تین عشرے قبل کا یہ واقعہ میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔ آزاد کشمیر کے ایوان صدر میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ تبادلہ خیال کی نشست میں سابق صدر و وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ایچ خورشید (اس وقت قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے) کا ذکر چلا۔ خورشید صاحب سردار صاحب کے سخت ترین ناقد تھے اور لبریشن لیگ کے سربراہ کے طور پر ''کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ نعرے کے مخالف۔ ایون کے اندر اور باہر سردار صاحب کے خوب لتّے لیا کرتے۔
ایک مقامی صحافی نے پہلے تو خورشید صاحب کے نظریات پر تنقید کی اور اسے قائد اعظم کے علاوہ قائد کشمیر چودھری غلام عباس مرحوم کے تصورات سے انحراف قرار دیا پھر ایک واقعہ بیان کرکے ‘کے ایچ خورشید کی مالی دیانت پر انگلی اٹھائی۔ سردار عبدالقیوم پھٹ پڑے ''بند کریں اپنا یہ بھاشن۔ خورشید صاحب میرے مخالف ہیں اور میں ان کے نظریات کو تحریک آزادی کشمیر کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہوں مگر ان کی مالی دیانت اور حب الوطنی ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر میں ان کی دیانتداری کی قسم کھا سکتا ہوں‘‘ محفل پر سناٹا چھا گیا۔
تھوڑی دیر بعد سعود ساحر صاحب نے اس سکوت کو توڑا اور کہا ''سردار صاحب !مگر خورشید صاحب تو آپ کو معاف نہیں کرتے‘‘۔ سردار صاحب بولے''یہ ان کی مرضی‘‘ جب ذرا ‘ ماحول خوشگوار ہوا تو سردار صاحب نے اپنے اس دیرینہ ساتھی اور صحافتی حوالے سے مسلم کانفرنس کے بھر پور حمایتی سے کہا''کسی شخص کی اصل آزمائش یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے بارے میں دیانتدارانہ رائے دینے کا اہل ہے یا نہیں؟ قرآن مجید میں اسی بنا پر فرمایا گیا کہ کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی اور عدل شکنی پر آمادہ نہ کر دے۔ میں اگر اپنے ایک سیاسی مخالف کے بارے میں دیانتدارانہ رائے دے یا سن نہیں سکتا تو میں انسان کہلانے کا حقدار نہیں‘‘
ایک روز قبل میں خورشید صاحب سے سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں مل چکا تھا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے سردار عبدالقیوم خان کے بارے میں جو کچھ کہا تھا‘ ان کی شخصیت‘ انداز فکر اور سیاسی جدوجہد پر جو رائے زنی کی تھی وہ میرے ذہن سے کافور ہو گئی۔ خورشید صاحب کی مالیاتی دیانت کے بارے میں سردار صاحب کی رائے سو فیصد درست تھی ۔قائد کا سیکرٹری‘ آزاد کشمیر کا سابق صدر‘ وزیر اعظم اور پاکستان کا کامیاب وکیل گوجرانوالہ کے قریب ویگن کے ایک حادثے میں فوت ہوا جبکہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے ٹٹ پونجئے وکیل بھی ویگن میں سفر کرنے کو خلاف شان سمجھتے ہیں۔
سردار عبدالقیوم کی سیاست پاکستان میں ہمیشہ متنازع رہی ۔ آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کا بار بار اقتدار میں آنا اور سردار عبدالقیوم خان کا کبھی صدر‘ کبھی وزیر اعظم بننا اسلام آباد کی مقتدر قوتوں کی نظر کرم کا کرشمہ قرار دیا گیا مگر جب ایک بار سردار قیوم کے بدترین مخالف اور تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل سردار محمد ابراہیم خان سے پوچھا تو انہوں نے کچھ اور بتایا۔ یہ 1980ء کے عشرے کی بات ہے جب سردار عبدالقیوم خان صدر تھے اور وزارت عظمیٰ کا منصب انہوں نے سردار سکندر حیات کو سونپ رکھا تھا ‘میں کے ایچ خورشید‘ چودھری سلطان محمود ‘ بریگیڈیئر حیات اور حکومت کے دیگر مخالفین سے ملاقاتوں اور انٹرویوز کے بعد سردار ابراہیم سے ملا تو گپ شپ کے دوران انہیںسر برآوردہ کشمیری رہنمائوں کی رائے سے آگاہ کیا کہ سکندر حیات خان اور ان کے وزیروں مشیروں کی ناقص کار گزاری کی بنا پر اگلے الیکشن میں مسلم کانفرنس کا صفایا ہو جائیگا۔
سردار محمد ابراہیم خان نے روایتی انداز میں زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ''خواہش میری بھی یہی ہے مگر جب تک سردار قیوم زندہ ہے ہم ووٹ کے ذریعے مسلم کانفرنس کا صفایا نہیں کر سکتے‘‘ میں نے پوچھا سردار صاحب ؟وہ کیوں؟ بولے یہ جن ہے۔ جب حکومت کی میعاد ختم ہو گی یہ گھر سے نکلے گا۔ رابطہ عوام کی مہم میں دن رات ایک کر دیگا۔ یہ گفتگو میں اپنے سیاسی کارکنوں پر جادو کر دیتا ہے۔ ووٹر اس پر مرمٹتے ہیں اور ساری غلطیاں کوتاہیاں معاف کر کے ایک بار پھر مسلم کانفرنس کو ووٹ دینے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مشکل پسند یہ بہت ہے ۔اینٹ سرہانے رکھ کر اسے زمین پر لیٹنے میں عار نہیں اور یہ کسی غریب سے غریب کارکن کے گھر میں بھی چٹائی پر بیٹھ کر روکھی سوکھی کھا لیتا ہے۔ بھلا اسے سیاسی مات دینا آسان ہے؟ میں نہیں مانتا۔ میں نے ایک موقع پر سردار ابراہیم کی اس رائے سے سردار صاحب کو آگاہ کیا تو بولے یہ سردار صاحب کا بڑا پن ہے اور کارکنوں کی محبت ورنہ من آنم کہ من دانم
ستمبر 1999ء کے اواخر میں جب میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے منصب سے الگ کر کے جنرل ضیاء الدین کو فوج کا سپہ سالار بنانے کا ذہن بنا چکے تھے تو میاں محمد شریف مرحوم اپنے دونوں صاحبزادگان‘ دو تین وفاقی وزیروں اور سردار عبدالقیوم کو لے کر بزرگ صحافی مجید نظامی صاحب کے گھر پہنچے اور مشورہ مانگا۔ نظامی صاحب نے انہیں ایک اور آرمی چیف سے پنگا نہ لینے کا مشورہ دیا اور میاں نواز شریف سے کہا کہ آخر آپ کی کسی آرمی چیف اور چیف جسٹس سے بنتی کیوں نہیں؟۔ سردار عبدالقیوم ‘نظامی صاحب کے دلائل سن کر میاں صاحب سے کہنے لگے کہ ان کا مشورہ صائب ہے آپ یہ مہم جوئی نہ کریں۔ بعدازاں سردار صاحب نے مجھے بتایا کہ میں شریف برادران کے وکیل کی حیثیت سے میسن روڈ گیا تھا مگر نظامی مرحوم کی بات معقول اور وزیر اعظم کی شکایت بے وزن لگی اس لیے میں نے اپنی رائے تبدیلی کر لی۔ میاں صاحب اپنے فیصلہ پر ڈٹے رہے اور وزارت عظمیٰ کے علاوہ جمہوریت کی قربانی دے کر ٹلے۔
سردار عبدالقیوم پاکستان اور آزاد کشمیر کے دیانتدار‘ صائب الرائے ‘ تحریک پاکستان اور آزادی کشمیر کے مقاصد و نظریات سے واقف اور قومی نقطہ نظر سے سوچنے والے سیاستدانوں کے قبیلے کے آخری فرد تھے۔ جنہیں پاکستان اور آزادیٔ کشمیر کے لیے دی گئی قربانیوں کا احساس تھا اور دو قومی نظریے کی صداقت پر کامل یقین۔ وہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے تھے اور زندگی بھر کشمیرکی نوجوان نسل کو ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کادرس دیتے رہے ۔اکثر کہا کرتے کہ پاکستان کے سوا کشمیریوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ۔
سردار صاحب عملی سیاست سے برسوں قبل ریٹائر ہو گئے تھے۔ انہوں نے آزادی کشمیر کے ایک نمایاں کردار سردار فتح محمد خان کریلوی کے صاحبزادے سردار سکندر حیات خان کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کیا اور دو تین بار وزیر اعظم بنوایا مگر ان کی سردار صاحب کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان سے نہ بن پائی اور بالآخر سردار عبدالقیوم خان کے سیاسی و خاندانی جانشین کی لڑائی مسلم کانفرنس کی تقسیم کا باعث بنی۔ سردار صاحب پاکستان کے علاوہ پاکستانی فوج کے حوالے سے انتہائی حساس اور جذباتی تھے اور کسی قیمت پر پاکستان یا فوج سے تلخی یا تصادم کے حق میں نہ تھے۔
1970ء کے عشرے میں جب قائد عوام بھٹو صاحب نے آزادکشمیر پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی اور کشمیری عوام کے منتخب وزیر اعظم کو کوہالہ کے پل پر روک کر اپنے دارالحکومت مظفر آباد میں داخلے سے منع کر دیا تو سردار صاحب نے تصادم سے گریز کیا۔ وگرنہ یہاں کسی بدعنوان فرنٹ مین کی گرفتاری پر بھی مقبول سیاسی پارٹیوں کے رہنما آپے سے باہر ہو کر پاکستان اور فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے پرتُل جاتے ہیں۔ میاں صاحب سے ذاتی اور سیاسی تعلق ٹوٹنے کی اہم ترین وجہ یہ تھی کہ سردار صاحب 1999ء میں میاں صاحب اور فوج کے سربراہ کے مابین تصادم کے حق میں نہ تھے اور پاکستان کی بانی جماعت اور قائد اعظم کے جانشین و پیروکار کسی سیاسی رہنما سے یہ توقع ہرگز نہ کرتے تھے کہ وہ فوجی قیادت کو اپنا سیاسی حریف سمجھنا شروع کر دے۔ جس پر انہیں پرویز مشرف کا ساتھی اور اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار قرار دے کر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) قائم کی گئی۔ پرویز مشرف کے کئی ساتھی مسلم لیگ (ن) میں واپس آ چکے مگر سردار عبدالقیوم خان اور سردار عتیق احمد خان کا یہ جرم کبھی معاف نہ ہو ا۔
جس وقت کشمیری نژاد وزیر اعظم پاکستان‘ نریندر مودی کا بھاشن سن رہے تھے سردار قیوم نے ہمیشہ کے لیے اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ ویسے بھی اب ان کی سننے والا کون تھا۔ سردار عتیق احمد خان کو اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے وہ اپنے باپ‘ مربیّ اور ذہین و تجربہ کار اتالیق سے محروم ہو گئے اور آزاد کشمیر کے عوام اپنے ایک ایسے رہنما سے جو ہمیشہ ان کے لیے جیا‘ انہی کے لیے ایوب خان‘ بھٹو اور پاکستان کے دیگر حکمرانوں سے لڑتا رہا اور آخر میں اسے اپنے ہی ساتھیوں اور پیروکاروں سے بھی لڑائی مول لینا پڑی جو مسلم کانفرنس کی تقسیم پر تل گئے تھے۔ مسلم کانفرنس کی تقسیم سے کشمیری عوام اور ان رہنمائوں کو کیا ملا؟ چودھری عبدالمجید ؎
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنئے گا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دُھنیے گا