''اس صفحے کو خالی چھوڑ دیا جائے‘ کیا یہ ممکن ہے؟
اس بار سادہ اور سفید...
یا پھر پوری طرح سیاہی میں ڈوبا ہوا جو اب لہو کا رنگ بن کر الفاظ کے رگ و پے سے پھوٹ رہا ہے۔
الفاظ اندر سے خالی ہو گئے ہیں۔
رنگ ہم سے روٹھ گئے ہیں۔
سیاہ نہ سفید... کوئی رنگ اب ہماری کیفیت کا ممکن طور پر اظہار نہیں کر سکتا۔ الفاظ ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور خاموش رہنے کی سہولت ہم سے واپس لے لی گئی ہے‘‘۔
اس بار ''محفل‘‘ یعنی اداریے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے‘ جو سانحہ پشاور کے حوالے سے قلمبند کیا گیا ہے‘ لیکن اپنے طور پر یہ ایک خوبصورت‘ مکمل یا نامکمل نظم بھی ہے۔ نظم کے ضمن میں‘ میں اسی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ''نظم نامہ‘‘ میں لکھ چکا ہوں کہ نظم کبھی مکمل نہیں ہوتی اور جہاں پر ختم کی گئی ہو‘ وہیں سے کسی وقت پھر شروع کی جا سکتی ہے‘ حتیٰ کہ کوئی اور شاعر بھی اسے وہاں سے شروع کر سکتا ہے۔ سو‘ آصف فرخی اگر نظم گوئی کی طرف تھوڑی سی توجہ مبذول کریں تو اس میدان میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں!
پرچہ چونکہ تاخیر سے آیا ہے‘ اس لیے قدرے ضخیم بھی ہے؛ تاہم اس نے اپنے معمولات اور معیار کو ہمیشہ کی طرح برقرار رکھا ہے۔ حصۂ نثر میں انیس اشفاق‘ ناصر عباس نیر‘ حسن منظر‘ خالدہ حسین‘ ژولیاں‘ خورشید حسنین‘ فہمیدہ ریاض‘ عامر حسین‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ مسعود اشعر‘ انتظار حسین‘ زاہدہ حنا‘ سرور غزالی‘ دانیال شیرازی‘ قاسم یعقوب‘ مبشر علی زیدی اور مصطفی ارباب ہیں جبکہ شعبۂ شاعری میں منیب الرحمن‘ زہرا نگاہ‘ کشور ناہید‘ عذرا عباس‘ احمد فواد‘ تنویر انجم‘ سید سلمان ثروت‘ مصطفی ارباب‘ افضال احمد سید‘ اکبر معصوم‘ کاشف حسین غائر‘ ذوالفقار عادل اور احمد عطا کی نگارشات ہیں جبکہ شمس الرحمن فاروقی نے اس نوجوان شاعر پر مضمون جمایا ہے۔ ترجموں کا حصہ حسب معمول وقیع اور مضبوط ہے۔ نظمیں دل کھول کر شامل کی گئی ہیں جو اپنا جواز خود پیش کرتی ہیں۔ چند افسانے اور ایک دو مضامین پڑھ بیٹھا ہوں‘ لیکن فی الحال چونکہ یہی بتانا مقصود تھا کہ ''دنیا زاد‘‘ آ گیا ہے‘ اس لیے اسی کو کافی سمجھا جائے‘ البتہ حصۂ غزل
میں سے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں:
پہلے مجھ کو بھیڑ میں گُم کر دیا
پھر مجھے آواز دی جاتی رہی
جاتے جاتے رُک گیا کوئی‘ مگر
اُس مکاں تک وہ گلی جاتی رہی
میں کہاں تک گیا‘ نہیں معلوم
دور تک بال و پر گئے میرے
کوئی بتلائے کیا کہتے ہیں آخر
ہوائوں کو چراغوں کی زباں میں
کچھ دنوں ہی بے دلی دیوار تھی
پھر وہی دل تھا‘ وہی دیوار تھی
لوگ اس کے سائے میں بیٹھے تھے‘ اور
زندگی گرتی ہوئی دیوار تھی
ہاں مری پہلی محبت کی گواہ
اس گلی کی آخری دیوار تھی
(کاشف حسین غائرؔ)
شکر کیا ہے ان پیڑوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے
اِس منظر کو غور سے دیکھو‘ بارش ہونے والی ہے
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے‘ باقی کمرہ خالی ہے
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتشدان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے
اپنی مرضی سے سب چیزیں گھومتی پھرتی رہتی ہیں
بے ترتیبی نے اس گھر میں اتنی جگہ بنا لی ہے
دیر سے قُفل پڑا دروازہ اک دیوار ہی لگتا تھا
اُس پر ایک کھلے دروازے کی تصویر لگا لی ہے
ہر حسرت پر ایک گرہ سی پڑ جاتی تھی سینے میں
رفتہ رفتہ سب نے مل کر دل سی شکل بنا لی ہے
اوپر سب کچھ جل جائے گا‘ کوئی مدد کو آئے گا
جس منزل پر آگ لگی ہے‘ سب سے نیچے والی ہے
(ذوالفقار عادلؔ)
نعمتِ وصل کے قابل نہیں جانا تم نے
ہم چلے جائیں کہیں تم کو گوارا بھی نہیں
انتظار کرتے تھے‘ انتظار کرتے ہیں
اور کر بھی کیا لیں گے‘ اور کر سکے بھی کیا
ویسا ہی خراب شخص ہوں میں
جیسا کوئی چھوڑ کر گیا تھا
(احمد عطاؔ)
خوبصورت سرورق اور 324 صفحات پر مشتمل اس جریدے کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے ع
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
آج کا مقطع
مجھ پر‘ ظفرؔ‘ خدا کی زمیں تنگ ہی سہی
خوش ہوں کہ میرے سر پہ کھلا آسماں تو ہے