پاکستان میں بجلی اور پانی کے نائب وزیر‘ جناب عابد شیر علی اگر وفاقی کابینہ میں نہ ہوں‘ تو اپوزیشن کی نالائقیوں پر اس لوڈشیڈنگ کے زمانے میں ‘ روشنی کون ڈالے؟ شہبازشریف انتخابی مہم میں کہہ بیٹھے تھے کہ وہ لوڈشیڈنگ ختم کر کے دکھائیں گے۔ اگر نہ کر سکے‘ تو اپوزیشن والے ان کا نام بدل دیں۔ لوڈشیڈنگ تو اللہ کے فضل سے بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت بھی ٹس سے مس ہوئے بغیر‘ وعدے پر وعدہ کرتی چلی جا رہی ہے کہ وہ لوڈشیڈنگ ختم کر دے گی۔ مگر لوڈشیڈنگ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ ظاہر ہے‘ اس پر حکومت کو طعنے ملتے ہیں۔ نوجوان عابد شیرعلی سے یہ طعنے برداشت نہیں ہوتے اور کبھی کبھی ان کا پیمانہ صبر اتنا لبریز ہو جاتا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ دونوں کو روندتے ہوئے دلیری سے میدان میں اتر کے‘ اپوزیشن کو للکارتے ہوئے پہلے تو یہ بتاتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو چکی۔ اس کے بعد وہ اعدادوشمار سے ثابت کرتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کس طرح ختم ہوئی؟ وہ گن گن کر بتاتے ہیں کہ کس کس جگہ سے‘ بجلی کی پیداوار میں‘ کتنے کتنے میگاواٹ اضافہ ہوا؟ انہوں نے تازہ خبر یہ دی ہے کہ وہ 5000میگاواٹ کا اضافہ کر چکے ہیں۔ اگر وہ ازراہ کرم یہ بتا دیتے کہ یہ 5000میگاواٹ بجلی جاتی کہاں ہے؟ تو ہو سکتا ہے‘ گرمی‘ تاریکی اور حبس کی ماری قوم‘ ٹھوکریں اور دھکے کھاتی ہوئی بچوں سمیت کسی نہ کسی طرح اس جگہ پہنچ جاتی‘ جہاں وہ 5000 میگاوٹ بجلی جا رہی ہے۔ ہمیں تو اخبار میں یہی پڑھنے کو ملتا ہے کہ فلاں شہر میں بجلی 16 گھنٹے سے نہیں آئی اور کراچی چونکہ بڑا شہر ہے۔ لہٰذا وہاں رہنے والے جھوٹ بھی بڑا بولتے ہیں۔ وہ اپنی لوڈشیڈنگ کو کسی سے کم کر کے کبھی نہیں بتاتے۔ اگر کوئی قصبہ بھی یہ اعلان کر دے کہ ان کے ہاں لوڈشیڈنگ18گھنٹے طویل ہے‘ تو کراچی والوں کا دعویٰ فوراً سامنے آ جاتا ہے کہ ہماری لوڈشیڈنگ ان سے بھی بڑی ہے۔ جہاں کا وزیراعلیٰ اپنے شہر کی آبادی 22 کروڑ بتاتا ہو‘ وہاں کے باسیوں کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ پورے پاکستان کی آبادی اٹھارہ بیس کروڑ بتائی جاتی ہے۔ سائیں بادشاہ اس معاملے میں بھی کراچی کی روایتی مبالغہ آرائی سے باز نہیں آئے۔
اصل میں انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر کارکردگی میں سب سے آگے ہیں۔ حد یہ ہے کہ جب اقتدار میں آئے تو کراچی کی آبادی 2 کروڑ تھی۔ عوام کو ان کی تعریف کرنا چاہیے کہ انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں 22 کروڑ کر دی(اسی لئے جگہ جگہ گرتے اور سوتے پھرتے ہیں)۔ میرا خیال ہے‘ عابد شیر علی بھی کچھ اسی طرح کے موڈ میں تھے۔ لوڈ شیڈنگ کے مارے ہوئے پاکستان میں یہ دعویٰ کرنا کہ ہم نے 2 سال کے دوران بجلی کی پیداوار میں 5000میگاواٹ کا اضافہ کر دیا ہے‘ سائیں کے نشے کا نتیجہ ہے۔ یعنی اگر سائیں نے چند سال میں ملک کی 18کروڑ آبادی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے شہر کی آبادی 22 کروڑ کر دی ہے‘ تو عابد شیر علی کی حکومت نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ انہوں نے بجلی کی پیداوار 5000 میگاواٹ بڑھا دی ہے۔ یہ دونوں دعوے ایسے ہیں‘ جن کی تصدیق ممکن نہیں۔ آپ کراچی میں2کروڑ کی گنتی تک پہنچ کر ہانپ جائیں گے یااپنی ناکامی سے گھبرا کرٹارگٹ کلر بن جائیں گے۔ اسی طرح موجودہ حکومت کے دوسالہ دور اقتدار میں ‘پیدا ہونے والی نئی نویلی 5000میگاوٹ بجلی ڈھونڈنے نکلیں گے‘ توچاروں طرف لوڈشیڈنگ کے پھیلے اندھیروں میں انہیں نئی 5000 میگاواٹ بجلی تو کیا؟ ماچس کی تیلی جتنی بجلی ہی ملے گی۔ شاید اسی کو عابدشیر علی میگاواٹ کہتے ہیں۔جس کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوڈشیڈنگ بڑھ رہی ہے۔ باتوں اور بیانات میں عابد شیر علی کا مقابلہ ایک ہی وزیر رحمن ملک کر سکتا تھا۔ و قت نے اسے ویٹنگ لائونج میں بٹھا دیا ۔ ورنہ تازہ تازہ اور گرم گرم بیانات پیش کرنے میں ‘کوئی ان کا ثانی نہیں۔ اب میدان خالی ہے اور عابدشیرعلی اکیلے سب کو للکار رہے ہیں۔ کسی میں ہمت ہی نہیں کہ آگے بڑھ کے ان کی یاوہ گوئی کا مقابلہ کر سکے۔ جس ملک کے صرف ایک شہر میں 1200 سے زیادہ انسان ‘صرف اس بنا پر گرمی سے دم توڑ دیں کہ ہسپتالوں میں بجلی نہیں تھی‘ اس ملک کا ایک وزیر تین دن کے بعد ہی یہ اعلان کر دے کہ اس نے تو بجلی کی پیدوار میں 5000 میگاواٹ کا اضافہ کر دیا ہے‘ تو وہاں لمبی لمبی لوڈشیڈنگ کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ کم ہمت لوگ اضافی بجلی تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ ورنہ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ چند سال پہلے جتنی بجلی میں ہم لوڈشیڈنگ کے بغیر گزارا کر رہے تھے‘ اس میں5000 میگاواٹ اضافے کے بعد ‘ ہم لوڈشیڈنگ کا شکاررہتے ہیں؟ ہو سکتا ہے‘ رپورٹنگ میں غلطی ہو گئی ہو۔ ایک سچا اور کھرا نوجوان ‘ اندھیروں میں ڈوبے شہریوں کو یہ خبر دے رہا ہو کہ تمہارے لئے بجلی کی پیداوار میں5000 میگاواٹ کا اضافہ ہو چکا ہے‘تو انہیں رونے دھونے اور کڑکتی دھوپ میں سڑکوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہو سکتا ہے عابد شیر علی‘ پاکستانی عوام کی ناشکری پر طنز کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ ایک طرف تو ہم نے بجلی کی پیداوار میں 5000 میگاواٹ اضافہ کر دیا اور دوسری طرف یہ ناشکرے لوگ ہماری شاندار کارکردگی کا اعتراف کرنے کے بجائے‘ احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمارے لوگ ہی ناشکرے ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ ہو‘ تو یہ رونے دھونے لگتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان ہو‘ تویہ بین ڈالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جعلی دوا سے کوئی مر جائے‘ تو سارا خاندان سیاپا کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ مرنے والے نے اصلی دوا کیوں نہ کھائی ؟ جعلی دوا کھانے کے شوق میں جان دے دی اور سوگوار حکومت کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ ہماری قوم کو تو ایسے وزیرخزانہ کی شاندار خدمات کا بھی اعتراف نہیں ‘ جس کے دور میں بچوں نے آئس کریم کھانا چھوڑ دی ہے۔ کیونکہ اگر بچے آئس کریم کھا لیں‘ تو گھر میں روٹی نہیں پکتی۔ رودھو کے بچوں نے ہی صبر کرنا سیکھ لیا۔ سابقہ حکومتوں نے‘ ہاتھ جوڑ کر آئی ایم ایف سے کہا تھا کہ ''بخشو! بی بلی‘ چوہا لنڈورا ہی بھلا۔‘‘ مگر نفیس مزاج اسحق ڈار‘ لنڈورے پن کو کیسے گوارا کر سکتے ہیں؟ انہوں نے وزارت خزانہ سنبھالتے ہی بلی کو دعوتیں دینا شروع کر دیں۔ بلی نے بہت منہ پھیرا۔ مگر ڈار صاحب دم کی واپسی چاہتے تھے۔آخر میں جب بلی نے شرط لگائی کہ تم اپنی دم کے لئے اتنا ہی بے چین ہو‘‘ تو دبئی چلے آئو۔اپنے ڈالر بھی ساتھ لیتے آنا۔ کوئی پاکستانی حکومت یہاں کے بینکوں میں محفوظ کیا ہوا‘ سرمایہ نہیں ڈھونڈ سکتی۔ اپنے ڈالر یہاں رکھو اور ہم سے لے جا کر اپنی قوم کومزید مقروض کرو۔ سال کے سال ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھا کر‘ ہمارے تیزی سے ترقی پذیر سود میں اضافہ کرو۔ ڈار صاحب‘ دبئی جاتے ہیں۔ اپنے ڈالر وہاں جمع کراتے ہیں اور آئی ایم ایف کے خونخوار ڈالر‘ اہل وطن کے لئے ملک میں لے آتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی حکومت میں سب سے زیادہ بااثر اور طاقتور وزیر‘ جناب اسحق ڈار ہیں۔ وہ لوگوں کے دل جتنے دکھاتے ہیں‘ وزیراعظم کی نظر میں ان کی قدرومنزلت اسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ میرا خیال ہے‘ ڈار صاحب کو دیکھ کر ہی عابد شیر علی نے بھی انہی کے طور اپنانے کا فیصلہ کیا۔ ڈارصاحب قرضے چڑھا کرقوم کی رگوں سے سود نچوڑتے ہیں اور بیرو نی ایجنسیوں سے دادوتحسین کے ڈونگرے وصول کرتے ہیں۔ جن کے نتیجے میں شاباش ملتی ہے کہ ''پاکستان دنیا کا آٹھواں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن گیا ہے۔‘‘ عابدشیر علی بھی قوم کو اپنے احسانات جتاتے ہوئے‘ اسی طرح کے کچوکے لگاتے ہیں‘ جیسے ڈار صاحب۔ عابدشیر علی‘ لوڈشیڈنگ کی چوٹیں لگاتے ہیں اور ڈار صاحب مہنگائی کے درے برساتے ہیں اور اس پر عوام کو لعن طعن بھی کرتے ہیں کہ ''عقل کے اندھو! تم کہتے ہو شہبازشریف اپنا نام بدلیں۔ تمہیں پتہ نہیں کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی سمجھ لیا تھا کہ ہم لوڈشیڈنگ تو ختم نہیں کر سکیں گے۔ مجھے اپنا نام بدلنا پڑ ے گا۔ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا نام بدل کرخادم اعلیٰ رکھ لیا اور مسلسل سرکاری اشتہاروں میں اپنا یہی نام چھپواتے ہیں اور اپوزیشن ہے کہ اس کے عقل کے اندھے لیڈر ‘روز یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کا نام بدل دیں گے۔ نام تو کبھی کا بدلا گیا۔ کوئی اور بات کرو۔‘‘