکا پھلکا اور مزیدار فلیپ لکھ کر بھیج دیا جو اس طرح سے ہے:
''میں شاعر ہوں نہ نقاد‘ صرف شعر کا قاری ہوں۔ اس لیے امید کرتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی یہاں کہوں گا‘ قارئین اسے میرے انتہائی محدود علم کی علامت سمجھ کر درگزر کردیں گے۔
ظفر اقبال کی شاعری کو پہلی بار پڑھتے ہوئے میں چونک اٹھا کہ یہ کیسی شاعری ہے جو اس سے قبل نظر سے نہیں گزری۔ پھر پڑھتے پڑھتے یہ انکشاف ہوا کہ شاعری کے مجموعی حجم کے بیچ ظفر اقبال نے ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ یہ گویا ان کا اختلافی نوٹ تھا کہ یہاں سے جدید شاعری شروع ہوتی ہے۔ جس طرح میرے پسندیدہ جدید انگریزی شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے روز مرہ کی اشیاء مثلاً چائے‘ پانی اور ٹوسٹ وغیرہ کو‘ اور دوسری زبانوں کے جدید شعرا نے بھی ایسی ہی چیزوں کو شاعری میں سمویا ہے‘ اسی طرح ظفر اقبال نے پھلوں اور سبزیوں تک زمینی حقائق کو شاعری کا جزو بنایا ہے۔ مگر ظفر اقبال کی شاعری کا منفرد ترین عنصر ان کی زبان ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ اعتقاد رہا ہے کہ نظم ہو یا نثر‘ اس کی زبان محض جذبات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ بذاتِ خود ایک مکمل کردار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ظفر اقبال نے ایک نئی زبان ایجاد کی ہے جس سے اردو زبان کو توانائی حاصل ہوئی ہے۔ میرے سامنے اس وقت جو اوراق ہیں وہ ان کی غزلوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ایک ہی قافیہ‘ ردیف اور بحر میں لکھا گیا ہے۔ اس میں بیسیوں اشعار اور سیکڑوں نئے نویلے الفاظ اٹکھیلیاں کر رہے ہیں مگر تول کا کانٹا نہ ایک طرف کو جھکتا ہے نہ دوسری جانب‘ گویا قدرتی توازن والا کھلکھلاتا ہوا باغیچہ ہے۔
ظفر اقبال نے کبھی روایتی رومانی شاعری نہیں کی‘ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس عمر میں بھی ان کی شاعری مجموعی طور پر ایک بے باک الہڑ لڑکی کا تصور پیش کرتی ہے‘ یا ایک ایسے کھلنڈرے بچے کا‘ جو ایک ٹین اور ایک روڑے کی مدد سے انوکھی دھنیں پیدا کر رہا ہو‘‘۔ ع
تری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
آج کا مقطع
تھک جاتے ہیں پیش رفت کی کوشش ہی میں ظفرؔ، ہم
اور‘ اثر پہلے والا بھی زائل ہو جاتا ہے