تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-07-2015

جنرل صاحب کے پاس کتنا وقت باقی ہے؟

18 کروڑ انسانوں کا وطن مجروح ہے۔ اپنے فرزندوں سے فریاد کناں۔ کوئی ہے، دل کی گہرائیوں سے پکار کر جو کہے؟ 
ترے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں 
جسٹس جواد ایس خواجہ اور دوسرے معزز جج صاحبان کی اللہ مدد کرے۔ ان کے پاس وقت ہی کتنا ہے کہ کرپشن کے خبیث شجر کی جڑیں کاٹ سکیں، حکمران طبقہ قوم کے خون سے پیہم جسے سینچ رہا ہے۔ چند ماہ بعد وہ سبکدوش ہو جائیں گے۔ جنرل راحیل شریف تک کو زرداری صاحب نے چیلنج کر دیا کہ ان کے منصب کی مدّت فقط تین برس ہے جب کہ لوٹ مار کرنے والے ہمیشہ رہیں گے۔ دھمکی دی کہ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ نون لیگ تو کیا ان کے رفیق بھی کھل کر ان کا ساتھ نہ دے سکے کہ آنجناب نے اپنا مقدمہ بہت بھونڈے انداز میں پیش کیا‘ وگرنہ وہ کیا نہ کر گزرتے۔ اگر شریف خاندان اور دوسرے سیاسی گھرانوں سے تعاون کی کسی قدر توقع نہ ہوتی تو زرداری صاحب یہ جسارت کبھی نہ کرتے۔ مقدس شریف خاندان نے برائے وزنِ بیت اظہارِ اختلاف کے سوا اور کیا کیا؟ افواجِ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کا مقدمہ؟ 
الیکشن 2013ء سے قبل شہباز شریف دھاڑا کرتے تھے: زرداری کو میں کھمبے پر لٹکا دوں گا، سڑک پر گھسیٹوںگا، اس کا پیٹ پھاڑ دوں گا۔ اب کہتے ہیں، ازراہِ کرم زرداری صاحب مجھے معاف کر دیں۔ لوٹ مار کا جمہوری نظام بچانے میں وہ ہمارے ہم نفس ہیں۔ زرداری ٹولے کو تب وہ علی بابا چالیس چور کہا کرتے۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے مار دھاڑ کی انتہا کر دی؛ حتیٰ کہ ایم کیو ایم کی مدد سے رینجرز کی مشکیں کسنے پر تلی ہے، خادمِ اعلیٰ اب ان کا نام تک نہیں لیتے۔ اس لیے کہ پیپلز پارٹی مری تو نون لیگ کو بھی مار ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ نواز شریف زرداری صاحب کو پیغام پر پیغام بھیج رہے ہیں: صبر کیجیے، صبر، فی الحال میں مجبور ہوں۔
جنرل راحیل شریف کے پاس کتنا وقت باقی ہے؟ نومبر 2016ء میں انہیں ریٹائر ہو جانا ہے۔ چھ سات ماہ بعد، زیادہ سے زیادہ دس ماہ بعد وہ غیر موثر ہو جائیں گے۔ آئین کی حدود میں جو کچھ انہیں کرنا ہے، اسی دوران ہی کرنا ہے۔ مجھ ناچیز کی رائے میں توسیع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہونی بھی نہیں چاہیے۔ جنرل کیانی کی توسیع کا سب سے بڑا وکیل یہ ناچیز تھا۔ میں روداد لکھ دوں گا۔ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی زندہ سلامت ہیں۔ بہت سے دوسرے متعلق لوگ بھی۔ خدا گواہ ہے، اس اقدام کے پیچھے کوئی سودے بازی نہیں تھی۔ فقط یہ احساس کہ دریا میں گھوڑے نہیں بدلے جاتے۔ جنرل نے انکار کر دیا تھا۔ کس مشکل سے انہیں آمادہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم گیلانی نے کہا تھا ''منت سماجت کر کے‘‘ با ایں ہمہ، اس اقدام کا قوم نے خیر مقدم کیا اور نہ فوج میں سراہا گیا۔ بعد ازاں جنرل صاحب بھی ناخوش ہی ہوئے۔ سوچے سمجھے بغیر بات کرنے والا کپتان بڑبڑاتا رہا: دھاندلی میں جنرل بھی شریک ہے۔ سفید جھوٹ مگر چاپلوسوں میں گھرے بے خبر آدمی کو کون سمجھا سکتا ہے؟
فرصت پا چکے تو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایک دن مجھ سے کہا: میں بہت تھک چکا ہوں۔ میرے بچّوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اب ٹی وی دیکھوں گا، نہ اخبار پڑھوں گا۔ جنرل کیانی کے باب میں میری مذمت کی جاتی ہے۔ مجھے یہ گوارا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے اس شخص کو گونگا شیطان کہا تھا، معاملے سے آشنا ہونے کے باوجود جو جھوٹ بولنے والوں کے درمیان خاموش رہے۔ رہا ان کے بھائیوں کا معاملہ تو انشاء اللہ آئندہ چند روز کے اندر تفصیل سے لکھ دوں گا۔ سب کو اپنا بویا کاٹنا پڑتا ہے۔ ان کے بھائی بھی کاٹیں گے۔ جہاں تک جنرل صاحب کا تعلق ہے، انشاء اللہ وہ سرخرو ہوں گے۔ طعنہ زنی کرنے والوں کی زبانیں انشاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں گی۔
نکتہ یہ ہے کہ موجودہ آلہء کار قسم کی نیب، عسکری قیادت کی مجبوریوں اور سپریم کورٹ کی محدودات کے ساتھ احتساب کا عمل ممکن نہیں۔ کماحقہ کا کیا سوال، ادھورا بھی نہیں۔ جب باڑ ہی کھیت کو کھا رہی ہو تو کون اسے بچا سکتا ہے۔ 
پالیسی میں پہل (Policy Initiative) فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے باوجود شریف خاندان کی من مانی کا عالم کیا ہے؟ تازہ ترین یہ کہ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے روات تک سگنل فری سفر کے لیے بیس ارب روپے لٹا دیے جائیں گے۔ جی ٹی روڈ سے پختون خوا اور آزاد کشمیر کی ٹریفک راولپنڈی اور اسلام آباد سے گزرتی ہے۔ ایک ٹرک کم از کم ایک ہزار روپے زائد ڈیزل اور ایک گھنٹہ زائد وقت صرف کرتا ہے۔ روات کے عقب سے اگر پشاور موڑ اور مری کے لیے سڑکیں بنا دی جائیں تو کم از کم دس ملین ڈالر سالانہ کا تیل بچے گا۔ سڑکوں کو پہنچنے والا کم از کم پانچ ارب روپے سالانہ کا نقصان بھی۔ ایک نہیں، کئی بار شہباز شریف اور چوہدری نثار اتفاق کر چکے۔ عمل اس لیے نہیں کہ کوئی ذاتی انتخابی فائدہ اس میں نہیں۔ برسات کی پہلی ہی بارش نے راولپنڈی کو ادھیڑ ڈالا اور لاہور سمیت متعدد شہروں میں زندگی کی رفتار مدھم ہو گئی۔ مری روڈ پر میٹرو ننگی کھڑی ہے۔ کوئی دن فریاد رہے گی۔ پھر اشتہارات کا محتاج میڈیا خاموش ہو جائے گا۔ بھاڑے کے ٹٹو پھر میٹرو کے قصیدے لکھیں گے۔ مجھ ایسے خطاکاروں پر تبرّیٰ کریں گے ؎
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی
بینر لٹکانے، اخلاقیات کا درس دینے اور میڈیا کوریج سے کرپشن کا سدّباب اگر ممکن ہوتا تو چئیرمین نیب قمر زماں چوہدری سرفراز ہوتے۔ جی نہیں، اس کے لیے ایک بھرپور عوامی تحریک برپا کرنا ہو گی۔ سیاست کے لیے نہیں بلکہ کرپشن کے خلاف۔ ایک مضبوط عوامی فورم، جلسے جلوس پر جو اکتفا نہ کرے۔ تھنک ٹینک بنائے، رپورٹیں مرتب کرے۔ فعال طبقات، میڈیا، عسکری قیادت اور عدالتوں کی اس باب میں رہنمائی کرے۔ کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ ایم کیو ایم والے عشروں سے بھتہ وصول کر رہے ہیں؟ کیا اے این پی کے لیڈروں نے موقع ملتے ہی اربوں کی لوٹ مار نہیں کی؟ سکینرز اور دوسرے ساز و سامان کی خریداری میں رحمن ملک نے کیا کمیشن وصول نہ کیا؟ کیا یوسف رضا گیلانی چوری کے مرتکب نہ ہوئے؟ کیا راجہ پرویز اشرف مستحق نہیں کہ جیل میں ڈالے جائیں؟ کیا محترمہ فریال تالپور کے خلاف شواہد موجود نہیں اور خود زرداری صاحب کے خلاف؟ اسحٰق ڈار کیا جج کے سامنے شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ اور اپنے لیے ناجائز آمدن کا اعتراف نہیں کر چکے؟ کیا سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی فہرست میں حکمران طبقے کے خلاف پندرہ پندرہ برس پرانے مقدمات موجود نہیں؟
کرپشن کے خلاف تحریک کون چلائے گا؟ عمران خان؟ پھر سیف اللہ نیازیوں کا کیا ہو گا؟ نہیں، اس کی ساری توجہ حصولِ اقتدار پہ مرکوز ہے۔ اب وہ ایک اور نون لیگ، ایک اور پیپلز پارٹی ہے۔ سراج الحق؟ وہ اونٹوں کا جلوس نکالتے ہیں۔ کبھی رکشوں کا، نریندر مودی کے سر کی قیمت لگاتے ہیں اور قائم علی شاہ کو ڈیپ فریزر میں رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ 1980ء کے عشرے میں وہ جی رہے ہیں۔ بالغ ہونے سے انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ طالبِ علم لیڈر ہمیشہ طالبِ علم لیڈر ہی رہتا ہے۔ 
18 کروڑ انسانوں کا وطن مجروح ہے۔ اپنے فرزندوں سے فریاد کناں۔ کوئی ہے، دل کی گہرائیوں سے پکار کر جو کہے؟ 
ترے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved