تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-07-2015

اردو افسانے کا نیا رُوپ

محبی آصف فرخی نے مجھے اپنے رسالے''دنیا زاد‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والے افسانوں پر رائے دینے کو کہا ہے حالانکہ افسانہ نہ تو میری چائے کی پیالی ہے اور نہ ہی میں اسے باقاعدگی سے پڑھنے کا گنہگار ہوں۔ تاہم بطور ایک ادنیٰ قاری کے میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارا افسانہ آج کل پھر اپنے تجریدی دور کی طرف لوٹ رہا ہے‘ اس فرق کے ساتھ کہ پہلے افسانے کا تار وپود ہی بیحد گنجلک اور تہہ دار ہوتا تھا کہ عام قاری کے کچھ پلے ہی نہ پڑتا‘ لیکن اب صورت یہ ہے کہ افسانہ ٹھیک ٹھاک آغاز کر کے چلتا ہے اور آخر پر آ کر قاری کو حیران کرنے کی بجائے پریشان کر دیتا ہے اور باقاعدہ سر کھپانے کے بعد بھی پتا نہیں چلتا کہ افسانہ نگار کہنا کیا چاہتا ہے۔ یہ میں اس کی بدتعریفی نہیں کر رہا کیونکہ کچھ پریشان کن شاعری میں نے بھی کر رکھی ہے۔
چنانچہ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ اگر افسانہ نگار کا مقصد کسی نہ کسی طرح قاری کو متاثر کرنا ہو تو وہ کم از کم اس حد تک ضرور کامیاب ہے ۔ چنانچہ جو افسانے میں نے پڑھے ہیں‘ میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ افسانے کا یہ نیا پیرا یہ ہے‘ جو کم و بیش تمام افسانوں میں بروئے کار لایا گیا کہ افسانہ 'سہیلی بوجھ پہیلی‘ قسم کی چیز ہو کر رہ گیا ہے ۔ 
حسن منتظر کے افسانے میں کم از کم تین چوتھائی تک قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے کہ اس میں مختلف قبائل اور ان کے عجیب غریب رسوم و رواج کا بیان ہے اور جسے ایک خوبصورت ابتدا کہا جا سکتا ہے لیکن تھوڑے مکالمے کے بعد افسانہ بغیر کسی موڑ یا کلائمیکس کے ختم ہو جاتا ہے۔ سب سے زیادہ پریشان خالدہ حسین کے افسانے نے کیا۔ افسانہ ختم ہو جاتا ہے اور قاری خالی کا خالی ہی رہ جاتا ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ ضعیف عورت کیوں اور کہاں غائب کر دی جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں کہ وہ یہ سارا وقفہ تصور ہی میں طے کر لیتی ہو۔ اور اگر یہ قاری کے لیے کوئی ذہنی غذا فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تو الگ بات ہے۔
اسی طرح فہمیدہ ریاض کا افسانہ بھی کہانی بننے سے قاصر ہے اور جیسے چلا تھا‘ ویسا ہی بغیر کسی اثر انگیز خاتمے کے تمام ہو جاتا ہے جیسے اسے کہانی بننے سے صاف بچا لیا گیا ہو۔ یہ دونوں ہماری محبوب تخلیق کار ہیں اور اس مقام پر پہنچ چکی ہیں کہ جو بھی لکھ دیں ‘ وہ قابل قبول ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی‘ افسانہ اب محض کہانی کہنے کی بات نہیں رہی۔ یہ بیانیہ بھی ہو سکتا ہے۔ سرگزشت 
اور سفر نامہ بھی‘ گفتگو کا ایک سلسلہ اور ہماری تاریخ کا ایک حصہ بھی۔ تجرید کے زمانے میں افسانے سے جب کہانی غائب کر دی گئی تھی تو یہ عام لوگوں کے لیے ایک صدمے کا باعث تھا لیکن اب چیزیں اس قدر خلط ملط ہو گئی ہیں کہ نثر اور نظم کا کچھ زیادہ امتیاز باقی نہیں رہ گیا ہے‘ اس لیے افسانہ جس شکل میں بھی ہو‘ سب سونا ہے کیونکہ اس کا کہنے والا خود پاسے کے سونے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ نہ ہی اس کی سمت کے تعین کی کوئی کوشش کی گئی ہے مثلاً ان گنہگار آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ نقاد اور فکشن رائٹر انتظار حسین نے کبھی اپنی کسی تحریر میں افسانے کی تکنیک یا دیگر اسرار و رموز پر کوئی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہو۔کوئی نظریہ سازی تو بہت دور کی بات ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ ان کا مسئلہ ہی نہ ہو کیونکہ ان کا مسئلہ صرف دیو مالائوں کا کچومرنکالنا ہے اور بس۔''پیارے استاد‘‘ اور ''کلب روڈ‘‘ بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں اور افسانہ سے عام قاری کی جو توقعات ہیں ان پر کسی طور پورا نہیں اترتے۔عامر حسین کا افسانہ ''سینتیس پُل‘‘ بھی بغیر کوئی تاثر پیدا کئے انتہائی شرافت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ مسعود اشعر کا ترجمہ''دوسرا بچہ‘‘ بھی قاری کو صرف پریشان ہی کرتا ہے کیونکہ آخر میں لانسنگ کا کردار اس لیے خلاف واقعہ ہے کہ وہ اندھا ہے اور بغیر کچھ دیکھے سنے بے تحاشا ادھر ادھر بھاگنے لگتا ہے اور ''بے بی۔بے بی کہاں ہے بے بی‘‘ کی آوازیں چیخ چیخ کر لگا رہا ہے۔ افسانے اور غیر ملکی افسانہ نگاروں پر جو مضمون ہیں‘ وقیع ہونے کے باوجود ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
ان افسانوں کی اس خوبی سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قاری کو مصروف رکھتے ہیں اور اس کی دلچسپی افسانے میں آخر تک برقرار رہتی ہے۔ ہمارا عہد چونکہ عرصہ ہوا گزر چکا ہے اس لیے یہ ہمارے نہیں بلکہ عہد موجود کے افسانے ہیں اور اس عہد کے لوگوں کو پسند بھی آنا چاہئیں اور ان میں کہانی تلاش کرنے کی بجائے دیگر خوبیوں کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نانی اماں کی کہی ہوئی کہانیاں نہیں‘ بلکہ یہ اس کے نواسوں نواسیوں کی کرشمہ کاریاں ہیں۔ اللہ مزید توفیق ارزانی کرے!
پرچے کے آخر میں جو تحریر ہے وہ کہانی تو نہیں ہے لیکن اس پر سینکڑوں کہانیاں قربان کی جا سکتی ہیں۔ میرا اشارہ مصطفے رباب کی تحریر ''صحرا کے تھر کی پکار‘‘ کی طرف ہے۔ موصوف نظم بھی اتنی ہی عمدہ لکھتے ہیں اور میں ان کی نظموں کی تحسین پہلے کر بھی چکا ہوں۔ اس میں جو لرزہ خیز واقعات بلکہ سانحات بیان کیے گئے ہیں وہ الگ الگ ایک کہانی کی تاثر رکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جہاں اور بہت کچھ ہو رہا ہے‘ وہاں یہ ایک اور دل ہلا دینے والی تحریر ہے اور ایک شاعر ہی اسے اتنے زور دار طریقے سے بیان کر سکتا تھا۔ اس نے جو آئینہ بار بار دکھایا ہے اس میں اپنی تصویر دکھا کرہمیں بار بار شرمندہ کیا ہے اور اگر ہمارے ہی درمیان یہ کچھ ہو رہا ہے تو اس سے ہم خود بے عزت ہوئے ہیں اور اگر آسمان ہم پر ٹوٹ نہیں پڑ رہا تو یہ بجائے خود ایک حیران کن امر ہے۔عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو 
آج کا مطلع
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں میں آرام کرتا ہوں 
وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا کام کرتا ہوں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved