تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     11-07-2015

ڈرون ٹیکنالوجی

سوبی نے زیر لب یہ اعلان کرکے سارے خاندان کو حیران کر دیا کہ وہ اب ڈرون ٹیکنالوجی میں جا رہا ہے اور یہ کہ اس نے بلا ہواباز پرواز کے لئے لائسنس کی درخواست متعلقہ حکام کو دے دی ہے۔عالی اس اکٹھ میں شامل نہیں تھا۔وہ بارہ سال کا ہائی سکول پاس کرنے کے بعد جز وقتی ملازمت کے چناؤ میں مصروف ہے۔اس نے اس اعلان کے بارے میں سنا تو بے ساختہ بول پڑا:میں چچا کی کمپنی میں کام کروں گا۔
کسی نے سوبی کے بیان پر شک نہیں کیا۔سب جانتے تھے کہ ہائی سکول مکمل کرنے سے پہلے وہ وڈبرج ہائی کی فلائنگ کلب کا ممبر تھا اور بچپن میں ہوائی جہاز بنایا اور اڑایا کرتا تھا مگر جارج میسن یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد وہ صحت کے میدان میں چلا گیا اور پچھلے دنوں اس نے فرم سے قبل از وقت ریٹا ئرمنٹ لے تھی۔حیرانی اس بات پر تھی کہ پاکستانی امریکی ہونے کے ناتے ان کی اکثریت اس بات سے آگاہ تھی کہ امریکہ نے شمالی وزیرستان میں اپنے مسلح ڈرون بھیج کر سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے مگر وہ اس امر سے بھی واقف تھے کہ امریکہ نے ایک دوست ملک کو مصیبت میں پاکر مقامی حکومت کو فوجی امداد دی تھی جو ضرب عضب شروع ہونے تک زوروں پر تھی‘ جس سے پہلے آئے دن دہشت گردوں کے ساتھ درجنوں سویلین بھی مارے جاتے تھے۔سوبی نے ڈرون اڑانے کے لئے بہر حال صحت کا میدان ہی منتخب کیا تھا اور اس کا مقصد دور افتادہ مریضوں کو درکار ضروری ادویات بہم پہنچانا تھا۔ڈرون ٹیکنالوجی کتابیں‘ پیزا اور دوسرا تجارتی سامان پہلے ہی خریداروں کو پہنچا رہی ہے اور اب زراعت‘ اشیا سازی اور دوسرے صنعتی شعبوں تک رسائی حاصل کر رہی ہے۔بالآخر اس کے زلزلہ‘ سیلاب ‘ قحط اور دوسری آفات سماوی کی صورت میں ساری دنیا میں بروئے کار آنے کا امکان ہے۔
وفاقی حکام نے صحت کے میدان کااوّلین ڈلیوری پرمٹ جاری کر دیا ہے اور ڈرون کی پہلی پرواز سترہ جولائی کو‘ جب بیشتر امریکی مسلمان عید الفطر منا رہے ہوں گے‘ روانگی کے لئے تیار ہوگی۔ افتتاحی پرواز کو ریسرچ کا نام دیا جا رہا ہے۔یہ ریاست ورجینیا میں ہو گی۔انیس سو تین میں اسی علاقے میں رائٹ برادران نے آزمائشی پرواز کی تھی اور دنیا میں فوجی اور شہری ہوا بازی کا آغاز ہوا تھا۔ان دنوں پْر امن ہوا بازی کے اور واقعات بھی ہو رہے ہیں‘ جن میں شمسی توانائی سے آدھی دنیا کا چکر لگا کر نیو یارک میں لینڈ کرنے والا ہوائی جہاز بھی شامل ہے۔اس طویل اڑان میں ایک لٹر پٹرول بھی‘ جسے ہوا بازی کی رعایت سے ایوی ایشن کہا جاتا ہے‘ استعمال نہیں ہوا۔یہ دنیا میں معدنی ایندھن کے انجام کی ابتدا ہے۔
ریسرچ فلائٹ‘ جسے Let's fly wisely کا نام دیا گیا ہے‘ ورجینیا کے ایک دیہی ہوائی اڈے سے دوسرے تک وائز کاؤنٹی میں جائے گی اور بیس مریضوں کے لئے دوائیں پہنچائے گی۔اگرچہ پرواز کے گمراہ ہونے کے اندیشے کے پیش نظر ناسا کے اس طیارے پر ایک پائلٹ بھی موجود ہو گا مگر اسے زمین پر ایک کنٹرول سٹیشن سے بذریعہ ریموٹ‘ کنٹرول کیا جائے گا۔اس کے بعد ادویات ‘ ایک سپیشل ڈلیوری ڈرون پر لادی جائیں گی‘ جسے ایک آسٹریلوی کمپنی نے تیار کیا ہے۔یہ ڈرون کوئی ایک میل پرواز کر ے گا اور کاؤنٹی کے سالانہ میلے کے میدان میں تجارتی اشیا ہوا سے زمین تک اتاری جائیں گی۔ایک پرائیویٹ کمپنی ان ریسرچ پروازوں کو مربوط کرے گی جو دو سال پہلے فیڈرل ایوی ایشن ایجنسی کی جانب سے ڈرون کی بہ حفاظت پرواز کے مطالعہ کے لئے ورجینیا ٹیک (یونیورسٹی) کے انتخاب کے بعدتشکیل دی گئی تھیں۔ ورجینیا ٹیک‘ یونیورسٹی آف میری لینڈ اور رٹگرز (نیو جرسی) کے ساتھ مل کر یہ کام کر رہی ہے اور سب کو معلوم تھا کہ سوبی کا بیٹا‘ رضا حال ہی میں ورجینیا ٹیک سے گریجوایٹ ہوا ہے۔
واشنگٹن کی فضا میں بلا اجازت کوئی شے اڑانا منع ہے اور اسے دنیا کی محفوظ ترین فضاؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پچھلے دنوں محکمہ ڈاک کا ایک ملازم ایک جا ئرو کاپٹر (ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر کا خانہ ساز مجموعہ) میں نوے میل کا سفر کرکے کانگرس کے دروازے پر اتر گیا۔ 
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
وہ ایک قانون پر احتجاج کرنا چاہتا تھا۔اس طرح وائٹ ہاؤس کے لان میں ایک ڈرون پڑا پایا گیا۔ایک شخص نے کہا: یہ تو میرا ہے‘ میں اس سے کھیل رہا تھا کہ یہ کہیں گم ہو گیا۔کھلونے سے لے کر کارآمد تک کئی قسم کے غیر مسلح ڈرون ہمارے گروسری سٹور (کاسٹ کو) پر دستیاب ہیں اور گوگل کرنے سے ڈرون ٹیکنالوجی کے بہت سے متن مل جاتے ہیں۔عام ڈرون کی قیمت دو ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے اور ان میں سے بعض میں جی پی ایس اور کیمرے بھی نصب ہیں‘ جن کے دام کچھ زیادہ ہوں گے۔ اسی لئے ورجینیا کے گورنر نے تفتیش کی غرض سے ڈرون کے استعمال کے لئے عدالت سے وارنٹ حاصل کرنا لازم قرار دیا ہے‘ جو ظاہر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہی مل سکتا ہے۔پا کستان میں بھی سیاسی جماعتوں کے بڑے جلسوں میں تصویر کشی کے لئے ڈرون کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ دہشت گردی کے خلاف عالمی لڑائی میں اس ٹیکنالوجی کے فوجی استعمال پر مصر رہے ہیں اور ان کے اس اصرار کو بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسی کارروائی میں مارے جانے والے ایک عسکریت پسند کے ساتھ پانچ سویلین بھی کام آتے تھے۔بڑی طاقتیں اسے اجتماعی جانی نقصان کہہ کر نظر انداز کرتی رہی ہیں مگر یہ دلیل ا ن کے کام نہیں آئی۔پاکستان کے بعد صومالیہ اور یمن ‘ سب سے زیادہ ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے ملکوں میں شامل ہیں۔جب کسی ملک کو دوسرے کی سر زمین پر '' بْوٹ‘‘ رکھنے کا (فوج اتارنے کا) اختیار نہیں ملتا تو وہ ڈرون ٹیک استعمال کرتا ہے۔فاٹا میں ان کارروائیوں کا آغاز 2004ء میں ہوا۔سی آئی اے اب تک کم و بیش چار سو تیس ضربیں لگا چکی ہے‘ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''مفت‘‘ جنگ و جدل کے طور پر ڈرون کی اپیل کس قدر گمراہ کن ہو سکتی ہے۔پاکستان کے خلاف ڈرون حملوں سے القاعدہ‘ الشباب‘ بوکو حرام‘داعش اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کے سلسلے میں سبق مل سکتے ہیں۔مثلاً جب ڈرون حملہ ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے دہشت پسند کارروائیاں تھم جاتی ہیں مگر دہشت گرد نئی جگہ منتقل ہوتے ہی پھر سے اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ وہ پہلے سے ''نرم مقامات‘‘ جیسا کہ پشاور کے سکول میں ہوا‘ کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کا ا نتقام شدید تر ہو تا ہے۔ایسی کارروائیوں میں زیادہ سویلین جاں بحق ہو تے ہیں۔اس صورت میں متاثرہ علاقوں میں انتہا پسندی‘ تشدد اور جرائم کا دائرہ وسیع ہو تا ہے جیسا کہ جنوبی پنجاب‘ کراچی اور کرم ایجنسی میں ہوا۔ پاکستان میں افغان حکومت اور طالبان کے رابطے خوش آئند ہیں بالخصوص اس حقیقت کے پیش نظر کہ یہ رابطے پاکستان اور افغانستان میں تعلقات کے حالیہ عروج و زوال کے فوراً بعد ہوئے ہیں اور طالبان کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اوّلین ہیں۔یہ رابطے باقاعدہ مذاکرات کی تمہید بھی ہو سکتے ہیں۔ ڈرون‘ دوسری ریموٹ وارفیئر کی طرح شاید تکنیکی اعتبار سے ترقی دادہ ہو مگر نظریاتی تنازعات اور زمین کے جھگڑوں کے خاتمے کے لئے وہ '' فوجی بْوٹوں‘‘ سے زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتا‘ جس کی ایک شکل ضرب عضب ہے جو ایک سال سے کامیابی سے جاری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved