تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-07-2015

سُرنگ کے سرے پر روشنی کی کرن

اخباری اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر ضیاء اللہ اور پی پی کے سابق وزیر نوابزادہ محمود زبیر سمیت گیارہ اعلیٰ افسروں کو احتساب کمیشن نے کروڑوں کی خورد برد اور دیگر مالی بدعنوانیوں کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ جب تک ان کا وزیر الزامات میں بے گناہ ثابت نہیں ہوتا، اسے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ جو لوگ مسلسل یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں کیا تبدیلی آئی ہے، ان کے لئے یہ خبر ذہنی غذا کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ اس سے چند روز پہلے ٹریفک وارڈن کے ساتھ جھگڑے کی بناپر عمران خان کے جن دو بھانجوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا، اس معاملے میں بھی عمران خان نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ اس کے برعکس جس وفاقی وزیر کے بارے میں اربوں کی کرپشن اور ناجائز اثاثے بنانے کی خبریں تواتر کے ساتھ آ رہی تھیں اور اب ایک اطلاع کے مطابق اُن سے حساب کتاب بھی شروع کیا جانے والا ہے ‘انہیں کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ اور نیب کا قبلہ درست ہونے کی جو دبی دبی اطلاعات آنے لگی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ادارے کی طرف سے نہ صرف اسے بعض بڑے مگرمچھوں کے خلاف کرپشن اور ناجائز اثاثوں کی اطلاعات اور تفصیلات فراہم کی گئی ہیں‘ جن میں مذکورہ وفاقی وزیر بھی شامل ہے‘ بلکہ نیب سے کہہ دیا گیا ہے کہ تماشا بند کر کے اب کام کیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ 
اس سلسلے میں بعض اطلاعات کے مطابق دوسرا بلکہ پہلا بڑا نام آصف علی زرداری کا ہے جن کے خلاف انکوائریوں کا اب صحیح معنوں میں آغاز ہو گا۔ وفاقی وزیر کے خلاف کارروائی غالباً توازن قائم رکھنے کے لئے کی جا رہی ہے جو اپنی جگہ پر قابل ستائش ہے کیونکہ پیپلز پارٹی والے ایک عرصے سے واویلا کر رہے ہیں کہ ان کے لوگوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے، بالخصوص سندھ میں، لیکن جب سے سندھ میں گرفتار لوگوں کی طرف سے اپنے اعترافی بیانات میں پارٹی کے چوٹی کے لوگوں کا اس دھندے میں ملوث ہونا اور ماہانہ بلکہ روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے وصول کرنے کا معاملہ طشت ازبام ہوا ہے، پارٹی کی قیادت کا صحیح معنوں میں پریشان ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ 
علاوہ ازیں، جوں جوں اس معاملے میں گرمی پیدا ہو گی، پارٹی کی طرف سے یہ اعتراض بھی سامنے آئے گا کہ خالی ان کی قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ نواز لیگ کی قیادت کو کلین چٹ 
دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘اس سلسلے میں جس کے کمالات اپنی مثال آپ ہیں اور جس کے مشکوک اثاثے بھی کچھ کم نہیں ہیں‘ اس لئے اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لئے بھی اس مہم کا رُخ دوسری طرف موڑے جانے کے پورے پورے امکانات موجود ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں اگر ناجائز غیر ملکی اثاثوں کی واپسی ہونی ہے تو سب کی ہو گی اور اس میں کسی امتیاز یا استثنیٰ کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی جبکہ عوام، بے حساب لُوٹ ماراور کرپشن سے جن کی زندگی موت سے بدتر ہو چکی ہے، خود بھی چاہیں گے اور شاید اس میں فریق بھی بن جائیں کہ مساوات کا طریق کار اپنایا جائے اور کسی رورعایت سے کام نہ لیا جائے۔ 
ان کالموں میں پہلے بھی عر ض کیا جا چکا ہے کہ جب تک نیب اور ایف آئی اے کو آزاد اور خودمختار نہیں بنایا جاتا اور حکمرانوں کے آہنی شکنجے سے انہیں آزادی نصیب نہیں ہوتی یہ ادارے کرپشن کے خاتمے کی بجائے کرپشن کے پھلنے پھولنے کا سبب ہی بنتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی تھی کہ ان دونوں کو سیکرٹری دفاع کی عملداری میں دے دیا جائے اور یہ وزیراعظم کی بجائے سیکرٹری دفاع کو جوابدہ ہوں۔ چنانچہ جب یہ معاملہ زور پکڑے گا تو اس کی زد میں باقیماندہ زعماء بھی آ جائیں گے جو ابھی تک مُقدس گائے بنے بیٹھے ہیں کیونکہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا تہیہ کر لیا گیا ہے تو دہشت گردی کی اس ماں، یعنی کرپشن اور اربوں کھربوں کے مذکورہ اثاثوں پر ہاتھ کیوں نہ ڈالا جائے گا۔ یا تو یہ کام شروع ہی نہ کیا جاتااور اگر کر دیا گیا ہے تو اسے اس کے منطقی انجام تک بھی پہنچانا پڑے گا ورنہ دہشت گردی بھی موجیں مانتی رہے گی اور کرپشن بھی۔ 
اس سب کچھ کا منطقی انجام ایک عبوری سیٹ اپ کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے جو اپنی نگرانی میں مثلاً 90 دن کے اندر اندر عام انتخابات کروا دے اور اس سے پہلے ایک صدارتی 
آرڈیننس کے ذریعے انتخابی اصلاحات بھی نافذ کر دی جائیں تاکہ غلط قسم کے عناصر کی چھانٹی ہو سکے اور وہ ایک بار پھر عوام کی گردن پر سوار نہ ہو سکیں اور جس کا مطلب یہ ہو گا کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بغیر ہی یہ نیک کام سرانجام پا جائے اور یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر نکل آنا کچھ ایسا مشکل نظر نہیں آتا کیونکہ حالات اب اس رُخ پر خودبخود ہی جا رہے ہیں کہ انہیں نتیجہ خیز بھی ہونا پڑے گا۔ ویسے بھی سو دن چور کے اور ایک دن سادھ کا والا محاورہ کسی نے یوں ہی نہیں بنا رکھا کہ کبھی نہ کبھی اس کا اطلاق بھی ہونا ہے جبکہ حکومت اپنا اخلاقی اور آئینی جواز ویسے بھی کھو چکی ہے اور خود ہی اپنے ضروری اور منطقی انجام کی طرف بگٹٹ بھاگی چلی جا رہی؛ چنانچہ اگر اس بدقسمت ملک کے بدنصیب عوام کی قسمت نے کبھی بدلنا ہے تو اس کے لئے حالات بھی سازگار ہیں اور قدرت بھی مہربان نظر آتی ہے لیکن بہرحال یہ سب کچھ اس ملک اور عوام کی قسمت پر بھی منحصر ہے کہ کہیں یہ موقع بھی ضائع تو نہیں ہو جاتا۔ 
آج کا مقطع 
فصیلِ شوق اٹھانا ظفر ضرور‘ مگر 
کسی طرف سے نکلنے کا راستہ رکھنا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved