تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     16-07-2015

ہم کیا کر رہے ہیں؟

مجھے اپنی زندگی میں دو لوگوں نے بہت انسپائر کیا ہے۔ایک محمد صادق اور دوسرے ڈاکٹر امجد ثاقب۔ چودھری محمد صادق نے اپنی زندگی تعلیم کے لئے وقف کی ہوئی ہے اور امجد ثاقب غریبوں کو خودداری کے جذبے سے آشنا کرنے میں لگے ہیں۔
چودھری صادق نواں پنڈ کے رہائشی ہیں۔ گائوں کا اصل نام قلعہ سردار جھنڈا سنگھ ہے اور یہ گوجرانوالہ سے نوکلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ قیا م پاکستان سے قبل یہ گائوں ایک سکھ جھنڈا سنگھ کی ملکیت تھا اور گاؤں کے لوگ اس کی زمین پر کھیتی باڑی کرتے تھے۔ قیا م پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والوں نے زمینیں اپنے نام الاٹ کر الیں یوں گاؤں کے لوگ مزارعے رہے نہ مالک۔ یہاں ذرائع آمد ن محنت مزدوری کے سوا کچھ نہیں۔ غر بت کا یہ عالم ہے گرمیو ں کی چھٹیوں میں بچے اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں میں مونجی کی پنیری لگاتے ہیں اور صبح سے شام تک کی جان لیوا محنت کا صلہ اڑھائی تین سو سے زیادہ نہیں ملتا اور جب گندم کی کٹائی کا وقت آتا ہے تو یہ بچے والدین کے ساتھ گندم کی فصل کاٹتے ہیں تاکہ سال بھر کیلئے آٹے کا بندوبست ہو سکے۔ کچھ لوگ جاگیرداروں کے ڈیروں پر مع فیملی دن رات کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بیٹیوں کی شادی کیلئے جاگیردار سے قرض لیتے ہیں اور پھر عمر بھر ملازمت کر کے وہ قرض چکاتے رہتے ہیں۔ ایسے مجبور دیہاتیوں کی دوسری بڑی آزمائش ان کے بچے‘ ان کی اولاد ہوتی 
ہے۔ یہ غلامی نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ان بچوں کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہوتا‘ یہ غلامی کی زنجیریں پہن کر پیدا ہوتے ہیں اور انہی زنجیروں کے ساتھ قبر میں اُتر جاتے ہیں۔ سکول‘ کتابیں‘ بستے‘ کاپیاں اور پنسل ان کا خواب ہوتا ہے اور یہ خواب کم ہی پورا ہوتا ہے مگر نو سال قبل یہاں کے دردمند چودھری محمد صادق نے ایسے ہی خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کی وجہ دس سالہ عدنان تھا‘ عدنان ساتھ والے گائوں کے سکول جا رہا تھا کہ درندوں نے اسے قتل کر دیا اور لاش کھیتوں میں پھینک دی‘ اس قتل کے بعد محمد صادق نے حکومتوں کو بہت لکھا کہ اسی گائوں میں کوئی سکول کھل جائے تاکہ بچوں کو پُرخطر راستے سے دوسرے گاؤں نہ جانا پڑے لیکن حکومت نے ایک نہ سنی۔ چودھری صادق خود تو نہ پڑھ سکے لیکن اپنے بچوں کو پڑھا گئے‘ یہ دن کو پانچ پانچ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں اور رات دو بجے تک ایک روزنامے میں کتابت کرتے تھے اور اٹھارہ گھنٹے محنت کے عوض جو کماتے وہ اپنی اولاد کی تعلیم پر لگا دیتے تھے یوں انہوں نے اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا لیکن جب وہ سوچتے کہ گائوں کے بچے کیسے پڑھیں گے اور ان کے گائوں میں ایک بھی سکول نہیں تو انہوں نے نو سال 
قبل گائوں کے گھر کے ذاتی کمرے سے سکول کا آغاز کر دیا۔ مسئلہ اسے چلانے اور بچوں کی کتابوں‘ سٹیشنری اور اساتذہ کی تنخواہوں کا تھا‘ نیت صاف ہو تو مشکلات کی گرہیں کھلتی جاتی ہیں‘ قافلہ چل پڑا‘ لوگ ملتے رہے اور آج یہ سکول 8 کمروں اور تین برآمدوں پر مشتمل دو منزلہ عمارت کی صورت میں کھڑا مسکرا رہا ہے‘ یہ ڈیڑھ سو بچو ں کو مفت تعلیم کی سہولت مہیا کر رہا ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود کمپیوٹر کی پریکٹیکل تعلیم کا انتظام بھی ہے اور قرآن کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے‘ یہاں کل آٹھ خواتین اساتذہ ہیں ‘ یہ ٹیچرز قریبی دیہات سے اُن بچوں کو تعلیم دینے آتی ہیں جنہیں اگر یہ سہولت ان کے گائوں میں میسر نہ ہوتی تو شاید یہ دوسرے گائوں کے سکول جاتے ہوئے قتل کر دیے جاتے یا پھر کسی جاگیردار کے پائوں دبا رہے ہوتے اور یہ سب محمد صادق کی اُس ایک کوشش کی وجہ سے ہوا جسے میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کیا کر رہے ہیں یہ جاننے کے لئے آپ رحمان بی بی‘ رفاقت علی اور محمد انور کو دیکھ لیجئے۔ رحمان بی بی کے شوہر کی وفات ہوئی تو اس کیلئے مسائل اور مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہو گئے۔ اس کے پاس سرمایہ ‘جائیداد‘ بینک بیلنس کچھ بھی نہ تھا۔ بس ایک ہتھیار تھا۔ اسے کروشیا کا کام آتا تھا۔ وہ کپڑوں پر خوبصورت ڈیزائن بنانے کی ماہر تھی۔ وہ اس ہنر کو استعمال میں لا کر زندگی کی گاڑی چلا سکتی تھی لیکن اس کام کیلئے بھی اسے چھوٹی موٹی رقم درکار تھی۔ کسی نے اسے بلا سود قرضے فراہم کرنیوالے ادارے ''اخوت‘‘ کا بتایا تو رحمن بی بی نے قرض کی درخواست دے دی۔ اسے دس ہزار روپیہ قرض مل گیا۔ اس نے ان پیسوں سے کپڑا‘ کروشیا اور اون خریدی‘ خوبصورت چادریں تیار کیں‘ انہیں مارکیٹ میں فروخت کیا اور معقول آمدنی حاصل کی۔ اس نے محلے کی کئی عورتوں کو بھی ساتھ ملا لیا‘ یوں دیگر گھروں میں بھی معاشی حالات بہتر ہونے لگے۔ رفاقت علی کی کہانی بھی عزم و ہمت کی زندہ مثال ہے۔ رفاقت علی جس محلے میں رہتا تھا وہاں ایک شخص نے پستول نکالا اور فائر کھول دیا۔ رفاقت علی قریب سے گزر رہا تھا کہ ایک گولی اس کی ٹانگ میں جا لگی‘ گولی کا زہر پھیل گیا اور ڈاکٹروں نے اس کی ٹانگ کاٹ ڈالی۔ ہسپتال سے فارغ ہوا تو بیروزگاری نے دبوچ لیا۔ اس کے حالات خراب اور بچوں کی تعلیم تک چھوٹ گئی۔ پھر اس نے سنار کا کام سیکھا اور ایک دکان میں ملازم ہو گیا۔ کسی نے اسے اخوت کا بتایا تو اس نے قرض لیا‘ اوزار اور مشین خریدی اور دکان کرائے پر لے لی۔ خدا کے فضل سے کام چل نکلا‘ آمدنی بڑھنے لگی‘ بچے بھی دوبارہ سکول جانے لگے اور گھر کے حالات بھی بہتر ہو گئے۔ اڑسٹھ سالہ محمد انور بھی باہمت شخص ہے۔ یہ گرین ٹائون کا رہائشی ہے۔ چار سال قبل تک وہ خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ پھر اس کے بیٹوں کی شادیاں ہوئیں اور انہوں نے باپ سے حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ وہ محمد انور سے جھگڑتے اور اسے گھر سے نکال دیا۔ وہ سڑکوں پر ٹھوکریں کھانے لگا‘ فٹ پاتھ پر سوتا اور دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو گیا۔ ایک روز کسی کو اس پر رحم آیا تواسے اخوت کے دفتر لے آیا۔ محمد انور کو قرض ملا تو اس نے قسطوں پر موٹرسائیکل خریدلی اور کرائے پر دینے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کا خرچہ نکلنے لگا اور رہنے کا بندوبست بھی ہو گیا۔ آج اس کی دکان میں چار موٹرسائیکلیں ہیں‘ وہ اسی دکان میں سوتا ہے اور اسی سے روزگار چلا رہا ہے۔ 
چودھری محمد صادق اور ڈاکٹر امجد ثاقب تبدیلی کے وہ چراغ ہیں‘ جن کی روشنی سے یہ معاشرہ ناامیدی کے گڑھے میں گرنے سے بچا ہوا ہے۔ یہ لوگ اپنی اپنی ہمت اور کوشش کے مطابق اپنے کام میں مگن ہیں ‘ یہ لوگوں کو بے کاری‘ مایوسی اور بے روزگاری سے بچانے کی تگ و دو میں لگے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved