جب سے علالت کی علت لگی ہے، جس گزرے ہوئے دن کو کھول کے دیکھتا ہوںخالی لفافہ ہی ملتا ہے، حالانکہ ان دنوں بڑی بڑی شہ سرخیوں کے ساتھ‘ اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی ‘ پاکستان واپس آئیں اور اس دورے سے وابستہ بڑی بڑی قیاس آرائیاں اور دھماکے دار انکشافات ہو ئے۔ اپنے مزاج کے عین مطابق ہم طغیانی کی حالت میں تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو مسئلہ کشمیر نئے دلائل کے ساتھ سلامتی کونسل میں اٹھانے کے لئے بریفنگ دی جا ئے گی۔ سارے ٹاک شو‘ پاک بھارت مذاکرات کی طرح ٹکراتی لہروں کا شور تھے۔ آوازیں بہت تھیں‘ پانی وہیں کا وہیں رہتا، بات نہ کہیں سے شروع ہوتی‘ نہ کہیں پر ختم ہوتی۔ بالکل پاک بھارت مذاکرات کی طرح، زوروشور خوب رہتا، اختتام پر پانی اسی طرح رہتا‘ جیسے لہریں پیدا ہونے سے پہلے‘ ہموار اور خاموش رہتا تھا۔چاروں طرف شور برپا تھا کہ پاکستان ‘یواین میں کوئی دھماکہ کرنے والا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کو بلایا ہی اس لئے گیا ہے کہ نیا دھماکہ کرنے سے پہلے خطاب اور موضوع پر پوری طرح سے تیار کر کے انہیںواپس بھیجا جائے۔ اس وقت کی فضا یہ تھی کہ پاکستان نئے انداز میں سلامتی کونسل کے سامنے تنازع کشمیر پیش کر کے بھارتیوں کے چھکے چھڑا دے گا اور ہم وہاں وہ کچھ حاصل کر کے آئیں گے‘ جو پچھلے کئی عشروں کے دوران حاصل نہیں کر سکے۔ میاں خورشید محمود قصوری‘ جو برصغیر کے سیاسی امور کا گہرا شعور رکھتے ہیں‘ وزیرخارجہ کی حیثیت میں یو این کے ماحول کو اچھی طرح سے جانتے ہیں‘ خود تجربے سے گزرے ہیںکہ ان کی حکومت نے ان سے کہا تھا کہ آپ جائزہ لے کر بتائیں‘ تنازع کشمیر کو دوبارہ یو این میں اٹھا کر ہم کیسا طوفان پیدا کر سکتے ہیں؟ میاں صاحب نے تمام قابل ذکر ممالک کے نمائندوں سے بات چیت کی، ذاتی تعلقات کی بنا پر قابل ذکر ملکوں کے نمائندوں سے تبادلہ خیال کیا۔ واپس آ کر اسلام آباد کو رپورٹ دی کہ ''جو بھرم رہ گیا ہے‘ اسی میںکام چلاتے رہیں۔ہم خود یہ مسئلہ لے کر سلامتی کونسل میں گئے‘ تو کشمیر یو این کے ایجنڈے ہی سے نکل جائے گا۔عزت اسی میں ہے کہ دستیاب حالات کے اندر سے راستے کی تلاش میں رہیں۔ جب ہم بھارت سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں آئیںگے‘ تو دستیاب راستہ اختیار کر لیں گے۔‘‘
اس وقت اللہ جانے کون سی غیبی لہر اٹھی تھی کہ لکھتا اور بولتا ہوا‘ میڈیا پوری طرح چڑھائی پر تھا۔ خود ڈاکٹر صاحبہ جو اعلیٰ پائے کی صحافی رہی ہیں‘ انہوں نے بھی یہی بیان دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں، میں صرف جنرل اسمبلی کے آنے والے ‘سالانہ اجلاس میں پاکستانی موقف پر وزیراعظم اور وزارت خارجہ کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے آئی ہوں تاکہ وزیراعظم کی تقریر کے لئے تازہ ترین عالمی حالات کی روشنی میں ان پٹ دے سکوں، مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنے رازوں سے بھرے پیٹ سے کئی کئی ڈکاریں لینے کے بعد‘ اپنی طبیعت ٹھیک کرتا اور سونے کے لئے گھر کی راہ لیتا۔ ویسے ہم پاکستانی سونے جاگنے کا تکلف ہی کرتے ہیں۔ سو تو ہم 1958ء میں گئے تھے، اس کے بعد کبھی جاگنے سونے کی ضرورت ہی نہیںپڑی۔ صرف سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت نیند ذرا سی خراب ہوئی تھی، اس کے بعد ‘دوبارہ گہری ہو گئی۔میں بسترعلالت
پر پڑا ‘روز دیکھتا رہا کہ سلامتی کونسل میں دھماکہ کب ہوتا ہے؟ دن گزرتے گئے۔ نوازمودی رابطے ہوتے رہے۔ شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں پاکستان اور بھارت کو شامل کرنے کا جو فیصلہ ڈیڑھ دو سال پہلے ہو گیا تھا‘ اس پر کسی دھوم دھام کے بغیر چپکے سے عملدرآمد ہو گیا اورجاننے والے جان گئے کہ روس کے ساتھ باہمی تعاون کی ایک تنظیم میں ‘شامل ہو کر ہمارے ساتھ کیا واردات ہو گئی ہے۔ ایسی تنظیموں میں بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ تمام اراکین مشترکہ مسائل پر بات چیت کریں گے۔ دو رکن ملکوں کے باہمی تنازعے کا ذکر نہیں آئے گا، حتیٰ کہ دو طرفہ ملاقاتوں میں بھی باہمی تنازع پر بات نہیں ہو گی اور ہو بھی گئی تو اس کی نوعیت نجی ہو گی۔ یہ انٹرنیشنل تنظیموں کا ایک طے شدہ اصول ہے اور ہمارا لکھتا بولتا بلکہ دھاڑتا میڈیا‘ کانفرنس کے بعد‘ جس طرح پنجے جھاڑ کے نوازشریف پر حملہ آور ہوا‘ اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بہت بڑی بھول کربیٹھے ہیں۔ ہماری ایک علاقائی تنظیم سارک کے نام سے کام کر رہی ہے، اس کی متعدد کانفرنسیں ہو چکی ہیں، ان میں سربراہان مملکت شریک بھی ہوتے ہیں، مشترکہ اجلاس بھی کئے جاتے ہیں۔ وہاں پرتو ہم باہمی مذاکرات کے بعد‘ جاری ہونے والی کسی دستاویز میں‘ کشمیر کا نام تک نہیں لا سکے اور یہاں پر شور مچا دیا گیا کہ ہمارے وزیراعظم نے کشمیر کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ خوش فہمی کی انتہا دیکھئے کہ ہم نے ایک ایسی تنظیم کی رکنیت لی ہے‘ جس میں روس انتہائی بااثر پوزیشن رکھتا ہے۔یہ دنیا کی واحد ویٹو پاور ہے‘ جس نے مسئلہ کشمیر کوویٹو کر کے‘ اس کا بستہ ہی بند کر دیا تھا۔ ویٹو کا استعمال سوویت یونین نے کیا تھا‘ جو بعد میں تتربتر ہو گیا، اس کا قائم مقام روس بنا، اس نے عالمی مسائل پر جو موقف بھی اختیار کیا تھا‘ اس پر آج بھی قائم ہے۔یہ جاننے کے لئے کہ روس مختلف ملکی تنظیموں میں کیا موقف اختیار کرے گا؟ محض چٹکی بھر عقل کی ضرورت ہے۔ مگر ہم اپنی نوعیت کی انوکھی مخلوق ہیں، ہر غلط جگہ چٹکی کا استعمال کرتے ہیں‘ ماسوا عقل کے۔ درگت بھارتی وزیراعظم کی بھی اسی طرح بنائی جا رہی ہے‘ جیسے ہم اپنے
وزیراعظم پر چڑھ دوڑے ہیں۔ میں کانفرنس کے دوران دونوں وزرائے اعظم کی پرفارمنس پر برستے تبّروں اور چڑھتی آستینوں کو دیکھتے دیکھتے بہت ڈرا۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا، پاکستان اور بھارت دونوں کے ٹی وی چینلز پر پاکستانی اور بھارتی شرکائے بحث، یوں بات کرتے ہیں جیسے چھاجوں سے چھاج ٹکرا رہے ہوں۔اس طرح کے مناظر دیکھ کر‘ شاید آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر دنیا کو کبھی‘ کسی زمانے میں ‘ایٹمی جنگ کا سامنا ہوا‘ تو اس کی ابتدا یہی دو ملک کریں گے، پاکستان اور بھارت۔ اس کے بعد جتنی دنیا بچے گی‘ وہ امن‘ سکون اور آرام کی زندگی گزارے گی۔ ہماری خیر اسی میں تھی کہ ہم ایٹم بم نہ بناتے اور جب کبھی جنگ کا مروڑ اٹھتا‘ تو جوتوں سے کام چلا کر ٹھنڈے پڑ جاتے۔ امن سے رہنا ہمارے مزاج میں نہیں۔ قائد اعظمؒ نے سوچا تھا کہ ہندو اور مسلمان‘ الگ ہو کر امن سے رہ لیں گے۔ ان کی تدبیر الٹی پڑ گئی۔ پہلے صرف ہندو اور مسلمان لڑتے تھے اور جب آزادی حاصل کر کے‘ دو ملک معرض وجود میں آ گئے‘ تو لڑنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز تیزی سے اضافہ ہو گیا۔ پہلے بنگالی اور غیر بنگالی پاکستانی لڑے۔ اس پر بھی چین نہ آیا‘ تو بلوچ اور پنجابی لڑے، یہ فارغ نہیں ہوئے تھے کہ سندھی اور مہاجر ایک دوسرے پر پل پڑے اورہرپل پڑتے ہیں۔ اب پنجابی اور سرائیکی جسم پر تیل مل کے ڈنڈ بیٹھکیں لگانے میں جتے ہیں، کسی بھی وقت زورآزمائی شروع کر دیں گے۔ پختون ‘ اللہ کی انوکھی مخلوق ہیں، انہیں لڑنے کے لئے دوسری قوم کی ضرورت نہیں، آپس ہی میں ٹکراتے رہتے ہیں۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر کے‘ فوراً ہی اپنے لئے نیا دشمن پیدا کر لیا تھا ۔ وہ انصاف کر لیتا تو دو تین بریگیڈ رکھ کر کام چلا سکتا تھا۔ اب وہاں 7لاکھ سے زیادہ فوج متعین کر کے بیٹھا ‘ اس میں مزید اضافے کا سوچ رہا ہے۔ امن پھر بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ بھارت چونکہ بڑا ہے‘ لہٰذا اس نے ہمارے مقابلے میں اندرونی لڑائیوں کی تعداد بڑھا چڑھا کے رکھی۔ وہاں کی اٹھارہ بیس ریاستوں میں طرح طرح کی لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ کہیں علاقائی، کہیں نسلی، کہیں مذہبی، کہیں چھوت چھات۔ غرض بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے۔قائداعظمؒ بھلے زمانوں میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے‘ تو یہ ضرور سوچتے کہ میں نے دو قوموں کو الگ کر کے کیسا امن پایا؟ جس کی جگہ جگہ دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔اوپر سے ظلم یہ ہوا کہ جو دو ملک بنائے تھے‘ وہ ایٹمی ہو گئے۔ بندر بھی بائولے ہو جائیں‘ تو ہو سکتا ہے آپس میں برصغیر کے رہنے والوں کی طرح لڑائیاںکر لیں، مگر ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایٹم بم کبھی نہیں بنائیں گے۔ہماری طرح یہ کرتوتیں اور ایٹم بم ؟میری علالت کے ان دنوں میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے دیکھ کر سوچتا رہتا ہوں ‘ علیل کون ہے؟