تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-07-2015

طلسمِ ہوشربا

اسلام آباد میں ایک طلسمِ ہوشربا لکھی جا رہی ہے او ریہ مملکتِ خدادا د کا ایک دیو مالائی فرزند تحریر کر رہا ہے ۔ اس کے منظرِ عام پر آتے ہی بڑے بڑوں کی سٹّی گم ہونے کا امکان ہے ۔ 
ایم کیو ایم پر ''را‘‘ اور ایم آئی سکس سے مدد لینے کا الزام پہلی بار سامنے نہیں آیالیکن اب کی بار حالات مختلف ہیں ۔ متحدہ اپنی تاریخ کی سب سے کمزور پوزیشن پر ہے ۔پہلے اسے برطانیہ کی آشیر باد حاصل تھی ۔ برطانوی حکومت اور خفیہ ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ کو عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش سے نہ روک سکے کہ وہ ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے میں بدنامِ زمانہ قاتل پکڑے گئے ۔جس طلسمِ ہو شربا کا میں ذکر کر رہا ہوں ، اس میں 1995ء کے آپریشن پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی ، جب صرف 6ماہ میں کراچی میں مکمل امن قائم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی تھی ۔ پھر نواز شریف برسرِ اقتدار آئے ۔تب چن چن کر آپریشن میں حصہ لینے والے 200پولیس افسروں کو قتل کر دیا گیااور شریف حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ پھر پرویز مشرف برسرِ اقتدار آئے اور ایم کیو ایم میں نئی جان ڈالی۔2008ء سے 2013ء کے درمیان پانچ ہزار افراد قتل ہوئے۔ کراچی کی صورتِ حال 1995ء سے کہیں زیادہ سنگین ہے ۔ اب وہاں ایم کیو ایم ہی نہیں ، پیپلز پارٹی ، اے این پی ، طالبان اور دیگر جماعتوں کے مسلّح گروہ بھی موجود ہیں ۔ 
طلسمِ ہوشربا... پچیس برس قبل ایک حکومتی بینک کی نجکاری سے شروع ہوئی ۔ دیو مالائی کردار تب ایف آئی اے میں تعینات تھا۔ حکومت اپنی مرضی کے ایک شخص کو بینک تحفے میں دینا چاہتی تھی لیکن کسی نے عدالت سے حکمِ امتناعی لے رکھا تھا۔ اس مسئلے پر ایک میٹنگ بلائی گئی ۔ ایف آئی اے کے افسر سے کہا گیا کہ کراچی جا کر حکمِ امتناعی لینے والے کا ٹینٹوا دبا دے ۔ اس نے پوچھا : کیا اس کے خلا ف کسی مالی بدعنوانی کی ایف آئی آر درج ہے ؟ ایف بی آر کا سربراہ وہیں موجود تھا۔ اس نے نفی میں جواب دیا تو ایف آئی اے کے افسر نے کہا : پھر یہ ہمارے دائرۂ کار میں نہیں آتا۔ افسر واپس اپنے دفتر پہنچا تو معطل ہو چکا تھا۔
دن گزرتے گئے اور ایک روز حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔نگران حکومت وجود میں آئی ۔ اس اثنا میں ایک سابق آرمی چیف کی موت پر قتل کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے اسی افسر کو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ قدرت کی ستم ظریفی یہ تھی کہ سابق حکمرانوں کو قاتل کہا جا رہا تھا، جنہوں نے اس افسر کو معطل کیا تھا۔ اس نے انتقام کی بجائے انصاف سے کام لیا۔شفاف تحقیقات کیں اور نہیں بری الذمہ قرار دے دیا۔
ایک روز نگران وزیرِ اعظم بلخ شیر مزاری نے افسر کو بلایا اور اسے امریکی سفیر کا خط دکھایا: بار بار توجہ دلانے کے باوجود آپ کے ملک سے امریکہ کی طرف انسانی سمگلنگ میں تیزی آتی جا رہی ہے ۔ صورتِ حال یہی رہی تو تین ماہ بعد قومی ایئرلائن کو امریکی سرزمین پر اترنے سے روک دیا جائے گا۔ افسر نے کہا : جن حالات میں ایف آئی اے سے مجھے نکالا گیا، میں کبھی واپس نہ جاتا لیکن یہ ایک قومی مسئلہ ہے ۔ اس شرط پر میں ایف آئی اے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ جائوں گا کہ آپ سمیت کوئی مداخلت نہ کرے گا۔ وزیرِ اعظم نے ہامی بھر لی۔ چند ہفتے بعد چار بڑے مگر مچھ جیل میں تھے ۔ انسانی سمگلنگ ختم ہو چکی تھی۔ اس پر امریکی سفیر اس افسر سے جا کر ملا اور اسے بتایا کہ اس کے بے داغ کردار اور قابلیت کی وجہ سے اس نے ذاتی طور پر بلخ شیر مزاری سے درخواست کی تھی کہ یہ معاملہ اسے سونپا جائے۔
الیکشن ہوئے اور نئی جماعت برسرِ اقتدار آئی۔ وزیرِ اعظم کے انتہائی قریبی عزیز کا ایک خاص الخاص بندہ افسر سے جا کر ملتا ہے، جو اب پولیس میں ہے ۔ وہ اس سے کہتاہے کہ اس کے کانسٹیبل بھائی کی ترقی کر دی جائے ۔ افسر پوچھتا ہے : کیا تمہارے بھائی نے کوئی خاص کارنامہ انجام دیاہے ؟ نفی میں جواب پر وہ اسے وہاں سے بھگا دیتاہے ۔ اب دوسری بڑی جماعت سے اس کی چپقلش کا آغاز ہوتاہے ۔ اس اثنا میں سرائے عالمگیر میں شیعہ فرقے کی ایک بس کے تمام مسافروں کو گولیوں سے بھون دیا جاتاہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وزیرِ اعظم کی طرف سے یہ معاملہ افسر کو سونپا جاتاہے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے ، جب پاکستان پر امن تھا اور یہ ایک انتہائی دہشت ناک واقعہ تھا۔ افسر ایک بار پھر جانفشانی سے تحقیق کرتاہے تو معلوم ہوتاہے کہ کچھ لوگ، ایک مدرسے میں جن کی برین واشنگ کی گئی تھی، یہ ان کا کیا دھرا ہے ۔ مجرم جیل پہنچ جاتے ہیں اور وزیرِ اعظم کی طرف سے اسے آئی جی کے عہدے پر ترقی کا عندیہ دیا جاتاہے لیکن سینیارٹی میں خاصا نیچے ہونے کی وجہ سے وہ انکار کر دیتاہے ۔ اس اثنا میں کراچی میں آپریشن کا فیصلہ ہوتاہے اور چھ ماہ میں وہ وہاں صفائی کر دیتاہے ۔ 
ایک بار پھر حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتاہے ۔ پرانی جماعت ایک بار پھر برسرِ اقتدار آتی ہے اور سب سے پہلے اسی افسر کو معطل کیا جاتاہے ۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ۔ نیک نام اور غیر معمولی صلاحیت کا افسر زیادہ تر معطل رہتاہے یا تبادلوں کی زد میں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جہاں حکومتیں مشکلات کی زد میں آتی ہیں ، وہاں وہ اس سے مدد لیتی ہیں ۔ ایم کیو ایم پر دبائو ڈالنے کے لیے ایک بار اسے انٹیلی جنس بیورو کا چیف بنا کر کراچی بھجوا دیا جاتاہے ۔ جیسے ہی وفاقی حکومت کے معاملات متحدہ قیادت سے طے ہوتے ہیں، اسے واپس بلا لیا جاتاہے ۔ آخر ریٹائرمنٹ کے بعد اسے ایک آئینی پوسٹ پر تین سال کے لیے تعینات کر دیا جاتاہے ۔یہاں بھی کئی اہم معاملات میں وہ اپنا لوہا منواتاہے ۔ ابھی چند ماہ باقی ہوتے ہیں کہ ملک کے ایک امیر ترین شخص کے دل میں خواہش جاگتی ہے کہ اس عہدے پر اس کا اپنا بندہ تعینات ہونا چاہیے۔ وہ اسے پیغام بھجواتاہے کہ مستعفی ہونے کی صورت میں اسے اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنوا دیا جائے گا۔ وہ انکار کر دیتاہے ۔ 
طلسمِ ہوشربا آپ کو بتائے گی کہ کیسے لینڈ کمپیوٹرائزیشن کے نام پر مخلوق کو الّو بنایا جاتاہے ۔ڈیٹا کمپیوٹر میں ڈال کر اگر پٹواری ہی کو اختیار دینا ہے تو فائدہ؟ اصلاح مقصود ہوتو انٹرنیٹ کے ذریعے عوام کو ڈیٹا تک رسائی نہ دی جائے ؟ طلسمِ ہوشربا بتائے گی کہ پٹوار اور پولیس ہی کے بل پر تو حکمران طبقہ بدمعاشی کرتاہے ۔ یہ آپ کو بتائے گی کہ نیک نیت اور قابل افسران کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتاہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved