بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب دربار صاحب امرتسر پر فوجی آپریشن کر کے لاتعداد سکھوں کا خون بہایا تو موصوفہ کا خیال یہ تھا کہ خالصتان کی تحریک کو کچل دیا گیا ہے مگر اس آپریشن کے چند ماہ بعد ہی اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہو گئی اور سکھوں کی آزاد خالصتان کی تحریک اور بھی زور پکڑ گئی۔ حالت یہ ہو چکی تھی کہ بھارتی پنجاب میں سکھ اکثریتی علاقوں میں رہنے والے ہندو بھارت کے دوسرے حصوں کو منتقل ہونے لگے۔
مجھے یاد ہے 1987ء میں واشنگٹن میں میرے ایک ہندو دوست کا تایا امرتسر سے وہاں آیا تو میری ان سے ملاقات ہوئی۔ اس زمانے میں کوئی امرتسر سے آئے اور اس سے خالصتان کی تحریک بارے میں سوال نہ ہو یہ تو ممکن نہ تھا‘ لہٰذا میں نے اُن سے دریافت کیا کہ کیا یہ خالصتان بن جائے گا؟میرے ہندو دوست کا تایا پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا۔ اس نے سوال سن کر میری طرف دیکھا اور بولا: ''خالصتان بنے گا نہیں‘ وہ تو کب کا بن چکا ہے۔ میں کچہری جاتا ہوں تو آزاد خالصتان والوں کی اجازت سے جاتا ہوں۔ ان لوگوں کی اجازت کے بغیر تو امرتسر میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا‘‘۔ یہ صورتحال تھی بھارت کی1987ء میں۔
آج کل جب بھارت کی طرف سے ممبئی میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے زکی الرحمن لکھوی کا نام لے کر پاکستان پر دبائو بڑھایا جاتا ہے تو مجھے اسی کے عشرے کا جنرل ضیاء الحق کا دور یاد آتا ہے۔ آج کل ضیاء الحق کو برا بھلا کہنا ایک فیشن بن گیا ہے مگر یاد رکھیں کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں بھارت کو مسلسل پریشان کئے رکھا تھا۔ بھارت کی معاشی حالت بھی اس دور میں کوئی خاص اچھی نہیں تھی‘ لہٰذا واشنگٹن میں میرے جاننے والے کئی ہندو جذباتی ہو کر ضیاء الحق کی تعریف کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ راجیو گاندھی کے بجائے بھارت کو بھی ضیاء الحق جیسا سخت حکمران مل جائے تو بھارت کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
یہ باتیں جو میں تحریر کر رہا ہوں وہ اتنی پرانی نہیں ہیں‘ پرانی اس لیے لگتی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ دوستی کر کے تمام حل طلب امور طے کرنے کی خواہش پر مبنی جو خارجہ حکمت عملی بنا رکھی ہے‘ یہ ہمیں بہت دور لے گئی ہے۔ہمارے ہاں ایسے ادارے قائم ہو چکے ہیں جو کہنے کو پاکستانی ہیں مگر جس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اس سے فائدہ بھارت کو ہوتا ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا تو آج کل آپ روز ہی چرچا سنتے ہیں۔ اس ایجنسی کے عہدیدار براہ راست پاکستان کو دھمکیاں تک دیتے ہیں۔ثقافتی میدان میں گزشتہ برسوں میں کچھ ایسے فیصلے ہوئے ہیں کہ بھارت کی طرف سے ایک ثقافتی یلغار کی گویا اجازت دی جا چکی ہے۔ مغربی دنیا بھی پاکستان میں اس بھارتی ثقافتی یلغار کی ہمنوا ہے‘ اس لیے کہ بھارتی کلچر بے حیائی سے بھرا ہوا کلچر ہے جو مغربی ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔
کیا ہم اس وقت اچھے نہیں تھے جب بھارت کو سکھوں کی بغاوت کا سامنا تھا؟ ہماری کرنسی کی قدر بھارت کی کرنسی کی نسبت دوگنا کے قریب تھی ۔ بھارت سے مسلمان چھ ماہ کا ویزہ لے کر اپنے عزیز و اقارب سے ملنے پاکستان آتے تھے اور یہاں چھ ماہ میں اتنا کما لیتے تھے کہ واپس بھارت جا کر بیٹی کی شادی کر لیتے تھے۔ثقافتی میدان میں صورتحال یہ تھی کہ ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے بھارت میں از حد مقبول تھے۔ بھارتی تاجروں نے امرتسر میں ہمارے ٹی وی ڈرامے ریکارڈ کرنے کی مشینری لگا رکھی تھی۔ جونہی پی ٹی وی پر کوئی نیا ڈرامہ نشر ہوتا وہ امرتسر میں ریکارڈ کر لیا جاتا اور ساتھ ہی اس کی ہزاروں کاپیاں بنا کر بھارت کے مختلف شہروں میں بھیج دی جائیں‘ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ جمعے کو پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونیوالے ڈرامے کے کیسٹ اتوار کے روز دہلی اور ممبئی کے ویڈیو سٹورز پر اسی طرح دستیاب ہوتے تھے جس طرح آج کل کے ہمارے ویڈیو سٹورز پر بھارتی فلمیں وغیرہ اپنی ریلیز کے فوراً بعد دستیاب ہو جاتی ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے بارے میں ہمیں اپنی خارجہ حکمت عملی وہی اپنا لینی چاہیے جو ضیاء الحق مرحوم کے دور میں تھی‘ یعنی بھارت کو کسی نہ کسی طور پر دبائو ہی میں رکھنا۔
بھارت ہمارے ساتھ تجارت کرنا چاہتا ہے تو ہم ضرور کریں مگر اسی طرح جس طرح چین کرتا ہے‘ یعنی بھارت کو کی جانے والی اپنی برآمدات کو وہاں سے کی جانے والی درآمدات سے ہمیشہ زیادہ رکھیں ۔ دوستی وغیرہ کو بھول جائیں۔ بھارت سے ہماری دوستی کبھی نہیں ہو سکتی۔ صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی حکمت عمل ایسی رکھیں کہ بھارت کو اپنی ہی پڑی رہے۔ ضیاء الحق نے جہاں بھارت کے حوالے سے خارجہ حکمت عملی کو چھوڑا تھا‘ ہماری سول حکومتوں نے اس خارجہ حکمت عملی کوترک کر کے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے اور ان کے اس اقدام سے بھارت کو بہت فائدہ ہوا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو جو نصیحتیں کی تھیں وہ My Dearest daughterکے نام سے شائع ہوئی تھیں۔ انہوں نے بھارت کے حوالے سے بیٹی کو نصیحت کی تھی کہ سکھوں کی آزادی کے مسئلے کو کبھی بڑھاوا مت دینا۔ بھٹو کا غالباً یہ خیال تھا کہ خالصتان کی آزادی کی تحریک اگر پھیل گئی تو پاکستان کے کچھ
حصے بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں‘ لیکن ضیاء الحق کی خارجہ حکمت عملی کا مقصد آزاد خالصتان بنوانا ہرگز نہیں تھا۔ انہوں نے تو بھارت کو مسلسل دبائو میں رکھنے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی کو اس کام پر لگایا ہوا تھا۔ بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں ضیاء الحق کی اس پالیسی کو ترک کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کو سکھوں کی اس تحریک کو کچلنے کا موقع مل گیا۔
پاکستان کی طرف سے خارجہ حکمت عملی کی یہ بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ اگر خالصتان کی تحریک جاری رہتی اور ساتھ ہی کشمیر میں بھی جو تحریک 1989ء میں شروع ہوئی وہ بھی جاری رہتی تو بھارت پر ناقابل برداشت دبائو آ جانا تھا۔
آج کل بھارت آئے دن ہم پر دبائو ڈالنے کے لیے جو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتا رہتا ہے‘ دراصل یہ اس کی ویسی ہی حکمت عملی ہے جیسی ضیاء الحق نے اپنے دور میں بھارت کے خلاف جاری کر رکھی تھی۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات اور دوستی کی حکمت عملی سے ہمیں سوائے دبائو کے اور کچھ نہیں ملنے والا۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کس طرح وہ دوبارہ بھارت کو دبائو میں لا سکتے ہیں۔ پھر اسی سوچ کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا چاہیے۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ہماری سول حکومت ایسا کر پائے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت دے گا کیونکہ ہونا تو یہی ہے مگر کون کرے گا اور یہ کب ہو گا؟ آئیے اس کا انتظار کریں۔