اظہارِ خیال پہ جیسی قدرت ہم انسانو ں کو حاصل ہے ،کسی دوسرے جانور کو نہیں ۔ فصاحت مرد کا زیور ہے ۔اس کے باوجودہماری سیاسی اشرافیہ جب منہ کھولتی ہے تو ابکائی سی آتی ہے۔ کبھی تودل چاہتاہے کہ اسے ہومو سیپئن کے درجے سے نکال باہر کیا جائے۔ نمونے کے کچھ خطبات پیشِ خدمت ہیں ۔
نیب کی طرف سے 150بڑے مقدمات کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ۔ شریف برادران بھی اس میں شامل تھے۔اس پر شریف خاندان کے نمائندے کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے ، خادمِ اعلیٰ پاکی ء داماں کی حکایت کچھ زیادہ ہی بڑھا گئے ۔ کہا : ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ کسی نے قرض مع سترہ سالہ مارک اپ (سود) کے ادا کیا ہو۔وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے نیب کو شرفا کی پگڑیاں اچھالنے والا ادارہ قرار دیا ۔ کہا کہ پارلیمنٹ کو اس کے لیے سزا تجویز کرنی چاہیے ۔
شریف خاندان نے آج سے سترہ سال پہلے اتفاق فائونڈری گروی رکھوا کر تین ارب روپے قرض لیے تھے ۔ اسے لوٹانے میں وہ ناکام رہے اور یہ کہا کہ بینک فائونڈری بیچ کر اپنی رقم وصول کر سکتے ہیں ۔ اس موقعے پر ان کے ایک رشتے دار سامنے آئے ۔ عدالت کو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی اس جائیداد میں حصے دار ہیں؛ چنانچہ بینک اسے بیچ نہیں سکتے۔ یوں ہمارے پُرپیچ عدالتی نظام کی بھول بھلیوں میں یہ مقدمہ سترہ سال تک ایک حکمِ امتناعی کے بل پر گھسٹتا رہا ۔ 2013ء میں نون لیگ ایک بار پھر برسرِ اقتدار آتی اور پھر سے یہ قصہ میڈیاکی
زینت بنتا ہے ۔ اس پر شریف خاندان سخاوت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے قرض او رسود ادا کر دیتاہے۔ سترہ سال بعد ہی سہی، قرض لوٹانے کا فقید المثال کارنامہ اس نے انجام دیا ہے ؛چنانچہ میاں شہباز شریف داد و تحسین کے طلب گا رہیں ۔ قوم کو انہیں سر آنکھوں پہ بٹھانا چاہیے۔ اکیسویں صدی میں ایسے خدا ترس ، درویش صفت حکمران، جو قرض لوٹا دیں ؟ یہ الگ بات کہ آئی ایم ایف کا قرض تمام شرائط تسلیم کرتے ہوئے لیا جاتا اورہمیشہ وقت پر واپس کیا جاتاہے ۔
لطیفہ یہ ہے کہ کوئی کم حیثیت آدمی بینکوں کا روپیہ لوٹانے میں تاخیر کرے تو وہ اس کا پیٹ پھاڑ کر اپنی رقم وصول کرتے ہیں ۔ بینک میں ملازمت اختیار کرنے والوں سے یہ معاہدہ کیا جاتاہے کہ بینک جب چاہے ، انہیں نکال سکتاہے ۔اگر امیدوار دو سال سے قبل خود چھوڑنا چاہے تو اسے دو سے تین لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے ۔ پے درپے حکومتوں میں رہنے والے خاندان سے بینکوں کا کنسورشیم (ایک بڑا گروپ ) بھی سترہ سال تک پیسے وصول کر سکا اور نہ عدالت سے اسے مجرم قرار دلوا سکا۔ اس کی جائیداد قرق نہ ہوئی اور وہ الیکشن لڑنے کے لیے بدستور اہل رہا۔
اس لحاظ سے میاں شہباز شریف درست فرما رہے تھے کہ سیاستدانوں میں رقم لوٹانے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ انہوں نے
''امیر اور ترین‘‘کی طرف سے قرضے ہڑپ کرنے کا ذکر کیا۔ مرکز اورپنجاب میں حکومت ان کی ہے ۔ اگر امیر اور ترین نے ایسا کیا ہے تو انہیں پکڑنا کس کی ذمہ داری ہے ؟
جہاں تک نیب کو پگڑی اچھال قرار دینے کا تعلق ہے ، اس پر مجھے سخت اعتراض ہے ۔ نیب نے اپنی مرضی سے فہرست جاری نہیں کی بلکہ یہ کام اس نے عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت پر سخت مجبوری بلکہ کراہت کی کیفیت میں انجام دیا ہے ۔نیب کی طرف سے ''شرفا‘‘کے ساتھ تعاون کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ پندرہ سال سے یہ معاملات زیرِ التوا چلے آرہے ہیں ۔ لگتا ایسا ہے کہ پرویز رشید فہرست پیش کرنے والے نہیں بلکہ اسے طلب کرنے والوں پر غصے کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہ تھا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں افغان طالبان اور اشرف غنی حکومت میں بات چیت سے پاکستانی طالبا ن سے مذاکرات کے بارے میں ان کا موقف درست ثابت ہو گیا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خان صاحب پاکستانی طالبان اور افغانستان کی صورتِ حال میں فرق بھی نہیں کر پارہے ۔ اس کے باوجود نہیں کر پا رہے کہ نہ صرف انہیں اپنے دوست ڈاکٹر شعیب سڈل جیسے انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین تک بلا روک ٹوک رسائی حاصل ہے بلکہ وہ پختون خو اکے حکمران بھی ہیں ۔ افغانستان سے صرف امریکہ ہی شکست خوردہ ہو کر واپس نہیں گیا بلکہ افغان طالبان بھی 2001ء کی نسبت آج کمزور ہیں ۔ افغان نیشنل آرمی اور طالبان دونوں ہی ایک دوسرے کا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کر رہے ہیں ۔حالات کے جبر نے انہیں مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا ہے ۔ اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔ ادھرخود کو پاکستانی طالبان کہلوانے والوں سے پے درپے کئی معاہدے مشرف دور میں کیے گئے ۔ سوات میں صوفی محمد اور فضل اللہ سے مذاکرات کا انجام ساری دنیا نے دیکھا۔ ساری شرائط تسلیم ہو جانے کے بعد صوفی محمد نے کہا کہ وہ پاکستانی آئین کو نہیں مانتے ۔ فضل اللہ کے جنگجو بینک بند کرانے لگے۔ اس پر ریاست حرکت میں آئی اور انہیں کچل دیا گیا۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اسی فضل اللہ کے تحریکِ طالبان کے سربراہ بن جانے کے باوجود تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائِ اسلام سے لے کر نون لیگ تک سبھی مذاکرات کی ڈفلی اسی جوش و خروش سے بجاتے رہے ۔ نتیجہ ایف سی کے 23جوانوں کے گلے کاٹنے، جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں سمیت ان گنت شہادتوں کی صورت میں نکلا۔جون 2014ء کی بجائے ایک سال قبل پاک فوج اگر اچانک شمالی وزیرستان پر حملہ آور ہو جاتی تو طالبان کی صفِ اوّل کی قیادت مارے جانے اور ان کے جانی نقصان کاامکان بہت زیادہ تھا۔ اس کی راہ میں عمران خان، سید منور حسن، مولانا فضل الرحمن اور میڈیا میں مذہبی جماعتوں کے ہرکارے حائل تھے ۔
محمود خان اچکزئی نے قو می اسمبلی میں یہ کہا تھا : پاکستان پشتونوں کو سونپ دیجیے ، تمام معاملات درست ہو جائیں گے۔ پشتونوں کی دلیری اور سخت جانی اپنی جگہ، اچکزئی صاحب کیا یہ فرمانا چاہتے تھے کہ دوسرے لسانی گروہ کمتر ہیں ؟ ان کا یہ بیان تعصب کو فروغ دینے کی بدترین مثال ہے ۔ ایک قومی رہنما کو اس قسم کے الفاظ زیب ہی نہیں دیتے ۔ خیر عمران خان بھی اس باب میں اب کسی سے پیچھے نہیں ۔ فرمایا: پنجاب کے حکمرانوں سے عوام نفرت کرتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کپتان کی فکر میں صوبائیت غلبہ پاتی چلی جا رہی ہے ۔
قدرت نے انسانوں کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی ایک منفرد صلاحیت عطا کی ہے ۔ اس کے ساتھ ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ سوچ سمجھ کر منہ کھولا جائے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے اس صلاحیت سے عاری محسوس ہوتے ہیں ۔