تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     13-07-2015

صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی

ان دنوں پورے گائوں میں ایک آدھ ہی ریڈیو ہوتا تھا۔ گرمیوں میں ایسا ٹرانزسٹر نما ریڈیو شام ڈھلے چھت پر ہوتا تو تقریباً پورا گائوں ہی مستفید ہوتا۔ ایسی ہی ایک ڈھلتی شام تھی۔ ہمارا پڑوسی نواب کشمیری دکان بند کر کے چھت پر ریڈیو سے دل بہلا رہا تھا میں کھیل کود کے بعد ہم جولیوں سے رخصت ہو کر ڈھور ڈنگروں والی حویلی سے ہوتا رہائشی مکان کی طرف آ رہا تھا۔ دروازے سے داخل ہوا تو ارد گرد کی خاموشی میں ریڈیو کی آواز گونج رہی تھی۔ اس وقت تو نہیں معلوم تھا لیکن اب معلوم ہے کہ مشاعرہ ہو گا۔ کوئی عجیب سی آواز کے ساتھ جیسے اسے کھانسنے کی ضرورت ہو، پڑھ رہا تھا ؎
اور تو کوئی چمکتی ہوئی شے پاس نہ تھی
تیرے وعدے کا دیا راہ میں لا رکھا ہے
خاندان میں تعلیم کا آغاز فارسی شاعری سے ہوتا تھا، اس لیے سن کچا ہونے کے باوجود شعری ذوق کچا نہیں تھا۔ شعر فوراً حافظے پر نقش ہو گیا۔ یہ احمد ندیم قاسمی سے پہلا تعارف تھا۔ یوں کہ شاعر کا نام معلوم ہی نہ تھا!
کالج پہنچنے تک احمد ندیم قاسمی پسندیدہ شعراء میں شامل ہو چکے تھے۔ ''فنون‘‘ حرز جاں بن چکا تھا۔ انہی دنوں کسی ادبی مقابلے میں ان کا شعری مجموعہ ''دشتِ وفا‘‘ انعام میں ملا چند ہفتوں میں حفظ ہو گیا۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ فنون میں غزل شائع ہوئی! ستر کی دہائی شروع ہوئے دو برس ہو چکے تھے۔ قاسمی صاحب نے اپنے ہفتہ وار کالم میں، جو ایک معروف روزنامے میں چھپتا تھا، اردو کے بیس جدید اور نمائندہ اشعار درج کیے۔ دیکھ کر یقین نہ آیا کہ ان میں ایک شعر میرا بھی تھا۔ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر۔ محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے! اس وقت تک بالمشافہ ملاقات تک نہ ہوئی تھی۔
احمد ندیم قاسمی ادیب، شاعر اور مدیر تو بڑے تھے ہی، بطور انسان بہت ہی بڑے تھے۔ وہ ہر شخص کو، ہر کہ ومہ کو، اس کے رتبے یا شہرت سے قطع نظر، خط کا جواب دیتے تھے، کبھی ایسا نہ ہوا کہ انہیں غزل، نظم یا مضمون بھیجا اور انہوں نے بقلم خود رسید نہ دی۔ لاہور جب بھی جانا ہوتا، قدم بے اختیار مجلسِ ترقی ٔ ادب یا فنون کے دفتر کی طرف اٹھتے۔ ہمیشہ یوں محسوس ہوتا جیسے اپنے خاندان کا کوئی بزرگ مل رہا ہے۔ بے انتہا شفقت، ڈھیروں پیار! نرم گفتاری! کمال کی شائستگی! اور یہ تجربہ ہر اس شخص کو ہوتا جو ان سے ملاقات کرتا۔ ایک چھتنار درخت تھا جس کا ٹھنڈا سایہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کی ایک تقریب میں ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران یوں ہی کہہ دیا کہ ''دشتِ وفا‘‘ اپنی بیٹی مہوش کو تحفے میں دینا چاہتا ہوں۔ بازار سے مل نہیں رہی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک ہفتے بعد ڈاک میں ان کی طرف سے کتاب موصول ہوئی۔ حیرت زدہ رہ گیا۔ اتنا بڑا شخص! اتنی مصروفیات، پھر مجھ جیسابے بضاعت اور انتہائی جونیئر لکھاری۔ مگر شفقت کرتے وقت ان کا معیار وہ نہیں ہوتا تھا جو دنیا میں رائج الوقت تھا۔ اس لحاظ سے ان کا رویہ صوفیا کا رویہ تھا!
فنون محض ایک ادبی جریدہ نہیں تھا۔ ایک بہت بڑا دبستان تھا۔ ایک تربیتی مرکز تھا۔ ایک ادارہ تھا۔ کتنوں ہی کو فنون سے گھڑا، تراشا، بنایا اور ادبی دنیا میں پیش کیا۔ بہت سوں نے شہرت حاصل کر کے ان سے منہ موڑ لیا۔ بہت سوں نے اعتراف کرتے ہوئے بخل سے کام لیا۔ مگر قاسمی صاحب ایک دریا تھے۔ کناروں سے پَرے، وسیع زمینوں کو سیراب کرتا دریا۔ فیاضی سے بہتا، لوگوں کی پیاس بجھاتا دریا! کتنے ہی ندی نالے اس سے نکلے، مگر دریا کی روانی میں کمی نہ آئی۔
تین دن پہلے ان کی نویں برسی تھی۔ خاموشی سے گزرتی برسی میں بھی وہی بے نیازی، وہی نرم روی اور وہی شائستگی تھی جو قاسمی صاحب کی شخصیت میں تھی۔ میرے ناقص علم کے مطابق کسی شہر میں ان کے نام سے کوئی سڑک کوئی گلی کوچہ نہیں!
احمد ندیم قاسمی کی ادبی قدوقامت اور عالم گیر شہرت صرف اور صرف ادبی تخلیقات کی بنا پر تھی۔ انہوں نے شاعری کو چمکانے کے لیے کوئی سیاسی لبادہ نہ پہنا۔ کسی عالمی بلاک سے وفاداری کا طوق گلے میں نہ ڈالا۔ ان کے پسماندگان نے ان کے نام پر الیکٹرانک میڈیا کا استحصال کیا، نہ ذرائع ابلاغ کو نچوڑا۔ انہوں نے تو ساری زندگی رہائش بھی کسی پوش علاقے میں نہ رکھی۔ جس انسانیت کا وہ پرچار کرتے رہے جس عام آدمی کا دفاع کرتے رہے، اپنی زندگی میں اس کا چلن برت کر دکھایا۔ شرق اوسط کے پرتعیش شہروں میں بورژوا زندگی نہیں بسر کی۔ زنداں میں کالی راتیں انہوں نے بھی کاٹیں مگر دوسروں کی طرح اپنی قید کو سرخ قمیض بنا کر، ڈنڈے پر چڑھا کر تشہیر نہیں کی! یہ نہیں کہا کہ شاعری تو پسے ہوئے طبقات کی ہمدردی میں ہو اور انداز زیست، اکل و شرب اور سفر و قیام کا معیار امرا جیسا ہو! نہ ہی زمینداری کی بنیاد پر اپنے اور اپنے جریدے سے وابستہ ادیبوں شاعروں کو مزارع سمجھا۔ ایسا کرنے والوں کی شہرت پانی کے بلبلے کی طرح تھی۔ عارضی اور محض ہوا سے بھری ہوئی! نام بھی ختم ہو گیا۔ کام بھی۔ احمد ندیم قاسمی کا نام آج بھی زندہ ہے ان کی شاعری ان کے افسانے آج بھی مقبول ہیں۔ ادب اور ادیب سازی کی تاریخ میں ان کا مقام بلاشک و شبہ بلند ہے وہ ایک سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ ان کی وفاداریوں کا مرکز پاکستان سے باہر نہیں تھا۔ نعتیں انہوں نے محبت رسولؐ میں ڈوبی ہوئی کہیں۔ دلچسپ پہلو دیکھیے کہ رسالت مآبؐ کے سائے کے بارے میں گروہی اختلافات ہیں مگر قاسمی صاحب نے عجیب نکتہ نکالا ؎
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
قاسمی صاحب کے چند اشعار ؎
جب حریتِ فکر کا دستور ہوا طے
خود جبر مشیت نے قسم کھائی ہماری
اگر گھنا ہو اندھیرا، اگر ہو دور سویرا
تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلائو
ادھر شراب کا رس ہے، اُدھر شباب کا مس ہے
قدم قدم پہ قفس ہے ندیم دیکھتے جائو
مدتوں تک بروبحر کے حکمراں ایشیا ہی کے ٹکڑوں پہ پلتے رہے
یوں تو مغرب کی نظروں میں ہے آج بھی صرف اک خیمۂ بے طناب ایشیا
صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی
ہم نے آئینہ بدل تیرا سراپا دیکھا
ہم جو بھٹکے بھی تو کس شانِ وفا سے بھٹکے
ہم نے ہر لغزش پا میں ترا ایما دیکھا
ہم بایں تیرہ نصیبی نہ بنے تیرہ نظر
ہم نے ہر رات کی چتون میں ستارا دیکھا
تو نیند میں بھی میری طرف دیکھ رہا تھا
سونے نہ دیا مجھ کو سیہ چشمی شب نے
جب تک ارزاں ہے زمانے میں کبوتر کا لہو
ظلم ہے ربط رکھوں گر کسی شہباز کے ساتھ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
تو وہاں زیرِافق چند گھڑی سستا لے
میں ذرا دن سے نمٹ کر شب تار آتا ہوں
کٹی پتنگ ہے ساری دنیا کی نظروں میں سمائی ہوئی
جتنے ہم تجھ سے کترائے اتنی تری رسوائی ہوئی
غم ادھورا تھا کہ پیغام اجل آیا ندیم
بوند ابھی بھڑکی نہ تھی، پتھر ابھی بولا نہ تھا
ہنسی آتی ہے مجھ کو امتیاز دشت و گلشن پر
گھٹا کعبے سے اٹھتی ہے، برستی ہے برہمن پر
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں تو شامل ہوں محبت کے گناہگاروں میں 
قاسمی صاحب نے نظمیں بھی کمال کی کہیں۔ اردو شاعری میں یہ نظمیں عالی مرتبت ہیں۔ بہت سی شہرۂ آفاق ہو چکی ہیں۔ ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار، ریستورانوں میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے۔ خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے۔ اے مشیت تری قوت کو سلام۔ مراجعت، جدید انسان، ان نظموں میں سے محض چند ہیں جو اردو شاعری کے ہر سنجیدہ طالب کو ازبر ہیں۔ ان کی مشہور نظم ''درانتی‘‘ سے چند سطریں دیکھے۔
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
خمیدہ ہل کی یہ الہڑ جوان نور نظر
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی
تو ایک گیت چھڑے گا مسلسل اور دراز
ندیم ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے، آفتاب کاٹے گئے
ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
ہم انقلاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
زمیں پہ خلدِ بریں کا جواب کاٹیں گے
ہمیں فخر ہے کہ ہم نے احمد ندیم قاسمی کو دیکھا، انہیں ملے اور ان کے عہد میں جیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved