پروٹوکول کی وہ بدصورتی‘ جس کامظاہرہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کیا‘وہ خودمختار ملکوں کے انتظامی سربراہوںکی ملاقات میں دکھائی گئی۔ میں نے اس کی بہت سی وجوہ پر غور کیا‘ لیکن اس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آئی۔ جو بہانہ بھارتی اہلکار اور میڈیا بنا رہے ہیں‘ اس کی نسبت زیادہ بہتر اور شریفانہ طرزعمل اختیار کیا جا سکتا تھا۔ بھارتیوں کا عذر یہ ہے کہ عین اسی روز لائن آف کنٹرول پر ایک بھارتی سپاہی‘ پاکستانیوں کی گولی سے ہلاک ہوا تھا اور بھارتی وزیراعظم‘ گولی چلانے والے ملک کے وزیراعظم سے‘ مکمل پروٹوکول کے ساتھ ملاقات نہیں کر سکتے تھے۔ اس کا اثر بھارتی رائے عامہ پر بہت برا پڑتا اور ایک منتخب وزیراعظم غم کی کیفیت میں نارمل طریقے سے‘ گولی چلانے والے ملک کے وزیراعظم کا استقبال نہیں کر سکتا تھا۔ اگر اتنا ہی غم تھا تو بھارتی وفد ہال میں پندرہ فٹ طویل فاصلے پر کھڑے ہونے کے بجائے اظہار غم کا بہتر طریقہ سوچ سکتا تھا۔ مناسب ہوتا کہ ہال میں پڑی تمام نشستوں کو چادروں سے ڈھانپ دیا جاتا۔ فرش پر دریاں بچھا دی جاتیں اور ان پر چادریں ڈال کر وزیراعظم سمیت سارا وفد فرش پر بیٹھ جاتا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں صف مرگ ایک ہی طریقے سے بچھائی جاتی ہے اور وہ ہے فرش پر بیٹھنا۔ پاکستانی وفد کو یہ بات پہنچائی جا سکتی تھی کہ ہمارے وزیر اعظم سرحد پر جان دینے والے ایک سپاہی کے غم میں صف ماتم بچھائے بیٹھے ہیں۔ ڈیوٹی کی خاطر وہ آپ کا استقبال ضرور کریں گے لیکن اظہار غم سے بھی گریز نہیں کر سکتے۔ ہمارے وزیراعظم درددل رکھنے والے انسان ہیں‘ وہ بھی پیغام ملتے ہی صف ماتم کے قریب پہنچتے اوراپنے جوتے اتار کے غم زدگان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ موت اور زندگی کی حقیقت پر دردناک انداز میں چند جملے کہتے اور پھر مذاکرات شروع ہو جاتے۔ اظہار غم کا یہ زیادہ روایتی اور مہذب طریقہ ہوتا۔ جو بات وہ دنیا پر ظاہر کرنا چاہتے تھے‘ وہ نمایاں انداز میں سامنے آ جاتی اور دیکھنے والے سمجھ جاتے کہ بھارتی وزیراعظم کو وطن پر جان دینے والے ایک سپاہی کی موت کا کتنا غم ہے؟ جتنے دکھ کا وہ اظہار کرنا چاہتے تھے‘ وہ اچھے طریقے سے ہو جاتا۔ دیکھنے والے بھی مخمصے میں نہ پڑتے اور مودی صاحب کی حرکت کی وضاحتیں کرنے والے اہلکاروں کو بھی ایک ایک کے پاس جا کر سمجھانے کی ضرورت نہ پڑتی کہ ان کے وزیراعظم سوگ کی کیفیت میں ہیں۔
ّٓاس وقت تو یہ حالت ہے کہ ہر قابل ذکر بھارتی شہری‘ مودی صاحب کی حرکت کا جواز پیش کرتے ہوئے پس منظر بتانے میں لگا ہے اور ہر ایک اپنی اپنی سمجھ کے مطابق جواز پیش کر رہا ہے۔ ایک کا بیان دوسرے سے نہیں ملتا اور سچی بات ہے کسی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ مودی صاحب نے یہ حرکت کیوں کی؟ دور کی کوڑی لانے والے بعض لوگوں نے تو یہاں تک خیال آرائی کی کہ مودی نے شہنشاہوں جیسا طریقہ اختیار کیااور گھٹیا ذہنیت رکھنے والے بھارتی اورپاکستانی افسروں کی نقل اتاری کہ وہ اپنے لئے کوئی بڑا سا کمرہ منتخب کر کے اس میں اپنا دفتر قائم کرتے ہیں۔ ملاقاتی دروازے سے داخل ہوتا ہے تو اسے کم از کم دس بارہ قدم چل کر‘ صاحب تک آنا پڑتا ہے۔ اگر ملاقاتی زیادہ معزز ہے تو صاحب اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ معزز ہو تومیز کے پیچھے سے نکل کر خود بھی داخلے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہیں۔ اگر ملاقاتی کا درجہ قدرے کم ہے تو اپنی کرسی پر بیٹھے رہتے ہیں اور ملاقاتی بالکل ہی نچلے درجے کا ہے تو کرسی پر بیٹھے فائلوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور جب وہ میز کے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے‘ تو اس کی طرف دیکھ کر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں‘ ورنہ پانچ سات منٹ کھڑا رہنے دیتے ہیں اور اس کے بعد آمد کی وجہ پوچھتے ہیں۔ مودی صاحب سے تو یہ بھی نہ ہوا۔ کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ جتنا عرصہ ہمارے وزیراعظم قدم بقدم آگے بڑھتے رہے‘ مودی صاحب ان کے انتظار میں اردلی کی طرح کھڑے رہے۔ کسی چیز کو دیکھنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ مودی صاحب نے یہ سمجھا کہ وہ ہمارے وزیراعظم کی تعظیم نہیں کر رہے اور ہمارے وزیراعظم نے یہ سمجھا ہو گا کہ مودی صاحب کتنی دیر ان کے انتظار میں کھڑے رہے؟ ہم اپنی جگہ خوش۔ وہ اپنی جگہ خوش۔
ہمارے وزیراعظم کو بھی اس صورتحال کا اچانک سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ پروٹوکول کے مطابق انہیں پہلے سے یہ بتا دیا جاتا کہ ان کے میزبان وزیراعظم سوگ کی حالت میں ہیں‘ اس لئے وہ دروازے پر آ کر آپ کا استقبال نہیں کر پائیں گے‘ اپنے مقام پر کھڑے رہیں گے۔ آپ چل کر ان کے پاس جایئے اور سفارتی آداب کے ساتھ علیک سلیک کر کے گفتگو شروع کر دیجئے۔ اگر ہمارے وزیراعظم نے کوئی مخبر بھیج کر‘ مودی صاحب کے انتظامات کی خبر حاصل کر لی ہوتی تو وہ بھی جوابی اقدام کی تیاری کر سکتے تھے۔ ایسا تو بہرحال نہ ہو سکا اور نہ ہی میزبان میں اتنا اخلاق اور تہذیب تھی کہ وہ اپنے مہمان کوحالت غم کی اطلاع دے دیتے۔ دونوں صورتوں میں وہی ہونا تھا جو ہوا۔ مگر جو ہو گیا‘ وہ ہمارے وزیراعظم کے لئے غیر متوقع تھا۔ ہمارے وزیراعظم بھی ہیں تو بڑے حاضر دماغ‘ برجستہ لطیفہ سنانے میں کمال رکھتے ہیں۔ مگر اتنے اعلیٰ ترین سفارتی حالات میں غیرمتوقع منظر سامنے آ جائے‘ تودنیا کا ذہین سے ذہین آدمی بھی مخمصے میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن نوازشریف ہال کے اندر داخل ہوتے ہی‘ منظر دیکھ کر ذرا ٹھٹھکتے‘ دائیں بائیں نظر دوڑاتے اور پھر اطمینان سے بھارتی وفد کے اراکین ‘جو مودی صاحب کے بائیں ہاتھ پر قطار بنائے کھڑے تھے‘ ان کی طرف بڑھتے اور ایک ایک سے ہاتھ ملا کر اس کاحال اس انداز میں پوچھتے کہ ''اور بھی کیا حال ہے؟ اس کے علاوہ کیا حال ہے؟‘‘ اورجب وہ دس بارہ آدمیوں سے مصافحہ کرنے اور ان کا اور بھی حال چال پوچھنے کے بعد مودی صاحب تک پہنچتے تو ان کی حالت دیکھنے کے لائق ہوتی۔ میراخیال ہے‘ اس میں کوئی غیرسفارتی حرکت نہیں تھی‘ کیونکہ جو معزز آدمی ہوتا ہے‘ وہ خود آگے بڑھ کر اپنے مہمان کا استقبال کرتا ہے اور جو سب سے آخر میں کھڑا ہو اورکھڑا ہی رہے‘ تو اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے‘ جو میں نے تجویز کیا ۔نوازشریف ایسا کر دیتے تو بھارتی سفارتکار اور ماہرین‘ آئندہ ساری زندگی ایسی حرکت نہ کرتے جو انہوں نے ہمارے وزیراعظم کے ساتھ کی۔
تھوڑے دنوں کے بعد ہمیں بھارت سے بہتر موقع ملنے والا ہے۔ وہاں تو پوٹن صاحب میزبان تھے اور مہمانداری کی ذمہ داری ان پر تھی۔ ان کے سفارتی اہلکاروں کو وقت سے پہلے اطلاع دینا چاہیے تھی کہ مہمان وفد‘ آپ کے دوسرے مہمان نوازشریف سے ملاقات کا شاہی انتظام کر رہا ہے۔ یہ پروگرام سن کر پوٹن یقینا محسوس کرتے اور وہ اپنے مہمان کے غیرمہذب استقبال کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے متبادل طریقہ پیش کرتے۔ ہال کی عدم دستیابی کے بہانے سے ملاقات کی تقریب کسی چھوٹے کمرے میں منتقل کر دیتے اور اس طرح مودی صاحب اپنا اظہارغم بھی کر لیتے اور وزیراعظم پاکستان کو پریڈ کرتے ہوئے مودی صاحب کی طرف بڑھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ دو قدم اٹھاتے اور سب سے ہاتھ ملا لیتے۔ مودی صاحب کی تمنائیں دل میں ہی مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر جان دے دیتیں۔ لیکن ایک تو روسی زیادہ مہذب نہیں ہوتے۔ دوسرے وہ بھارت کے پرانے اور گہرے دوست ہیں۔ تیسرے کاروبار کا بھی مسئلہ ہے۔ بھارت‘ سیکنڈ ہینڈ روسی اسلحہ کا بھی سب سے بڑا خریدار ہے اور مسلسل وہاں سے آرڈر ملتے رہتے ہیں ۔ان دنوں تیل کے نرخ بھی گرے ہوئے ہیں۔ روس مزید گرنے سے بچنے کی خاطر اپنے ایک بڑے گاہک کو ضائع کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اگر انہیں مودی صاحب کے منصوبے کی خبر مل بھی گئی ہوتی‘ تو وہ پاکستان سے زیادہ بھارت کی عزت کا خیال کرتے۔ کل انشاء اللہ ہمارا اقتصادی کوریڈور بن گیا تو ہم بھی روسی اسلحہ کے خریدار بن جائیں گے اور موقع پاتے ہی بھارتی وزیراعظم سے روس کے اندر ہی اپنا حساب برابر کر لیں گے۔قدرت نے بھارت کی ہمسائیگی دے کر‘ ہمیں زندگی بھر کا روگ لگا دیا ہے۔ نہ وہ ہماری دشمنی چھوڑے گا ‘ نہ ہم اسے کھسیانا کرنے سے باز آئیں گے۔ قسمت ہمارے دونوں ملکوں کو ایک جیسی ملی ہے۔ وہاں پنڈت نہرو کے جانشین‘ نریندر مودی ہیں۔ یہاں لیاقت علی خان کے جانشین ‘نوازشریف ہیں۔سو سنار کی‘ ایک لوہار کی۔