ماہِ صیام کے شروع ہوتے ہی گرمی نے اہل ایمان کا امتحان لینا شروع کردیا تو ہر لب پر ''وقنا عذاب النار‘‘ کی صدا تھی۔ گرمی کی شدت کچھ ایسی تھی کہ ہر وقت شاپنگ کا سوچنے والی خواتین کے خیالات و تصورات بھی ایک ہفتے تک برف اور شربت کی سطح سے ذرا بھی بلند نہ ہوسکے! بہت سے لوگ خوش تھے کہ ایسی گرمی اگر کچھ دن اور پڑتی رہی تو بیگمات کو گھر سے نکلنے کی توفیق نہ ہوگی یعنی شاپنگ کے جوش و جذبے کو ذرا لگام ڈل جائے گی‘ مگر شادی شدہ لوگوں کے ایسے نصیب کہاں؟ دوسرے بہت سے اہل ایمان کی دعائیں رنگ لائیں اور موسم خوش گوار ہوگیا۔ موسم کے بدلتے ہی خواتین خانہ کا ذہن بھی تبدیل ہوا یعنی ٹھنڈک کے اہتمام سے فرصت نہ پانے والیوں کو شاپنگ کی سُوجھنے لگی۔ موسم نے پلٹا کھایا تو بازاروں کی رونق بھی پلٹ آئی۔
اب کے گرمی کی لہر نے ہمیں ایک ایسا نظارا بھی دکھایا کہ حیران رہ گئے۔ کراچی کے کئی علاقے شعر و ادب کے حوالے سے ''گڑھ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ کورنگی، شاہ فیصل کالونی، لانڈھی اور ملیر کا تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر شعرا ''ٹکرتے‘‘ ہیں۔ حد یہ ہے کہ چند شعرا بیٹھے ہوں تو گفتگو بھی منظوم ہوتی جاتی ہے!
خاندانی گویّے جب استاد کا درجہ پاتے ہیں تو اپنے شاگردوں کے ساتھ اور ان کی مدد سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں، شاگردوں کی فوج ساتھ ہوتی ہے۔ اگر کسی کو استاد کا گانا پسند نہ بھی آئے تو یہ شاگرد ستائش کے لیے کافی ہوتے ہیں! شعر و ادب کے مذکورہ ''گڑھوں‘‘ میں بھی یہی عالم پایا جاتا ہے۔ بہت سے کہنہ مشق شعرا مشاعروں میں شاگردوں کے جم غفیر کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ شاگرد انتہائے سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استاد کا ہر مصرع اُٹھاکر محفل کا رنگ کچھ کا کچھ کر ڈالتے ہیں!
قبولیت اِسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ کس کا شاگرد ہے! گویّوں کی طرح شعرا کی دنیا میں بھی ''بے استادا‘‘ ہونا بہت بڑا عیب تصور کیا جاتا ہے! بہت سے نوجوان نہ چاہتے ہوئے بھی یہی سوچ کر کسی کو استاد بنالیتے ہیں کہ ع
کوئی تو ہو جو ''مری‘‘ وحشتوں کا ساتھی ہو!
پاک کالونی میں بچپن اور جوانی گزارنے کے بعد ہم پہلے ناظم آباد اور پھر گھاس منڈی کے علاقے میں شفٹ ہوئے۔ گھاس منڈی میں رہائش کے دوران لوگوں نے ہمیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع کردیا تھا گویا ہم گھاس بیچتے ہیں یا پھر چَرتے ہیں! کسی نہ کسی طور حاصل کی ہوئی ذرا سی ''شہرت‘‘ کو داغ دار ہونے سے بچانے کے لیے ہم نے تین سال کے اندر گھاس منڈی سے جان چھڑائی اور نارتھ کراچی کے کھونٹے سے بندھ گئے۔ یکم اگست 1999ء سے ہمارا قیام پاور ہاؤس چورنگی، نارتھ کراچی کے رہائشی منصوبے عالم پرائڈ میں ہے۔ اس علاقے میں شعر کہنے والے تو پہلے بھی تھے مگر اب یہ بھی کورنگی، شاہ فیصل کالونی، لانڈھی اور ملیر کی طرح شعرا کے گڑھ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ آپ ہرگز یہ قیاس مت کیجیے گا کہ ایسا ہماری شعر گوئی کے باعث ہو رہا ہے! ہمیں شعر گوئی کا شوق ہے، ہَوکا نہیں! ہم شعر ضرور کہتے ہیں مگر اُسے سنانے کے معاملے میں کسی کے پاس جانا اور سمع خراشی کا مرتکب ہونا پسند نہیں کرتے! موبائل فون پر ایس ایم ایس کی سہولت نے ہمارا کام بھی آسان کردیا ہے!
ہم آج کل اپنے اپارٹمنٹ کے نزدیک ایک ہوٹل پر تقریباً روزانہ برپا ہونے والی محفلِ سخن کا حصہ بھی ہیں۔ سڑک کے کونے پر برپا ہونے والی اس سخن پرور محفل میں طاہرؔ عباس، عامرؔ شیخ، نظرؔ فاطمی اور دوسرے بہت سے احباب باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں۔ سبھی اپنا تازہ کلام پیش کرتے رہتے ہیں‘ مگر اس حوالے سے عدیل احمد عدیلؔ کے ''جوشِ جوانی‘‘ کا کوئی جواب نہیں۔ طاہرؔ عباس اگر علامہ ہیں تو بھائی عدیلؔ بلا مبالغہ ''الاماں‘‘ ہیں! کئی ماہ سے ان کی شعر گوئی کا آفتاب کچھ اِس نہج پر روشن و رخشاں ہے کہ سُننے والوں کے ستارے ڈوب ڈوب گئے ہیں! بھائی عدیلؔ کی مشقِ ستم ... معاف کیجیے گا، مشق سخن کچھ اس انداز سے جاری ہے کہ جنہیں اپنی سخن فہمی پر ناز تھا وہ ان کے سامنے اپنی مشکیں کَسی ہوئی محسوس کرتے ہیں! بعض بے باک و بے مروّت قسم کے احباب تو بھائی عدیلؔ کی تازہ غزل سننے کو عہدِ گزشتہ کے کسی گناہ کی سزا تصور کرنے سے بھی نہیں چُوکتے! غزل کا روایتی محبوب جور و جفا کے لیے انتہائی بدنام ہے۔ بھائی عدیلؔ محبوب کو مزید بدنامی سے بچائے ہوئے ہیں یعنی اُس کے حصے کا ستم بھی اپنی ''بیس اشعاری‘‘ غزلوں کے ذریعے ڈھا دیتے ہیں!
آپ جانتے ہی ہیں کہ گائیکی میں سانس کی بہت اہمیت ہے۔ بس کچھ ایسا ہی حال شعر گوئی کا بھی ہے۔ اس میدان میں وہ بڑا سمجھا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ قافیے بروئے کار لائے، زیادہ سے زیادہ اشعار کہے یعنی طبیعت کی جولانی دکھائے۔ اس معاملے میں بھائی عدیلؔ خود کو بہت بڑا ثابت کرنے کی راہ پر گامزن ہیں! بیس بیس اشعار کی غزلیں ان کے ہاں عام ہیں۔ عالم چنّا سے بھی لمبی غزل کہنا بھائی عدیلؔ کا مسئلہ نہیں۔ بحرانی کیفیت سے تو ہم جیسے احباب دوچار ہیں جو (مروّتاً یا مجبوراً) ان کی غزلیں سُنتے ہیں!
آپ سوچ رہے ہوں گے کالم شروع ہوا تھا گرمی کے ذکر سے۔ پھر شاپنگ کی بات ہوئی اور اس کے بعد شعرا کی دنیا تک پہنچ گئی۔ آپ ہرگز یہ نہ سوچیے گا کہ ہمارے دماغ پر شدید گرمی کی لہر کا کچھ اثر ہوگیا ہے۔ جس گرمی کو لوگ کوس رہے تھے اس کا ایک انتہائی مثبت پہلو بھی ہمیں دکھائی دیا‘ اور ہم وہی بیان کرنا چاہتے ہیں۔
آٹھویں روزے بھائی عدیلؔ سے ملاقات ہوئی تو ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا: کچھ تازہ کہا؟ جواب آیا کہ گرمی ایسی شدید تھی کہ طبیعت شعر گوئی کی طرف مائل ہی نہیں ہوئی۔ حال ایسا تھا جیسے ذہن کو قبض ہوگئی ہو! آٹھ دس دن بعد ملاقات ہو رہی تھی اس لیے ہم ڈر رہے تھے کہ کہیں اٹھارہ بیس اشعار والی نصف درجن غزلیں نہ جھیلنی پڑیں! بھائی عدیلؔ کی زبانی یہ خوش گوار انکشاف ہوا کہ گرمی میں شعرا کے ذہن کا قافیہ تنگ کرنے کی تاثیر بھی پائی جاتی ہے! ہم نے کبھی اس نقطۂ نظر سے تو موسم گرما کو دیکھا اور پرکھا ہی نہ تھا۔ اب تک تو ہم یہی سمجھتے آئے تھے کہ شدید گرمی پڑتی ہے تو مکھی اور مچھر وغیرہ دم توڑ دیتے ہیں اور ان کی افزائش بھی نہیں ہوتی‘ خوشا کہ حلق کو سُکھاکر اس میں کانٹے ڈالنے والی گرمی اشعار کی پیداوار میں کمی کا بھی وسیلہ بنتی ہے!
ہمیں یہ بات پہلے سمجھ لینی چاہیے تھی کہ عشاق اور شعرا حالات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ جس طور کسی زمانے میں دمشق میں شدید قحط پڑنے پر لوگ صرف پیٹ کا سوچنے لگے تھے اور عشق وشق سب بھول گئے تھے بالکل اسی طرح حالات کی خرابی مشقِ سخن کا بھی ناطقہ بند کردیتی ہے۔ غالبؔ کے ایک خط میں مذکور ہے ؎
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل!
اِس اصول کے تحت بھائی عدیلؔ اب ہما شما کو چھوڑ کر غالبؔ و میرؔ کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں! کراچی میں شدید گرمی کی لہر نے شعرا کے ذہن میں بھی ایسا حبس پیدا کیا کہ ان کا تازہ کلام بھگتنے والوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ریلیف کا اہتمام تو ہوا! ویسے ہمارے شعرا کو مشق سخن سے باز رکھنا قدرت ہی کے بس کی بات ہے! اب یہ قدرت کی مرضی کہ یہ ٹاسک گرمی کی مدد سے پورا کرے یا سردی کے ذریعے!
کورنگی، لانڈھی اور ملیر وغیرہ کے شعرا خاصے مضبوط اعصاب کے یعنی سخت جان واقع ہوئے ہیں۔ گرمی بڑھنے پر شعر کہنا وہ بھی ترک کرسکتے ہیں مگر انہیں شعر گوئی سے باز رکھنے والی گرمی اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب سورج سوا نیزے پر آجائے گا!