تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-07-2015

اللہ کی گرفت سے کون بچ سکتاہے ؟

الطاف حسین عسکری قیادت کی زد میں نہیں ۔ نواز لیگ او رپیپلزپارٹی یا تحریکِ انصاف ان کے درپے نہیں ۔ وہ اللہ کی گرفت میں ہیں اور اللہ کی گرفت سے کون بچ سکتا ہے ؟ 
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے 
حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آذری 
وہ ایک مغالطہ ، عقل انسانی کے فیصلہ کن ہونے کا مغالطہ، جس کا مبتلا عمر بھر اپنی راہوں میں کانٹے اگاتا اور انہیں پھول سمجھتا رہتاہے۔ انسانی جبلتوں کا تعامل (Interaction of human instincts)، دوسرے الفاظ میں ترجیحات طے کرنے کا ذہنی عمل کیا ہے ؟ یہ انسانی تاریخ کے مشکل ترین سوالات میں ایک ہے ۔ فقط انبیاؑ او رجلیل القدر اولیا ہی اس پر قادر تھے کہ انسانی ذہن کی تمام پیچیدگیوں کو سمجھ سکیں ۔ گزشتہ تین صدیوں میں مغرب میں نفسیات پر بہت کام ہوا ہے ۔ اس موضوع پر ممتاز ماہرین کی بے شمار رپورٹیں ، تجزیے اور مضامین اس ناچیز نے پڑھے کہ پریشان فکری سے کیونکر بچا جا سکتاہے ۔ بہت سے تخلیقی نکات مگر ایک بنیادی حقیقت سے مغرب بے خبر ہے ۔ مشرق کی وہ سرزمینیں بھی، رحمتہ اللعالمینؐ کے نور سے جو فیض نہ پا سکیں ۔ یہ کہ اللہ کے سامنے جوابدہی کا اگر احساس نہ ہو تو آدمی اپنی شخصیت میں بالیدگی اور آہنگ پیدا نہیں کر سکتا ۔ قرآنِ کریم بہت سادہ الفاظ میں اس حقیقت کو بیان کرتاہے : الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ یاد رکھو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں ۔
ایک کتاب کا دنیا بھر میں چرچا تھا۔ The importance of living (جینے کی اہمیت)۔ ایک چینی دانشور لِن یوتانگ اس کے مصنف تھے ۔ بڑی کتاب وہ ہوتی ہے ، جوآپ کے جمے 
جمائے نظریات تہہ و بالا کردے ۔ پہلے سے چلے آتے جہان کو مسمار او رایک نیا جہان پیدا کرنے کی آرزو جنم دے ۔ چالیس برس پہلے یہ کتاب پڑھی تو ایک عجیب کیفیت بہت دن طاری رہی ۔ ایسا کیف او رایسا اضطراب صرف اقبال، دستو فسکی اور گورکی کو پڑھتے ہوئے پیدا ہوا تھا۔اس آدمی کا انجام یہ تھا کہ کمیونسٹ چین سے جلاوطنی نے اسے توڑ ڈالا۔ آخری برسوں میں اگرچہ سنگا پور یونیورسٹی کا وہ وائس چانسلر رہا مگر آخری ایام اس نے شدید ڈپریشن میں بسر کیے اور خود کشی کر لی۔اقبالؔ محض ایک شاعر تو نہیں ، ایک عظیم مفکر بلکہ علمی مجدد ہے ۔ کمال گرفت اور کمال بے باکی سے ان موضوعات پر اس نے بات کی ہے ، بڑے سے بڑا شاعر بھی جس کو چھوتے ہوئے ڈرتا تھا۔ شیکسپیئر کی طرح جو اساطیری کرداروں اور کہانیوں کے آئینے میں آدم زاد کی نفسیاتی پیچیدگیاں اجاگر کرتاہے ، دستو فسکی اور گورکی اپنے عصر کو بیان کرتے ہیں لیکن درحقیقت زندگی کو ۔ یہ طے کرنا مشکل ہو جاتاہے کہ گورکی بڑا فنکار ہے یا دستو فسکی ۔ شیکسپیئر کے بارے میں اقبالؔ نے کہاتھا‘لیکن ہر عظیم لکھنے والے پہ صادق آتاہے 
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا 
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
اب یاد نہیں آتا ، یہ جملہ کس نے کہاتھا : Every word of a writer is an act of generosity۔ لکھنے والے کا ہر لفظ سخاوت کا مظہر ہے ۔ 
کچھ ادب پڑھتے ہیں ، کچھ نفسیات ، بعض دینیات او ربعض تاریخ میں دل لگاتے ہیں ۔ عارف کا کہنا ہے کہ سبھی کچھ بلکہ اس کے سوا بھی ۔ فلکیات ، کچھ تھوڑی سی اقتصادیات ، فزکس او رکیمسٹری بھی ۔وہ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کا حوالہ دیتے ہیں : ہر علم میں سے اتنا توحاصل کرلوکہ خدا کو پہچان سکو۔ یہ کائنات کیا ہے ؟ زندگی کیا ہے ؟ آدم زاد اس میں کب وارد ہوا اور انسان ہے کیا؟ خود اس پروردگار کی ہستی کیا ہے، جس نے ایک ناقابلِ یقین او رخیرہ کن تنوع میں ہزار جہات کی زندگی کو جنم دیا۔ 
ایک دوست ہے ، کامیاب و کامران ، مشرق و مغرب میں کامیابیوں کے جھنڈے اس نے گاڑے ہیں ۔ وجیہ او رخوش لباس ۔ صاحبِ مطالعہ اور کامیا ب کاروباری ۔ دنیاکی بہترین یونیورسٹیوں کا تعلیم یافتہ ۔ ایک معزز خاندان کا فرد۔ ایک دن اچانک اس نے کہا: میں دعا پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کا خیال شاید یہ ہو کہ میں اس سے بحث کروں گا۔ ممکن ہے لاشعور میں یہ خیال بھی کارفرما ہو کہ اس کی ریاضت کیش، جگمگاتی زندگی پر ایک ذرا سی داد اسے دوں گا۔ صرف اتنا کہا: کوئی بھی جاہل دعا پر یقین نہیں رکھتا۔ کوئی بھی احمق خدا کو نہیں مانتا، جسے خود فریبی نے آلیا ہو ۔ انسان ایسا ہی جاہل ہے ، الّا یہ کہ دیانت کے ساتھ ذہن کے دریچے کھول دے‘ اس لیے کہ صداقت کا ادراک اس کے بغیر ممکن نہیں ۔ 
صدمے سے اس کی بری حالت تھی ۔ اس نے کہا: تو تم مجھے جاہل سمجھتے ہو؟ عرض کیا : جاہل نہیں ، ریاکار اور ہونق بھی ۔ اس سوال کا جواب تلاش کیے بغیر ، جس نے زندگی بسر کر دی کہ کیا اس کائنا ت کاکوئی خالق ہے ، وہ اگر پرلے درجے کا احمق نہیں تو اور کیا ہے ؟ 
ارادہ یہ تھا کہ تازہ ترین واقعات کے پسِ منظرمیں الطاف حسین کی شخصیت پہ کچھ لکھا جائے ۔ اس اندازِ فکر پہ ، اپنے چاہنے والوں میں جس کو انہوں نے فروغ دیاہے ۔ بات کہیں دور نکل گئی ۔ اب میں سوچتا ہوں ، اس موضوع سے ذہن گریز کرتا ہے۔ بعض حقائق البتہ آشکار ہیں ۔ لیاقت علی خان کے بعد اردو بولنے والوں کا کردار بتدریج کم ہوتا چلا گیا ، تحریکِ پاکستان میں جن کا کردار زیادہ تھا۔ آزادی کے بعد سرکاری ادارے چلانے میں بھی ۔ ان کے حقوق کا احترام نہ کیا گیا کہ سیاسی طور پر وہ کمزور تھے۔ پھر ان کا مذاق اڑایاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ممتاز بھٹو سمیت سندھی جاگیرداروں نے تو انتہا کر دی ۔ اس پہ ردّعمل پھوٹا اور یہ فطری تھا؛اگرچہ انداز غیر فطری۔ نفرت کی دلدل میں سے پھوٹنے والے الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تحریک یکسر منفی اندا زمیں برپا کی ۔ تاریخی شعور سے بے بہرہ ، قدرت کے قوانین سے لا علم ۔ قوت تو انہوں نے حاصل کر لی مگر وہ تو ایک تباہ کن چیز ہوتی ہے ۔ طاقت بدعنوان بناتی ہے اور زیادہ طاقت مکمل طور پر بد عنوان ۔ 
مطالبات ان کے جائز تھے مگر انہیں بھول کر وہ انتقام کی لذت کے عادی ہو گئے ۔ کراچی اور حیدر آباد کے شرفا دبک گئے ۔ وہی کیا ، اخلاقی اعتبار سے کمزور پورا معاشرہ ہی ۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی ،بعد میں جنم لینے والی تحریکِ انصاف بھی ۔ سب کے سب ؛حتیٰ کہ افواج اور خفیہ ایجنسیاں بھی ۔ پورے معاشرے نے سزا سہی اور ابھی کچھ دن او رسہے گا؛حتیٰ کہ خدائی قوانین میں سے کچھ قوانین غالب آجائیں ۔ اوّل یہ کہ ہر گروہ کی ایک عمر ہوتی ہے ۔لکل امۃ اجل۔ ثانیاً جس فرد اور معاشرے کو اللہ زندہ رکھنا چاہے ، قصاص کی توفیق اسے عطا کرتاہے ۔ ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب۔ 
دوسرے حقائق کے علاوہ ، الطا ف حسین یہ نہ سمجھ سکے کہ پاکستان قائم رہنے کو بنا ہے ۔ اس کی ایک شاندار تقدیر ہے ۔ اتفاقِ رائے سے مسلم برصغیر نے اس کافیصلہ کیا تھا، جس کے لیے سرکارؐکی بشارت واضح ہے ۔ بت پرست بھارت کے بکھرنے اور خونخوار نسل پرست اسرائیل کی تباہی سے پہلے نہ قیامت آئے گی اورنہ پاکستان ختم ہو گا ۔ لیجیے ایک اور مشکل موضوع چھیڑ دیا۔ اس لیے بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔ 
الطاف حسین عسکری قیادت کی زد میں نہیں ۔ نواز لیگ او رپیپلزپارٹی یا تحریکِ انصاف ان کے درپے نہیں ۔ وہ اللہ کی گرفت میں ہیں اور اللہ کی گرفت سے کون بچ سکتا ہے ؟ 
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے 
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved