اوفا میں نواز مودی ملاقات کااعلامیہ پڑھ کر شدت سے احساس ہوا کہ بھارت کی چانکیہ سیاست اور بنیا قیادت کو سمجھنے کے لیے قائد اعظمؒ کی فراست درکار ہے‘ یہ قائد اعظم ثانی کے بس کی بات نہیں۔
حکومت کے ترجمانوں سے پاکستانی قوم کو جب پتہ چلا کہ ملاقات کی دعوت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دی ہے تو ہر محب وطن کا ماتھا ٹھنکا ؎
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
چند روز پہلے تک پاکستان کے خلاف شعلے اگلتی زبان سے اگر اچانک پھول جھڑنے لگیں تو آدمی کو تعجب ضرور ہو گا۔
اوفا میں نریندر مودی نے ایک تیر سے دوبلکہ دو چار شکار کئے۔ میاں صاحب ملاقات کے لیے پہنچے تو بھارتی وزیر اعظم نے روایتی رعونت دکھائی‘ آگے بڑھ کرہاتھ ملانے کے بجائے اپنی جگہ یوں ساکت کھڑے رہے جیسے درشن کے لیے آنے والے پجاریوں کے سامنے پتھرکا صنم۔ میاں صاحب بھی اس متکبرانہ انداز کو برداشت کر گئے ورنہ چاہیے ان کو یہ تھا کہ وہ مودی کے دیگر ساتھیوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے آگے بڑھتے اور آخر میں موصوف سے دست پنجہ کر کے ان کی اوقات یاد دلاتے۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ نے یہی سلوک پاکستانی وزیر اعظم سے نیو یارک میں کیا تھا جب انہوں نے میاں صاحب کی دعوت رد کر کے اپنے کمرے میں آنے پر اصرار کیا اور جب میاں صاحب خیر سگالی کے یکطرفہ جذبے کے تحت من موہن سنگھ کے در دولت پر حاضر ہوئے توبخیلانہ بھارتی کلچر کے عین مطابق ان کی تواضع جوس کے ایک گلاس اور چائے کے ایک کپ سے کی گئی۔ ہمارے ہاں بن بلائے مہمان سے بھی اس حسن سلوک کا رواج نہیں مگر بعض خوش فہم پاکستانی ان تھڑ دلوں ‘ کنجوسوں ‘ مکھی چوسوں اور تنگدست و تنگدل مہاشوں سے دوستی اورفراخدلی کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ میاں صاحب بھی شائد ان میں سے ایک ہیں۔
نوازشریف تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں‘ عمر اور تجربے میں نریندر مودی سے سینئر اور کاروباری پس منظر کی بنا پر نفع و نقصان کا حساب کر کے سوچ سمجھ کر معاملہ فہمی کے عادی مگر بھارتی قیادت کے بارے میں معلوم نہیں وہ ہمیشہ خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں‘ یہی اس بار نریندر مودی سے ملاقات میں ہوا۔
ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان پر اس قدر دبائو بڑھایا کہ اگر چند روز پیشتر آزمودہ دوست چین ہماری مدد کو نہ آتا تو اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی پاکستان پر کئی پابندیاں لگانے کو تیار تھی۔ ذکی الرحمن لکھوی کے حوالے سے بھارتی قرار داد کی منظوری کے بعد ہم شاید عالمی برادری کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔
آئی ایس آئی اور فوجی قیادت کی شبانہ روز کدوکاوش‘ برطانیہ اور پاکستان میں بھارتی ایجنٹوں کی بعض غلطیوں اور افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے ہمیں بھارت پر اخلاقی برتری ملی۔''را‘‘ کی مالی‘ اسلحی اور تربیّتی مداخلت کے شواہد سامنے آئے۔ بی بی سی نے اعترافی بیانات پیش کئے اور نریندر مودی ‘منوہر پاریکر‘ اجیت دودل نے طاقت کے نشے میں ایسی باتیں کہہ دیں جس سے پاکستان کا کیس مضبوط ہوا کہ دہشت گردی کو فروغ پاکستان نہیں بھارت دے رہا ہے‘ اب سے نہیں1971ء سے اور دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی سرکاری پالیسی بھارت کی ہے۔ امریکہ سے برطانیہ تک ہر جگہ بھارت کے منفی کردار کی مذمت ہوئی اور پاکستانی سفارت کار اقوام متحدہ کی لابیوں کے علاوہ اہم ممالک کے دارالحکومتوں میں اعتماد اور فخر کے ساتھ اپنی مظلومیت اور بھارت کی دخل اندازی کا تذکرہ کرتے نظر آئے۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کی شرارتوں اور نریندر مودی سرکار کے جارحانہ عزائم سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے کے لیے خوب تیاری ہو رہی ہے اور اب بھارت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اہم دارالحکومتوں کے دوروں اور آپریشن ضرب عضب کے دوران حاصل شدہ معلومات کو ایک دوسرے سے ملا کر ایک بڑی اور خوش نما تصویر عوام کو دکھائی گئی مگر اوفا میں نریندر مودی‘ نواز شریف ملاقات نے منظر ہی بدل دیا ؎
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
اعلامیہ پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ اوفا میں نہیں نئی دہلی کے نہرو بھون میں تیار ہوا ہے یا سائوتھ بلاک نے اس کی نک سک سنواری کی ہے۔ اعلامیہ میں ممبئی حملوں کی تحقیقات میں تیزی لانے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا ذکر ہے مگر کشمیر‘ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے اور فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں جاری بھارتی مداخلت کے بارے میں ہلکا سا اشارہ بھی نہیں جبکہ اگلے چند ہفتوں میں مختلف مناصب کے افسروں کی ملاقات کا مطلب ہے کہ بھارت نے ہوشیاری سے پاکستان کو انگیج (Engage) کر لیا ہے اور اب شاید پاکستان شدومد سے اقوام متحدہ کے کسی فورم کو بھارت کے جارحانہ عزائم‘ منفی سرگرمیوں اور ریشہ دوانیوں کے حوالے سے استعمال نہ کر سکے۔
اقبالؒ، غالباً برہمن کی اسی چالاکی و عیاری اور مسلم قیادت کی سادہ لوحی سے متاثر تھے ؎
دیکھ مسجد میں شکست رشتۂ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زناّری بھی دیکھ
اب میاں صاحب اور ان کے ابلاغی بھونپو ہزار وضاحتیں کرتے پھریں۔ اندرونی ملاقات کی فرضی اور مبالغہ آمیز کہانیاں بیان کریں اور اپنے ''بابے‘‘ کی ٹانگ اوپر دکھائیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا۔ نریندر مودی نے اپنی اور پاکستانی قوم کے علاوہ عالمی برادری کو جو تاثر دینا تھا دے دیا‘ اپنے پاکستانی ہم منصب سے جو منوانا تھا منوا لیا اور گزشتہ دو تین ماہ سے وہ جس دبائو کا شکار تھے اس سے نکلنا تھا نکل چکے ؎
خیالِ زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر
قصور شاید میاں صاحب کا بھی نہیں۔ ان کے اردگرد بھارت کے جو شردھالو اور قومی غیرت و حمیت کے معاملات پر بھی عقل و فہم کے بجائے پیٹ سے سوچنے والے چپڑ قناتیے جمع ہو گئے ہیں‘ انہوں نے کشمیر‘ پاک بھارت تعلقات میں برابری کے تصور اور پاکستان میں بھارتی مداخلت کے معاملات کو خاکی اسٹیبلشمنٹ کے مخفی ایجنڈے اور ''غیرت بریگیڈ‘‘ کے نظریات سے نتھی کر کے موصوف کو یہ باور کرا دیا ہے کہ جب تک دونوں ممالک میں کشیدگی ختم اور تجارت شروع نہیں ہوتی‘ یہاں جمہوریت کی بالادستی اور سیاسی استحکام ممکن نہیں‘سول بالادستی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا لہٰذا جیسے تیسے پہلے بھارت سے تعلقات بہتر کئے جائیں۔ تجارت اور اقتصادی رابطوں میں بھر پور اضافہ کیا جائے پھر ضرورت محسوس ہو تو تصفیہ طلب مسائل پر بھی بات کر لی جائے۔
بھارت گزشتہ سال سے ممبئی حملوں کی لکیر پیٹ رہا ہے اور اسے 1971ء میں مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں‘ مکتی باہنی کے تخریب کاروں اور ''را‘‘ کے ایجنٹوںکی مدد کے علاوہ پاکستان کی تقسیم میں اپنے اس رویے پر فخر ہے مگر ہم کراچی اور بلوچستان میں ''را‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے یوں شرماتے ہیں جیسے ہندو کنیّائیں اپنے پتی دیو کا نام لیتے ہوئے۔ وطن واپسی پر میاں صاحب کو قوم اوراپنے سیاسی مخالفین کے علاوہ شمالی وزیرستان‘ کراچی اور بلوچستان میں بھارتی''را‘‘ کے تربیت یافتہ گوریلوں‘ ٹارگٹ کلرز اور علیحدگی پسندوں کا مقابلہ کرنے والے پاک فوج کے سر فروشوں کے بعض بنیادی نوعیت کے سوالات کا جواب دینا ہو گا۔ آخر مرد آہن ہر بار برہمن قیادت کے سامنے ریشم کی طرح نرم کیوں پڑ جاتا ہے اور چرب زبان نریندر مودی کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ جسے ہمارے وزیر اعظم دیکھ اور سونگھ کر گنگ رہ جاتے ہیں۔
خام خیالی کا شکار ‘ کوئلوں کی دلالی پر آمادہ ہمارے سیاستدانوں‘ دانشوروں اور سفارت کاروں کو اب بھی سمجھ نہیں آئی تو خدا ان سے سمجھے‘ یہ تلخ حقیقت مگر اب کسی سے مخفی نہیں کہ بھارت دوستی نہیں تابعداری چاہتا ہے‘ وہ کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں مرضی مسلط کرنے پر بضد ہے ورنہ تعلقات اور تجارت کے لیے بے تاب نواز شریف جیسے حکمران کو نریندر مودی کے کمرے سے یوں مایوس نہ لوٹایا جاتا۔ ظالم نے پندار محبت کا بھرم رکھا نہ شوق تجارت کا صلہ دیا۔
میاں صاحب نریندر مودی سے اگلے سال اسلام آباد میں درشن کرانے کا وعدہ لے کر اٹھے۔ یہ وعدہ من موہن سنگھ نے بھی کیا تھا مگر اگلا سال کس نے دیکھاہے؟