سات ارب انسانوں میں لاکھوں ذہین فطین ہوں گے ۔ تھنک ٹینک، دانشور ، ادیب ، اپنے اپنے میدان کے عبقری۔ ارسطو سے آئن سٹائن اور نیوٹن تک ، کس میں اتنی بڑی بات کہنے کی جرأت تھی ۔ جسم سے لے کر روح تک کانپ اٹھتی ہے ''پڑھ اپنے رب کے نام سے ، جس نے پید اکیا... وہ ، جس نے قلم سے تعلیم دی(اس کے نام سے پڑھ )‘‘۔ وہی ہے ہم سب کا پہلا استاد۔عرشِ عظیم کا مالک ۔
ان کتوں کے بارے میں ،جو انسان کے اشارے پر شکار کو گردن سے پکڑ لاتے ہیں ، قرآنِ کریم کہتاہے: ''تم انہیں اس میں سے (کچھ ) سکھاتے ہو ، جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے‘‘ تعلمونھن مما علمکم اللہ۔سورۃ المائدہ: 4۔ اللہ نے انسان کو سکھایا۔ اسے عقل دی ۔ اس میں سے بعض چیزیں ہم کمتر اور سطحی عقل رکھنے والے جانوروں کو سکھاتے اور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ہم انہیں چوکیداری پہ مامور کرتے، ہل چلواتے اور کرتب سکھاتے ہیں ۔ کچھ روز قبل ایک بندر والا تماشہ دکھا رہا تھا۔اس کے کہنے پر وہ دو ٹانگوں پر چلتا ہوا آیا او رباقاعدہ مجھ سے ہاتھ ملایا۔ میں ششدر رہ گیا۔ ایک ایک ادا انسانوں جیسی۔ حیران پریشان میں سوچتا رہ گیا کہ ہم انسانوں کی بجائے اگر بندر کا اوپری دماغ بہتر ہو تا تو کیا آج وہ انسان کا تماشہ دیکھ رہا ہوتا؟ کیا رسی اس کی بجائے ہمارے گلے میں ہوتی ؟ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ انسانی برتری صرف اللہ کا فضل ہے ۔ وہ چاہتا تو یہ فضیلت کسی دوسرے جانور کو سونپ دیتا۔ ہم نے خود کو تخلیق نہیں کیا؛لہٰذا غرور و تکبر کا کوئی جواز ہی نہیں ۔
یہ تو خیر بعد کی باتیں ہیں ۔ آدمؑ و ابلیس پر آجائیے ، فرشتوں کا قصہ سنیے ۔اللہ نے انہیں کہا کہ زمین پر ہزاروں جانوروں میں سے ایک کو میں اپنا نائب بنائوں گا۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں جواب دیا ۔ وہ دیکھتے تھے کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اور غلبے کی جبلّت سے مغلوب ہو کر ان میں سے ہر ایک دوسرے کا خون بہا رہا تھا۔ خلافت ان میں سے کس کو سونپی جائے گی ؟ یہ ان کے وہم و گمان سے بھی باہر تھا۔ادھر خدا فرما رہا تھا: ''میں وہ جانتا ہوں ، جو تم نہیں جانتے‘‘۔
واقعی صرف خدا ہی تو جانتا تھا کہ انسانی دماغ کا اوپر والا حصہ آسمانی عقل سے سرفراز کیا جائے گا۔ یوں دیکھیے تو دل سے لے کر جگر ، گردے اور پھیپھڑوں ، حتیٰ کہ دماغ کے نچلے د وحصوں تک انسان او ردیگر جانوروں میں فرق تو کوئی نہیں ۔ یہ جو اوپر والے دماغ میں اعلیٰ عقل رکھی گئی ہے ، یہ بڑے معرکے کی چیز ہے ۔ یہ نہیں کہ فرشتوں کے مقابل اسما سکھا کر اللہ نے خوامخواہ آدمؑ کو سرفراز کیا۔ پہلے انہیں وہ صلاحیت دی، جو فرشتوں کے پاس نہیں تھی ۔ پھر تعلیم دی اور فرشتوں کے مقابل کیا۔ آدمؑ کا دماغ ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ان سب سے جدا تھی ۔وہ سب سے بڑے استاد سے براہِ راست تعلیم
یافتہ تھے ۔ تو فرشتے شکست سے دوچار ہوئے ۔ یہاں خدا کی یہ با ت ثابت ہوگئی ''میں وہ جانتا ہوں ، جو تم نہیں جانتے‘‘ ۔ تمہیں اس مخلوق کے بارے میں کیا علم۔ تم اسے دوسرے جانوروں کی طرح محض خون بہانے والا سمجھ رہے ہو۔ ہاں ، ان میں درندے بھی ہوں گے لیکن انہی میں میرے مقرب بندے ہوں گے ‘ جو اپنی خواہش کے مقابل ہدایت کو ترجیح دیں گے ۔ جبلّت کو پالتو بنائیں گے اور عقل کی راہ چلیں گے۔ ان میں میری براہِ راست راہنمائی والے پیغمبرانِ عظامؑ ہی نہیں ، جناب جنیدِ بغدادؒ سے لے کر شیخ علی بن عثما ن ہجویریؒ جیسے اساتذہ ہوں گے ۔
ہم محض اس بات پہ یقین رکھتے ہیں ، جو عقل کی کسوٹی پر پوری اترے اور یہ عقل حواسِ خمسہ تک محدود ہے ۔ وہ صرف اسی پر یقین کرتی ہے ، جسے وہ ہزاروں برسوں سے دیکھتی چلی آرہی ہے ۔ خدا کے منکر اعتراض کیا کرتے : کیا جب ہم مر جائیں گے ، ہماری ہڈیاں خاک ہو جائیں گی تو پھر ہم زندہ کیے جائیں گے ؟ ظاہر ہے کہ جسامت سے قطع نظر، ہڈی تو سب کی ایک ہی جیسی ہوتی ہے ۔ یہاں خدا وہ بات کہتاہے ، جو صرف اس زمانے کے انسان ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ سورۃ القیامۃ کی آیت تین اور چار میں اللہ کہتاہے : کیا انسان یہ خیال رکھتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کر یں گے ؟ کیوں نہیں ، ہم تو اس پر بھی قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کر دیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے سات ارب انسانوں میں سے کسی دو کی انگلیوں کے نشان (Finger Print) ایک جیسے نہیں ۔ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کی جانچ پڑتال کے لیے انگوٹھے کے نشان کو بڑی اہمیت دی جا رہی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ناقص سیاہی کے استعمال سے اکثر ناقابلِ شناخت ہیں ۔ بہرحال یہ آیت پندرہ صدیاں قبل نازل ہوئی تھی ، جب یہ بات انسان کے وہم و گمان سے بھی باہر تھی کہ ہر ایک کی انگلیوں کے نشان منفرد ہیں ۔ وہ اس کے جرائم تک رسائی میں مددگار ہو سکتے ہیں ۔ہمیں جرائم کی تفتیش میں فنگر پرنٹ سے مدد لیتے ہوئے ابھی محض سو سال ہوئے ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہ آیت بڑی وسعت رکھتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو انگلیوں کے نشان دوبارہ پیدا کرے گا، وہ ان سے گناہوں اور جرائم تک رسائی بھی حاصل کرے گا۔
ہم زندگی کو پیدائش کے بعد مرتا ہوا دیکھتے ہیں ۔ وہ کہتاہے کہ پہلے بھی تم مردہ تھے، میں نے تمہیں زندگی دی ‘ پھر میں تمہیں ماروں گا، پھر زندہ کروں گا۔ کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ۔البقرۃ: 28۔ انسان ہی نہیں ، رنگا رنگ زندگی سے سرشار یہ زمین بھی ایک دن اجڑ کے رہ جائے گی ۔ سیّارۂ ارض تباہ و برباد ہو جائے گا۔ ڈاکٹر رابعہ درانی نے کہا تھا:
کتنا رنگیں ترا دل نشیں پیر ہن
کیا ستم ہے کہ یہ رنگ اجڑ جائیں گے
ایک وقت تھا کہ خدا کی توجہ کرّۂ ارض پہ مرکوز تھی۔ اسے تشکیل دینے کے بعد وہ یہاں زندگی کے اسباب مہیا کر رہا تھا۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا۔ ثم استویٰ الی السماء فسو ھن سبع سموت وھو بکل شیٔ علیم۔ وہی تو ہے ، جس نے تمہارے لیے زمین میں سب کچھ پید اکیا (سارے وسائل پیدا کیے )۔ پھر وہ آسمان کی طرف بلند ہوا اور سات آسمان درست فرمادیے ۔اور وہ ہر شے کا علم رکھتاہے ۔ایک روز یہ سب کچھ تباہ ہوگا۔ پھر ہم انسان ، جواب دہ انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے ۔ جس عقل سے ہم دنیاوی ترقی کی منازل طے کیا کرتے ، اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ زندگی کے بنیادی سوال کا جواب ڈھونڈ پائی یا ادنیٰ ترجیحات میں مگن رہی ۔ جس نے اس روز من ربک اور من رسولک کا جواب دے دیا، وہ سرفراز، باقی اپنی ''کامیابیوں‘‘ کے ساتھ جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔