تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-07-2015

انصاف کا دُوسر ا اور تیسرا پہیہ

یہ اس زمانے کی بات ہے جب آئینی عدالتوں کے جج ٹرک پر چڑھ کر جلوسوں کی قیادت کررہے تھے۔
وکیل جلسے کو گرمانے کے لیے نعرے ،دھمال کے علاوہ بھونچال نما تقریر کرتے۔ایسا لگتا تھا انصاف کی گاڑی کے یہ دونوں پہیے سب کچھ روند کر انصاف آزاد کریں گے۔جن کو پتہ نہیں ان کی معلومات میںاضافہ کے لیے کہتا ہوں کہ ٹریکٹر کے 4 پہیے ہوتے ہیں۔2 وڈے‘ 2چھوٹے۔ٹریکٹر بنانے والے نے ٹریکٹر کی تقدیر میں لکھ دیا کہ اس کے چھوٹے پہیے آگے ہوں گے ۔ روند ڈالنے والے بڑے پہیے ان کے پیچھے پیچھے ۔
چھوٹے پہیے تو چائے کے ڈھابے ،مستری کی دکان اور مکینک شاپ والے'' چھوٹے‘‘ جیسے ہیں‘ جن کی قسمت میں تین جملے سننے کا اختیار ہے ۔پہلا ،اوئے چھوٹے صاحب کے لیے دو ''کَٹ‘‘ چائے لے آؤ۔دوسرا جملہ اوئے چھوٹے پانا پکڑ۔تیسرا، اوئے چھوٹے تجھے موت کیوں نہیں آ جاتی۔یہ چھوٹے وہ ہیںجو چائلڈ لیبر میں بڑے ہوتے ہیں‘ لیکن 70سال گزرنے کے باوجود آج تک کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی ان چھوٹوں کو نہ تخفظ دے سکی نہ عزت نہ مساوات۔
آزاد عدلیہ کے دور میں وکیل برادری کی قسمت بھی ''چھوٹے‘‘ والی ہے۔یہ تقدیر آزاد جوڈیشل پالیسی سے پھوٹی۔بات اس طرف نکل جائے گی جہاںجرمانہ ہوتا ہے اس لیے چلیے وکیل کی قسمت کی طرف ۔مارشل لاء کاپانا پکڑنے کی باری آئی‘ ساتھ آواز بھی ''اوئے چھوٹے دوڑپانا پکڑ‘‘۔ پانا سرتوڑنے کے کام بھی آتا ہے ۔ہم جانتے ہیں سر تُڑوانے والے کو اپنے خرچ پر ٹانکے لگوانے پڑتے ہیں یا پٹی ۔اسی طرح لمبی ریلی ،لایعنی کانفرنس یانوکری بچاؤ جلسے کے مارے ہوئے ۔تھکے ماندے بڑوں کے لیے ایک کَٹ چائے بھی چھوٹالاتا ہے۔ ''کَٹ‘‘ ٹرانسپورٹ کی دنیا میںآدھا کپ چائے کو کہتے ہیں۔ 12مئی کا ''جوڈیشل انقلاب‘‘ کراچی ایئرپورٹ سے شہر جانا چاہتا تھا۔ اس میں چھوٹے کی تقدیر کا تیسرا حصّہ مکمل ہوا۔
''اوئے چھوٹے تم مر کیوں نہیں جاتے‘‘ 
5 احتجاجی وکلاء کو دن دیہاڑے کمرے میں لاک کر کے زندہ جلا یا گیا۔جلوس کا کوئی بہادرقائد شہیدوںکے گھر بھی نہ جا سکا۔نہ کسی کو ہمت ہوئی کہ وہ12مئی کا سوموٹو پرچہ درج کروا دیتا۔تب میں مشرف کی حکومت کے غصے کی آنکھ میں تھا۔وہ بھی رائے ونڈ والوں کی طرح ناراض ہو کر کہتے‘ کیس چلاؤ، سزا سناؤ ۔ انہیں بھی جواب ملتا بابر اعوان کیس چلنے نہیں دیتا ۔میں نے بیگم صاحبہ سے مشورہ کیا۔ 5لاکھ روپے لیے اور پاکستان بار کونسل کے دفتر چلاگیا۔رقم سیکرٹری کونسل کے ہاتھ میں تھمائی۔ رسید لی،کہا پیسے شہید وکلاء کے گھر وں میںپہنچا دیں۔نہ اس کی کوئی تصویر بنوائی ، نہ خبر چلوائی۔میں اپنے ضمیر اور دو جہانوں کے بادشاہ کو راضی کر نے کی کوشش میں تھا۔اسی دور میں 19جنوری2007ء کے نوائے وقت میں وکالت نامہ چھپا۔ عنوان تھا جسٹس فار...ٹال۔ اس کا ایک پیرا پڑھ لیجئے: 
''یہ قرض جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں پاکستانی قوم کو 2001ء میں ملا ۔ قرض لینے والوں نے دعویٰ یہ کیا کہ اس سے عوام کو انصاف تک رسائی کا مسئلہ حل ہو جا ئیگا۔آج2007ء ہے۔ اس عرصے میں انصاف تک رسائی کے کس ضمن میں کیا کامیابی اور کس قدر کامرانی اس قرض کی وساطت سے پاکستانی مظلوموں کو ملی اور بے نواؤں اور کم سرمایہ رکھنے والوںکو کہاں سے کیسی دادرسی حاصل ہوئی‘ یہ یقینا ایک اہم قومی سوال ہے جس کا جواب مانگنا قوم کا حق ہے اور وہ صرف اس لیے کہ یہ قرض انہوں نے واپس کرنا ہے جن کا اس قرض کے خرچے اور اس کے خرچ کی ترجیحات کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ 
سپریم کورٹ سے تازہ ریمارکس آئے کہ نیشنل ایکشن پلان پر ٹکے کا کام نہیں ہوا۔قوم کی طرح میں بھی سوچ میں پڑ گیا ایسے ریمارکس سے کون خوش ہوا ہو گا...؟ شہیدوں کے وارث ،سیاہ چین چوٹی پر بیٹھے وطن کے سپاہی‘ پہلا روزہ اگلے مورچوں پر گزارنے والا راحیل شریف‘ پاکستان کے وہ شہری جو ہر روز دھماکے کی آواز سنتے تھے‘ کراچی جہاں بھتہ خور روزانہ ہزاروں گولیاں تاجروں کے گھر بھیجتے رہے‘ ارضِ وطن کے 50ہزار شہیدوں کی روحیں‘ اس سارے فساد کا بانی ضیاء الحق یا اس کی باقیات...؟ یہ فیصلہ آپ خود کرلیں۔ضیاء آمریت کی باقیات دھاندلی کمیشن کی کارروائی سے سخت دباؤ میں ہیں۔سارے کالم ،تمام تجزیے اورٹوٹل خبریں دھاندلی کمیشن کے آخری فیصلے کی منتظر ہیں۔ایسے میں اداروں کے تصادم کا مُردہ نہلا کر نئے کفن میں چوراہے کے درمیان لاکھڑا کرنے کا فائدہ اور خوشی کس کو ہے؟یہ فیصلہ بھی قوم ہی کرے۔
جو دوست پریشان بلکہ زیرِ خفقان ہیں ان کے لیے کہتا ہوں فتح پاکستان کی ہو گی ۔خاطر جمع رکھیں۔اس ملک میں ٹریکٹر کا چھوٹا پہیہ تجربے کی بنیاد پر کہتاہے ۔یہ تجربہ اداروں کے تصادم پر مبنی دو عالمی جنگوں کے قبرستان سے ہو کر گزرا ۔یہ کسی تماشائی کی ٹیبل سٹوری نہیں۔ اس سلسلے کی دوسری جنگ کے دوران سیاسی چیف جسٹس نے پوچھا آپ کا کیس کب لگایا جائے ۔میں نشست سے اٹھا‘ سینکڑوں وکلاء ، درجنوں رپورٹرزکی موجودگی میں روسٹرم پر کھڑے ہو کر کہا ''اِیّاَکَ نَعبُدُ و اِیاَّکَ نَسْتَعِین‘‘ عمران خان کے لاہور والے جلسے سے سال سے زیادہ پہلے کی بات ہے ۔پھر کہا‘ گیارہ،بارہ،تیرہ۔سب ششدر رہ گئے۔ غریبوں کے خرچ پر سیاست کرنے والے کے منہ پر اس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ یاد کرائی۔
سیاستدانوں کے ٹرک اور وکیلوں کے خرچ پر نوکری بحال کرو کے نعرے لگوانے والا بحال ہوا تو درباریوں نے اسے سر پر اٹھا لیا۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے نعرہ تھا انصاف ہو گا ، ریاست ماں جیسی۔ جو بات میں آٹھ سال کہتارہاساتھی سیاست کارمجھے دیوانہ کہتے رہے۔ میڈیا میںمیری ڈَمی اور کارٹون کی بھرمار ہوئی۔اس کی ریٹائرمنٹ کے آخری چوبیس گھنٹوں میں سب وہی کہنے لگے ۔اس وقت جب میڈیا نے خبر چلائی کہ ریٹائرمنٹ میں62گھنٹے باقی۔تڑپنے کی آواز یوںگونجی ''62گھنٹے نہیںیہ62سال ہیں‘‘ خاطر جمع رکھیں تاریخ جغرافیہ نہیں جسے تبدیل کیا جا سکے ؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں؟ 
ایک اور وکالت نامہ 20فروری2007ء کو نوائے وقت میں چھپا۔ (دونوں کالم جمہوری پبلی کیشن کی کتاب وکالت نامہ کے صفحہ 161اور165 پرہیں) عنوان تھا ''بے معنی کانفرنس‘‘ مضمون یہ: 
''یوں تو عدلیہ کے بڑے‘ عدالتوں میں احتسابی نظام کے ہمیشہ نعرے مارتے ہیں لیکن عملاً صورتحال انتہائی مایوس کن ہے کیونکہ انصاف آج طاقتور ،دولت مند اور بڑے کے ہاتھ میں موم کی ناک کی طرح ہے جسے کسی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے یا زور لگا کر پگھلایا بھی جا سکتا ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عدلیہ کے حوالے سے کوئی ایسا مؤثرادارہ موجود نہیں جہاں پریزائیڈنگ افسروں کے کنڈکٹ، مس کنڈکٹ، کارکردگی یا کرپشن کے حوالے سے شکایت درج کر کے کوئی نتیجہ حاصل کیا جا سکے۔
سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی تنظیم نو کے بعد جو رولز بنائے گئے تھے ،ان کی اشاعت کے وقت یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اب عدلیہ میں چھوٹے بڑے کی تفریق کے بغیر سب کا احتساب ہو گا لیکن اس اعلان کے نتیجے میں بھی سوائے چند ماتحت عدالتی افسران کے نہ کسی کا احتساب شروع ہوا اور نہ ہی بڑوں کی کار گزاری کی بڑی بڑی کہانیوں پر سپریم جوڈیشل کونسل حرکت میںآئی‘‘۔ 
انصاف کا تیسرا پہیہ نظامِ انصاف کا حصّہ ہی نہیں۔بیچارہ سائل، مدعی،مظلوم ،مستغیث ۔مجھے بزرگ اماں جی کی بات یاد آئی۔تم نیشنل پلان کی بات کرتے ہو‘ مجھے انصاف نہیں مل رہا۔
نیشنل ایکشن پلان پر عدلیہ کی نظر ہے ۔نیشنل جو ڈیشل پلان کہا ںگیا۔یا ابھی بنا ہی نہیں...؟
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved