تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     13-07-2015

افغانستان کے بارے میں سوچیں!

افغان طالبان اور افغان حکومت کو مری میں ایک میز پر بٹھا دینا پاکستان کی اتنی بڑی کامیابی ہے جس پر پوری دنیا ہماری تعریف میں رطب اللسان ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے یہ مذاکرات اگرچہ ابتدائی نوعیت کی ہیں ، ان میں ٹھوس تجاویز کا تبادلہ بھی نہیں ہوا اور ان کی اگلی تاریخ بھی طے نہیںکی گئی لیکن جس طرح افغانستان، امریکہ اور چین میں ان کی پذیرائی ہورہی ہے، اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ا ن کے نزدیک یہ آغاز ہی سب کچھ ہے۔ ان مذاکرات کے حوالے سے امریکہ میں تو امیدوں کا عالم یہ ہے کہ نئے جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اپنی باقاعدہ تقرری سے پہلے ہی امریکی سینیٹ کے سامنے اس کو پاکستان کی طرف سے ایک بڑا قدم قرار دیتے ہوئے انہیں خطے کے امن کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھی ایک باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعے پاکستان کی ستائش کی جبکہ سیکرٹری جنرل بانکی مون پہلے ہی اس کی تعریف کر چکے ہیں۔افغانستان میں جوش و ولولے کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں انہیں ''مری امن عمل‘‘ کا نام دینے کی خبر بھی نمایا ں انداز میں شائع کی جاتی ہے۔ افغان حکومت اور میڈیا جو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے، اس معاملے پر یکسو ہے کہ پاکستان نے افغان حکومت کوطالبان کے ساتھ بٹھا کر ان پر ایک بڑا حسان کیا ہے۔ مری امن عمل پر افغانستان اور امریکہ کا ردعمل توجوش سے عبارت ہے، اس کے 
برعکس پاکستانی وزارت خارجہ حقیقت پسندانہ انداز میں اس معاملے پر نپے تلے انداز میں بات کرنے پر اکتفا کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آغاز پر افغانستان اور امریکہ بغلیں بجا رہے ہیں ،پاکستان اس سے کوئی بڑی امید وابستہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے بھی متحارب فریقوں کو میز پر بٹھانے والے ملک بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے بلکہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان ماضی میں بھی افغانستان کے سیاسی معاملات کو سلجھانے میں کردار ادا کرتا رہا ہے ، فرق اتنا ہے کہ اس بار پاکستانی سفارتکار یہ کام زیادہ مہارت اور سلیقے سے کررہے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس مہارت اور سلیقے کے پیچھے چینی دانش کارفرما ہے یا امریکی اثرو رسوخ، بہرحال جو بھی ہے ہماری وزارت خارجہ کسی نہ کسی حدتک ضرور داد کی مستحق قرار پاتی ہے۔ 
اب تک کی دستیاب اطلاعات کے مطابق پاکستان ''مری امن عمل‘‘ میں میزبانی سے زیادہ کچھ نہیں کررہا بلکہ چین اور امریکہ کو موقع دے رہا ہے کہ افغانستان میں امن کی صورت گری میں اپنا کردار ادا کریں۔خاموش رہنے کی یہ حکمت عملی غالباََ اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ کل کو اگر افغان طالبان یا افغان حکومت کسی وجہ سے ان مذاکرات کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس کی ذمہ داری پاکستان پر نہ 
آئے۔ ابتدائی طور پر تو یہ طرزِ عمل درست ہے لیکن مذاکرات کا یہ سلسلہ رواں رہنے کی صورت میں پاکستان کو اپنی حکمت ِ عملی بدلنا ہوگی کیونکہ افغانستان کے معاملے میں ہم سوئٹزر لینڈ جیسا غیرجانبدارانہ رویہ اختیار کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کو بتانا ہوگا کہ افغانستان میں ہمارے بھی کچھ مفادات ہیں جن کا تحفظ مذاکرات کے تمام شرکاء کو کرنا ہوگا۔ اگر پاکستانی تحفظات کو نظر انداز کرنے کا کوئی تاثر ان مذاکرات میں ابھرتا ہے تو پھر ہمیں اپنے کردار پر نظر ثانی بھی کرنا پڑے گی اور ممکن ہے کہ امن کے لیے شروع ہونے والی بات چیت مزید کشیدگی پرمنتج ہو۔ اپنے دوستوں خاص طور پر چین اور امریکہ کو ان مفادات پر اعتماد میں لینا اس مرحلے پر ازحد ضروری ہے تاکہ وہ کسی بھی آخری حل میں ہمیں نظر انداز نہ کر سکیں۔
چین اور امریکہ کو اعتماد میں لینے سے پہلے ہمیں خود بھی یہ سمجھنا ہے کہ افغانستان میں ہمارے کون سے کم ازکم مفادات ہیں جن کے تحفظ کے لیے ہم ہر حد تک جائیں گے اورایسی دلچسپیاں کیا ہیں جن پر بات چیت کے ذریعے جو کچھ مل گیا ہمارے لیے کافی ہوگا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ''ہم افغانستان میںکیا چاہتے ہیں؟‘‘ کے سوال کے جواب میں وزارت خارجہ سے لے کر ایوانِ وزیر اعظم تک بھانت بھانت کی بولیاں تو سنائی دیتی ہیں لیکن واضح پاکستانی مؤقف سامنے نہیں آتا۔ وزارت خارجہ سے پوچھیں تو ''آزاد، خودمختار، پر امن اور جمہوری افغانستان‘‘ کا رٹا رٹایا جواب مل جاتا ہے۔ فوج سے پوچھیں تو آہستگی سے وزارت خارجہ کے بیان کردہ چار عناصر میں ''دوست حکومت کے قیام‘‘ کا معاملہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔دونوں طرف سے ملنے والے جواب کو ملا لیں تو پاکستان کی افغان پالیسی'' آزاد ،خودمختار، پر امن، جمہوری اور دوست افغانستان‘‘ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ پانچ الفاظ پر مبنی یہ پالیسی بظاہر تو بڑی اچھی لگتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پانچ الفاظ افغانستان کے معاملات پر ہمارے ذہنی افلاس کا مظہر ہیںکیونکہ یہ پنج لفظی پالیسی تو ہم جنوبی افریقہ، گھانا اور زمبابوے جیسے دور دراز ملکوںکے لیے بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے بطور ریاست اپنے ایک پڑوسی کے بارے میں کوئی متعین پالیسی بنا ہی نہیں رکھی۔ اسٹریٹیجک گہرائی کی پالیسی کو ناقدین خواہ کتناہی برا بھلا کیوں نہ کہیں وہ کم سے کم ایک واضح لائحہ عمل تو مہیا کرتی تھی۔ جب حالات بدلے اور یہ پالیسی کارگر نہ ہوئی تو ہم نے نئے مقاصد کی تشکیل کی بجائے خود کو واقعات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے منہ میں روئی ٹھونس کرطالبان اور افغان حکومت کو چائے پانی پلانے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ 
گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران اسٹریٹیجک گہرائی کی پالیسی کی اتنی مذمت ہوچکی ہے کہ اب اسے کسی گفتگو کا موضوع بھی بنایا جائے تو ایک انبوہِ دانشوراں اس کو بے جا تنقید کی سان پر چڑھا لیتا ہے ۔ یہ حقیقت بڑی سہولت سے نظر انداز کردی جاتی ہے کہ افغانستان کی ہر دکان میں جو مال پڑا ہے وہ پاکستان میں بنا ہے یا یہاں سے گزر کر وہاں پہنچا ہے۔ اگر کسی کو اسٹریٹیجک گہرائی کی ترکیب سے اختلاف ہے تو اس کو بدل کر معاشی گہرائی یعنی Economic Depth کہہ لیں لیکن افغان پالیسی کی تشکیل نو کے لیے مکالمے کا آغاز یہیں سے کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اسٹریٹیجک گہرائی مسترد ہوجائے لیکن اغلب امکان یہی ہے کہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر اور حتٰی کہ افغانستان بھی اس پالیسی کی افادیت تسلیم کرلیں ۔ خیر یہ موقع تو اس وقت آئے گا جب حکومت پیش قدمی کرکے کسی ڈائیلاگ کا اہتمام کرے گی ، لیکن یہ طے ہے اب حکومت ، پارلیمنٹ اور فوج کو مل بیٹھ کر کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved