تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     09-07-2015

القدس میں گزارے صدیوں پر محیط لمحے

مقبوضہ یروشلم کے پرانے حصے میں 0.9 مربع کلومیٹرجگہ کو مسلمان القدس یا بیت المقدس کہتے ہیں۔ اس مقام کو یہودی ٹمپل مائونٹ (جبل الکنیسہ) قرار دیتے ہیں۔ یہ مقام تینوں الہامی مذاہب کے لیے مقدس ہے۔ اس جگہ یہودیوں کا ٹمپل (کنیسہ) تعمیر کیا گیا تھا عیسائی روایات کے مطابق مسیح علیہ السلام کی صلیب پر شہادت بھی اسی جگہ ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسی مقام سے رسول ِ اکرم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ چونکہ مسلمان تمام انبیاء علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں اور کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتے؛ بلکہ اُن میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے؛ لہٰذا مسلمانوں کے لیے تو تینوں مقامات ہی مقدس ہیں۔ 
جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ مجھے اس مقام پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔عام پاکستانی یہاں نہیں جاسکتے کیونکہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانا ممکن نہیں۔ پہلے میں نے قبۃ الصخریٰ پر دعائیں کیں۔ یہ مقام بھی حرم شریف کہلاتا ہے اور اسی جگہ سے پیغمبر ﷺ اپنے آسمانی سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ روایات کے مطابق اس سے پہلے آپ ﷺ نے مسجد ِ اقصیٰ میں پیغمبروں کی نماز کی امامت کرائی تھی۔ مسجد ِ اقصیٰ اسلام کی تیسری مقدس ترین مسجد ہے۔ یہاں دعائیں کرنے کے بعد میں یہودیوں کے حصے میں دیوارِ گریہ کے پاس گئی۔ میں نے ایک سیاح سے پوچھا اسے دیوارِ گریہ کیوں کہتے ہیں تو اُس نے جواب دیا کہ صدیوں پہلے یہاں یہودیوں کا حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کردہ ''ہیکل سلیمانی‘‘ تھا۔ اُسے پہلے بابل اور پھر رومن افواج نے تباہ کر دیا تھا۔ بس اس کی مغربی دیوار باقی رہ گئی۔ صدیوںسے یہودی یہاں آکر اپنے پیغمبروں کی بنائی ہوئی عبادت گاہوں کی یاد میں گریہ زاری کرتے ہیں۔ قریب ہی کھڑے ایک اور یہودی ہماری باتیں سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا۔۔۔''ہم ہر سال اگست میں اپنی مقدس عبادت گاہوں کی تباہی کی یاد تازہ کرنے کے لیے روزے رکھتے ہیں‘شب بیداری اور عبادت کرتے ہیں۔‘‘جب میں دیوار کے قریب گئی تو میں نے کچھ آدمیوں اور عورتوں کو دیکھا جو لکھی ہوئی دعائیں دیوار کے سوراخوں میں رکھ رہے تھے۔ ہر طرف پرسکون ماحول تھا۔ یروشلم کی ایک رہائشی خاتون نے مجھے بتایا کہ وہ یہاں آکر اپنی دعائوں کی تمام کتاب پڑھتی ہے۔ کچھ قدامت پسند یہودی دعائیں پڑھتے ہوئے وجدانی کیفیت میں جھوم رہے تھے۔ جس طرح مسجد ِ اقصیٰ میں نماز ِ جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اُس میں نمازیوں کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے، اسی طرح اس مغربی دیوار کے پاس یوم السبت کی دعائیہ تقریبات ہوتی ہیں۔ عبرانی زبان میں سبت کا مطلب ''آرام ‘‘ ہوتا ہے۔ جمعے کا سورج غروب ہونے اور ہفتے کی رات آسمان پر تین ستاروں کے نمودار ہونے تک وہ السبت مناتے ہیں۔ رات کو موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں اور عبادت کی جاتی ہے۔ 
موجودہ دور میں القدس کا کنٹرول اسلامی ٹرسٹ کے پاس ہے جس کی سرپرستی اردن کرتا ہے۔ بظاہر اس مقام پر کسی تنازع کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تینوں مذاہب کے ماننے والے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرسکتے ہیں؛ تاہم انتہا پسند یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ آج قبۃ الصخریٰ اور مسجد ِ اقصیٰ واقع ہیں، اسی جگہ پہلے یہودیوں کی دو عبادت گاہیں تھیں‘ وہ انہیں گرا کر تیسرا کنیسہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے زمین کا یہ ٹکڑا مذاہب کا جائے اتصال بننے کی بجائے لڑائی کاباعث رہا ہے۔ 
1948ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے دوران یہ دیوار اردن کے کنٹرول میں آگئی تھی۔ اردن کے بانی فرمانروا شاہ عبداﷲ نے یہودیوں کو اگلے انیس سال تک دیوار ِگریہ کے پاس آنے کی اجازت نہیں دی تھی یہاں تک کہ اسرائیل نے 1967ء میں پرانے شہر پر قبضہ کرلیا۔ اگلے تین دن کے اندر اندر اُن کی بھاری بھرکم مشینری نے 770 سال پرانی مراکشی طرز تعمیر کی بنی ہوئی عمارتوں کو گرادیا تاکہ مغربی دیوار کی طرف آنے والی گلیوں کو وسیع کیا جاسکے۔جب میں اس دیوار کی طرف جارہی تھی تو عرب اسرائیل کشمکش کی تمام تاریخ میری نگاہوں میں گھوم رہی تھی۔ میں نے بھی وہاں جاکرعالمی امن، خاص طور پر اس خطے کے امن و استحکام کی دعاکی۔ 
اُس وقت تک سورج غروب ہوچکا تھا، ہوا میں قدرے خنکی تھی ، اور میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی عیسائیوں کے حصے کی طرف گئی۔ یہاں عیسائیوں کا مقدس ترین چرچ، Holy Sepulchreواقع تھا۔ ان کی روایات کے مطابق اس مقام پر مسیح علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔ داخلی راستے پر Stone of Anointing نامی سنگ ِ مرمر کی ایک سل نصب تھی۔ میں نے دیکھا کہ زائرین اس کے پاس جا کر گھٹنوں کے بل جھک کر اسے چوم رہے تھے۔ عیسائی عقیدے کے مطابق مسیح علیہ السلام کے مقدس جسم کو دفن کرنے سے قبل مرمر کی اس سل پر رکھا گیا تھا۔ میں مدہم روشنی والی راہداریوں میں، جو مختلف تبرکات سے سجی ہوئی تھیں، چلتی رہی۔ ان کا راستہ بہت ہی پیچ وخم والا تھا۔ مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ میں واپسی کا راستہ بھول جائوں گی لیکن پھر اچانک میں نے خود کو دروازے کے پا س پایا اور میں خوش ہوگئی۔ اس وقت تک مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔ چلتے چلتے میرے پائوں دکھنے لگے تھے لیکن ایک وجدانی احساس میری ہمت بڑھارہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں لاکھوں افراد کے جلو میں صدیوں کا سفر کررہی ہوں۔ وقت کی دھند سمٹ رہی تھی اور قدیم دور میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ میرے سامنے لاکھوں مسلمان، عیسائی اور یہودی تھے اور وہ ایک خدا کے لیے لڑرہے تھے اور ایک دوسرے کا اپنے اپنے عقیدے کے مطابق خون بہارہے تھے۔ شاید اس مقدس سرزمین کو سرخی کی زیادہ ضرورت تھی۔ 
دل میں بہت سے سوالات تھے، لیکن میرے پاس ان سوالات کاکوئی جواب نہ تھا۔خدا نے 0.9مربع کلومیٹرکے مختصر سے علاقے کو اتنی تقدیس کیوں دی کہ تینوں الہامی مذاہب کے پیروکار اس پر حق جتانے کے لیے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں؟ صلیبی جنگوںکے دور نے ان مقامات پر انتہائی خونریزی دیکھی ہوئی ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی تہذیب یافتہ انسان کسی سمجھوتے پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ اس جگہ پر ضرور کچھ نہ کچھ ہے اور یہاں چلتے ہوئے عام گناہ گارانسانوں کو بھی اس کا شدت سے احساس ہوجاتا ہے۔ میں قدیم شہر میں چلتی رہی۔ اس کے اردگرد چالیس فٹ بلندچونے کے پتھر کی بنی ہوئی دیوار ہے۔ یہ دیوار شاید صدیوں پرانی ہے لیکن ابھی بھی پرشکوہ دکھائی دیتی ہے۔ اس دیوار میں سات دروازے ہیں اور ان میں کسی ایک سے گزر کر آپ کو اندر آنا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے حصے میں دکانوں پر کھجوریں، عرب علاقوں کی روایتی مٹھائیاں، جائے نماز، تسبیحیں، عربی کافی، فروٹ جوس اور سنیک مل جاتے ہیں۔ یہاں کچھ رہائشی کوارٹرز بنے ہوئے ہیں۔ یہاں چلتے ہوئے مجھے ایک نوعمر لڑکی دکھائی دی۔اُس نے مجھے اپنے گھر آنے کا کہا۔ وہ صرف عربی بول سکتی تھی، لیکن میں اس کے ہاتھ کا اشارہ سمجھ گئی۔ میں نے گھر کے اندرجھانکا تو کچھ خواتین ڈنر تیار کررہی تھیں۔ وہ مجھے مل کر بہت خوش ہوئیں اور اُنھوں نے مجھے رات بھر ٹھہرنے کی دعوت دے دی۔ تاہم میں نے اُ ن کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے ہوٹل کی طرف چل دی۔ باہر اسرائیلی پولیس کے مسلح سپاہی گشت کررہے تھے۔ ہوا میں خنکی کافی بڑھ چکی تھی۔ میں نے عشاء کی اذان سنی۔ فضا میں اﷲ اکبر کی صدا سن کر طبیعت میں انشراح صدر یعنی روحانی سکون کی عجیب کیفیت محسوس ہوئی۔ اسرائیلی سرزمین پر ا ﷲ کی عظمت کا اعلان ہورہا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved