مشرق وسطیٰ انسانی المیے کی زد میں ہے۔ صرف شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں در بدر ہونے والوں کی تعداد 40لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ''پچھلی کئی دہائیوں کے دوران کسی ایک تنازعے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ پناہ گزینوں کو دنیا کی مدد کی ضرورت ہے، وہ انتہائی کسمپرسی کے حالات میں رہ رہے ہیں۔ ‘‘
مشرق وسطیٰ انسانی تاریخ کی قدیم ترین تہذیبوں کی جنم بھومی ہے جس میں دریائے نیل اور دجلہ و فرات کی تہذیبیں بھی شامل ہیں۔اس خطے نے مصری، رومن، بازنطینی، ایرانی، بنو امیہ و بنو عباس اور عثمانی خلافت جیسی سلطنتوں کے عروج و زوال دیکھے ہیں‘لیکن جو خونریزی، تباہی اور بربریت آج یہاں برپا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ تیل اور دوسری معدنیات کے وسیع ذخائر اورسٹریٹجک اہمیت یہاں کے عوام کے لئے آسودگی کی بجائے عذاب بن گئے ہیں۔ کوئی ایک ملک بھی عدم استحکام، سماجی انتشار، معاشی زوال، دہشت گردی اور ریاستی جبر سے محفوظ نہیں۔ مطلق العنان ''جمہوری‘‘ حکومتیں، بادشاہتیں اور فوجی آمریتیں عوام پر مسلط ہیں، سامراج اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وحشت ان زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد پورا مشرق وسطیٰ‘ مغربی سامراجی طاقتوں کے رحم و کرم پر تھا۔ ان نو آبادیاتی گِدھوں نے خطے کی خوب بندر بانٹ کی اور اپنے سامراجی عزائم کے تحت مصنوعی لکیروں کے ذریعے چھوٹی بڑی کئی کٹھ پتلی ریاستیں قائم کر دیں۔ اس سلسلے میں سائیکس پیکٹ اوراعلان بالفور جیسے کئی معاہدوں کے ذریعے ''تقسیم کرکے حکومت کرو‘‘ کی قدیم پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کا استعمال کیا گیا۔ بنیادپرستی کو اپنے عزائم کے لئے استعمال کرنے کا آغاز سامراج نے اسی عہد میں کیا تھا۔مسئلہ فلسطین بھی خطے کا رستا ہوا زخم ہے۔ اسرائیل کی صہیونی ریاست مذہبی بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ غزہ آج دنیا کی سب سے بڑی 'اوپن ایئر‘ جیل کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ ''عالمی برادری‘‘ اور مغربی حکمرانوں کو یہودی بنیاد پرستوں کے جنگی جرائم نظر نہیں آتے ہیں!
داعش اور القاعدہ کو مغرب کی ''لبرل، جمہوری اور سیکولراقدار‘‘کے لئے خطرہ قرار دینا بھی مغربی کارپوریٹ میڈیا کا فیشن سا بن گیا ہے۔ماضی بعید کے تعصبات اور توہمات کو حال پر مسلط کرنے والی یہ سیاہ قوتیں مغربی حکمرانوں کی ہی پیداوار ہیں اور آج بھی مختلف پراکسی جنگوں میں ان کا استعمال یہ سامراجی قوتیں زور و شور سے کر رہی ہیں۔ مذہبی جنونیوں کے یہ چھوٹے بڑے گروہ کارپوریٹ سرمایہ داری کے ہی اوزار اور آلہ کار ہیں جن کے ذریعے عدم استحکام پیدا کیا جاتا ہے، مخالف قوتوں کے ساتھ بالواسطہ جنگیں لڑی جاتی ہیں اور کارپوریٹ ڈاکہ زنی کے راستے ہموار کئے جاتے ہیں۔ شام اپنی تاریخ کے بد ترین انتشار کا شکار ہو کر کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔ عراق اور لیبیا بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ یمن میں ریاست بکھر چکی ہے۔ ایک آمریت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد مصر ایک اور کٹھ پتلی آمریت کے چُنگل میں ہے۔ خلیجی ممالک میں ریاستی جبر بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ خاندانی ریاستیں اندر سے کھوکھلی ہو کر لڑکھڑا رہی ہیں ۔ یہاں کی 80فیصد افرادی قوت ایشیائی محنت کشوں پر مشتمل ہے جو اکیسویں صدی میں قدیم غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایران کی اشرافیہ بھی کم و بیش ایسے ہی داخلی حالات سے دو چار ہے جہاں ریاستی اشرافیہ کی وسیع کرپشن، جبر اور استحصال کے خلاف لاوا سطح کے نیچے پک رہا ہے۔
آج مشرق وسطیٰ کو پوری دنیا میںبنیاد پرستی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن اس خطے میں انقلابی تحریکوں کی بھی لمبی تاریخ ہے۔حکمران طبقے کے دانشور تصویر کا یہ رخ کبھی نہیں دکھاتے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مصر، شام، سوڈان، لیبیا، یمن اور عراق میں سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف انقلابی بغاوتوں کا سلسلہ نظر آتا ہے۔1950ء کی دہائی میں ریڈیکل بائیں بازو کی عرب قوم پرستی کے تحت جمال عبدالناصر اقتدار میں آئے اور جنگ سویز میں اسرائیل، فرانس اور برطانیہ کی افواج کو شکست فاش دی۔ ناصر صدرنے بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن کی تھی اور سرمایہ دارانہ معیشت کو جڑ سے اکھاڑنے کی طرف بڑھ رہے تھے اور یہ بھی تاریخ کا المیہ ہے کہ اس کا راستہ بریژنیف کے سٹالنسٹ ماسکو نے ہی روکا تھا۔اسی طرح عراق اور شام میں سوشلسٹ بعث پارٹی کی حکومتوں نے منڈی کی معیشت کو ختم کر کے منصوبہ بند یا نیم منصوبہ بند معیشتیں نافذ کیں۔ یمن کا نام ہی ایک وقت میں ''مارکسسٹ پیپلز ریپبلک آف یمن‘‘ تھا۔ فلسطین کی تحریک آزادی میں PFLPجیسے انتہائی بائیں بازو کے مسلح گروہ حاوی تھے۔
ان تحریکوں یا حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے ہی جدید بنیاد پرستی کی داغ بیل آئزن ہاور کے دور میں امریکی سامراج نے ڈالی اور اخوان المسلمین جیسی تنظیموں کو پروان چڑھایا گیا۔ اسی عہد میں افغانستان کے ثور سوشلسٹ انقلاب کا گلا گھونٹنے کے لئے آج کے ''طالبان‘‘ تخلیق کئے گئے۔ آج مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ماضی کی انہی سامراجی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جو دہائیوں پر محیط ہیں۔ داعش جیسے جن بوتل سے نکل کر بے قابو ہو گئے ہیں اور ان کی کٹھ پتلی حکومتوں کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ سامراجی حکمران ان حالات کو بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں اور کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے رعایا میں خوف و ہراس پیدا کر کے ان کے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈالتے ہیں، ''دہشت گردی‘‘ کا ہوا کھڑا کر کے ریاستی جبر کے جواز پیدا کئے جاتے ہیں اور بنیادی حقوق صلب کئے جاتے ہیں۔
بحیرہ عرب سے لے کر بحر اوقیانوس تک، 2011ء کا سال ''عرب بہار‘‘ کے آغاز کا سال تھا۔پورا مشرق وسطیٰ انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں تھا اور ان ممالک کے عوام(خصوصاً نوجوان)فرانس، یونان اور سپین کی تحریکوں سے متاثر ہو کر میدان عمل میں اتر رہے تھے۔ تیونس کی انقلابی تحریک جنگل کی آگ کی طرح پورے خطے میں پھیلتی چلی گئی اور ناقابل تسخیر نظر آنے والی حکومتیں ریت کی دیواروں کی طرح زمین بوس ہوتی چلی گئیں‘ لیکن کسی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ تحریکیں نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہیں اور پسپا ہوگئیں۔ انقلاب کی ناکامی، ناگزیر طور پر رد انقلاب کو جنم دیتی ہے۔لیکن مذہبی و فرقہ وارانہ فسطائیت اور سامراجی ڈاکہ زنی کا قلع قمع کرنے کی صلاحیت رکھنے والی قوت آج بھی وہ محنت کش اور نوجوان ہی ہیں جنہوں نے 2011ء کی بغاوت برپا کی تھی۔ بربریت کی قوتیں آج اس خطے کو نوچ رہی ہیں لیکن یہاں کے عوام نے ماضی میں ایک سے زیادہ مرتبہ ثابت کیا کہ وہ بڑی سے بڑی رجعت اور وحشت سے ٹکرا جانے کا حوصلہ اور روایت رکھتے ہیں۔ وہ ایک بار پھر ابھریں گے۔ انقلابی مارکسزم کے نظریات پر قائم ایک انقلابی قیادت ہی ایسی تحریکوں کو وہ شکتی فراہم کر سکتی ہے جس کے سامنے مختلف قسم کے تعصبات ڈھیر ہو جائیں گے۔ بربریت، کارپوریٹ لوٹ مار اور کٹھ پتلی ریاستوں کا خاتمہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔سامراج کی کھینچی جعلی لکیروں کو مٹا کر امن، خوشحالی اور بھائی چارے پر مبنی مستقبل کی ضمانت مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن ہی دے سکتی ہے۔ تمام تر تباہی اور قتل و غارت گری کی جڑ جس سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہے اسے اکھاڑ کر ہی اس خطے کو انسانی المیے کی بجائے نسل انسان کے لئے امید کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔