تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     12-07-2015

مصر کے دگرگوں حالات

آبادی کے لحاظ سے عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک مصر مسائل سے دوچار ہے۔ پچھلے ہفتے اعلیٰ سرکاری وکیل (جسے مصر میں المدعی العام کہا جاتا ہے) ہشام برکات کی گاڑی کو بم سے اڑا دیا گیا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ اس کے فوراً بعد صحرائے سینا میں مسلح جھڑپ میں ایک ہی روز میں ایک سو بیس لوگ لقمہ اجل بنے۔ ان میں سترہ فوجی بھی شامل ہیں۔ مصر کے موجودہ فوجی حکمران امن‘ استقرار اور قومی یکجہتی کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئے تھے۔ صدر محمد مرسی کو اقتدار سے الگ ہوئے دو سال ہو گئے لیکن جنرل عبدالفتاح السیسی ابھی تک امن اور استقرار نہیں لا سکے۔ ان کا دوسرا نعرہ اقتصادی ترقی تھا مگر جہاں حالات خراب ہوں وہاں اقتصادی ترقی کا عمل شروع نہیں ہو سکتا۔
مصر نے ماضی قریب میں زیادہ تر ڈکٹیٹر ہی دیکھے ہیں۔ جمال عبدالناصر پہلے دس سال بڑے کامیاب اور پاپولر ڈکٹیٹر تھے۔ سید قطبؒ کو تختہ دار پر چڑھا کر متنازع ہو گئے اور پھر1967ء کی جنگ میں شکست انہیں لے بیٹھی حالانکہ وہ اپنے عہدے پر قائم رہے لیکن دل شکستہ تھے اب وہ جمال عبدالناصر ختم ہو چکا تھا جس نے سویز کینال کو نیشنلائز کر کے مصریوں کے دل جیت لیے تھے اور جو غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں سے تھا‘ جو عرب قوم پرستوں کا سرخیل تھا۔
جمال عبدالناصر کے بعد انور سادات اور حسنی مبارک آئے۔ دونوں کی شخصیت میں بہت فرق تھا۔ سادات کم از کم ظاہراً بڑے باعمل مسلمان نظر آتے تھے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر کے اخوان میں خاصے غیر مقبول ہوئے۔ ا ن کا قاتل نوجوان فوجی افسر خالد اسلامبولی تھا جو اخوان کی سوچ سے متاثر تھا۔ حسنی مبارک کے بارے میں یہ رائے عام تھی کہ جب کبھی اقتدار چھوڑا تو اپنے بڑے بیٹے جمال مبارک کو مسند پر بٹھا کر ہی جائیں گے۔2011ء کے اوائل میں حسنی مبارک کے خلاف مصر کے نوجوان تحریر چوک میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں انہیں چلتا کیا مگر فیصلہ کن مرحلہ تب ہی آیا جب مصری فوج نے اپنا وزن نوجوانوں کے پلڑے میں ڈال دیا۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تین ڈکٹیٹروں نے یکے بعد دیگرے پوری قوت سے حکومت کی ہے۔1947ء کا پورا سال میں نے مصر میں گزارا۔ تمام اخبار حکومت کے کنٹرول میں تھے جبکہ ہمارے ایوب خان کے زمانے میں بھی ایک قومی اخبار تو تھا‘ مصر میں ایسی کوئی آزادی رائے نہ تھی۔ ٹی وی کا صرف ایک ہی چینل تھا جو ہر وقت حکمرانوں کے گن گاتا تھا۔ تو یوں سمجھ لیجئے کہ صرف ایک سال کی جمہوریت کے بعد مصر پھر سے اپنے ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آج کا مصر جمال عبدالناصر کے زمانے کا مصر نہیں کہ سید قطبؒ کو تختہ دار پر لٹکا دیا اور پوری قوم سہم کر بیٹھ گئی۔
معزول صدر محمد مرسی کو بھی سزائے موت سنا دی گئی ہے اور یہ بہت بُرا شگون ہے۔ یقین کریں میں اخوان کا کبھی نہ حامی تھا اور نہ اب ہوں مگر اس بات سے تو انکار ممکن نہیں کہ وہ منتخب صدر تھے اور ویسے بھی وہ قدامت پسند نہیں‘ روشن خیال مسلمان ہیں۔ امریکہ سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر مرسی نے ہی جنرل سیسی کوپہلے فوج کا سربراہ بنایا اور پھر وزیر دفاع۔ اقتدار بھی عجیب چیز ہے ؎
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
جنرل عبدالفتاح السیسی تمام ڈکٹیٹروں کی طرح اپنے آپ کو ملک کا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ جنوری2011ء میں ہونے والے نوجوانوں کے مظاہرے غیر ملکی سازش کا نتیجہ تھے۔ وہ اخوان کے جانی دشمن ہیں لیکن پکا مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ماتھے پر محراب ہے لیکن اسلام کی رحمدلی ناپید ہے۔ان کی بیگم پردہ کرتی ہیں اسی لیے جب صدر مرسی نے 2012ء میں انہیں مصری فوج کا سربراہ مقرر کیا تو پورے مصر میں یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ جنرل صاحب کا تعلق بھی اخوان سے ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہ تھا۔
1954ئسے مصری فوج ملک پر حکمران ہے۔ صرف صدر محمد مرسی کا ایک سال نکال لیجئے ۔ لوگ سخت گیر حکومتوں کے عادی ہو چکے ہیں لہٰذا جمہوری روایت بہت ہی کمزور ہے۔ مصر کی آبادی پاکستان سے آدھی ہے مگر فوج پاکستان کے برابر ہے۔ فوج کے انڈسٹری اور تجارت میں مفادات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تیس فیصد اکانومی بالواسطہ یا بلا واسطہ فوج کے کنٹرول میں ہے۔ 
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک جو جموریت کے بڑے چمپئن بنتے ہیں‘ آج جنرل سیسی کی حمایت کر رہے ہیں بڑی وجہ یہ ہے کہ اخوان اسرائیل کے خلاف تھے اور ہیں۔ کسی عرب ملک نے بھی جنرل سیسی کی بڑی مخالفت نہیں کی بلکہ یو اے ای کویت اور سعودی عرب نے دل کھول کر مالی امداد دی ہے۔ مصر میں فوجی مداخلت کی مخالفت ایران نے کی یا پھر قطر نے۔ باقی عالم اسلام بھی خاموش رہا۔
جنرل سیسی اپنے آپ کو اعتدال پسند مسلمان کہتے ہیں فرماتے ہیں کہ بچپن میں جس گھر میں وہ رہتے تھے اس کے قریب ہی چرچ تھا اور اتوار کو بجنے والی چرچ کی گھنٹیاں انہیں بھلی لگتی تھیں۔ خیر یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن ڈکٹیٹروں کی کچھ اور بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ وہ حکومت آہنی ہاتھوں سے کرتے ہیں مثلاً پچھلے سال جنرل سیسی کے انتخاب کے بعد قاہرہ میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے اور ایک ہی دن میں ہزار کے قریب لوگ مارے گئے۔ بے رحمی کے عام تصور کو زائل کرنے کے لیے ڈکٹیٹر عوام پسند بنتے ہیں۔ انور سادات اپنی سالگرہ ہر سال اپنے گائوں جاکر مسجد میں تقریباً ایک گھنٹہ نوافل ادا کرتے تھے اور ٹی وی کیمروں سے یہ براہ راست پورا گھنٹہ پورے مصر میں دکھایا جاتا تھا جنرل سیسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف آدھی تنخواہ لیں گے۔ ایک دن انہیں پتہ چلا کہ کسی عورت کے ساتھ جنسی تشدد ہوا ہے تو موصوف فوراً ہسپتال پہنچ گئے اور عورت کی تیمار داری کی ۔سرکاری میڈیا نے خوب مسلسل کوریج کی ۔ زیادہ دن نہیں گزرے ایک روز صدر صاحب کو خیال آیا کہ مصری نوجوانوں کو کاروں اور بسوں کی بجائے سائیکلوں کا استعمال کرنا چاہیے کہ اس طرح پٹرول کی بچت ہو گی تو موصوف نے قاہرہ کی سڑکوں پر سائیکل سواری کا مظاہرہ کیا ۔میں نے یہ سین ٹی وی پر دیکھا ہے صدر سیسی کے پیچھے تین چار سو نوجوان ایک ہی لباس میں سائیکل چلا رہے تھے ۔لگتا تھا کہ فوجی جوانوں کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ مجھے یہ سین دیکھ کر جنرل ضیاء الحق بڑے یاد آئے۔
صدر مرسی کے ساتھ ایک سو پندرہ اور لوگوں کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ ان میں اخوان کے پندرہ سرکردہ لیڈر بھی شامل ہیں۔ مرسی پر دو الزام ہیں پہلا الزام تھا کہ 2011 ئمیں ان کے اکسانے پر اخوان کے حامیوں نے ایک جیل توڑ کر اپنے قیدیوں کو رہا کرایا اور اس عمل میں انہیں حماس اور حزب اللہ کی مدد حاصل تھی اگر یہ الزام صحیح تھا تو 2012ء میں انہیں صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ لہٰذا یہ الزام لغو لگتا ہے اور اس پر انہیں بیس سال قید ہوئی تھی۔ موت کی سزا مرسی کو مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم صادر کرنے کی پاداش میں ہوئی ہے۔ یہ الزام تو جنرل سیسی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر مصر کی موجودہ حکومت نے صدر مرسی کو پھانسی دینے کی حماقت کی تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ سید قطب کی شہادت کے بعد اخوان کی جماعت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ زیر زمین چلی گئی تھی۔
جنرل سیسی کے پاس بہت بڑی فوج ہے۔ خلیجی ممالک نے دل کھول کر مالی مدد بھی کی ہے۔ اسرائیل بھی جنرل سیسی کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے لہٰذا جنرل صاحب کی حکومت کچھ عرصہ چلے گی مگر مصر میں امن و استقرار آتا نظر نہیں آ رہا ۔ اب وہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح نہیں جائیں گے۔ جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں آئے گی۔ تو مصر میں امن و استقرار کی بحالی اور اقتصادی ترقی کے وعدے مجھے تو پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ مصری معاشرہ بری طرح منقسم نظر آتا ہے۔ اس مشکل صورت حال سے نکلنے کا حل صاف اور شفاف الیکشن ہیں جن میں اخوان بھی شریک ہوں مگر اخوان کو تو دہشت گرد تنظیم ڈیکلیئر کیا جا چکا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved