تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     17-07-2015

فوج اور سوموٹو

تب اداروں کے درمیان موجودہ تناؤ کا منظر نامہ سامنے نہیں تھا۔ میں نے جولائی کے اختلافی نوٹ میں کہا۔ ''عدلیہ، انتظامیہ، پارلیمنٹ سمیت تمام اداروںکو مخاطب کر کے کہہ رہا ہوں وہ آئین میں متعین کردہ حدود کا خیال کریں۔ہم پہلے ہی بہت تجربات کر چکے۔ادارے تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں‘‘۔ 
پسِ منظر میرے سامنے تھا اور چند بڑے مقدمات کی وجہ سے تصادم کی اطلاعات بھی ۔اگلی بات کہنے سے پہلے ذرا اداروں کے تصادم کی تاریخ دیکھ لیں۔یہ تاریخ بد قسمت بھی ہے،دلچسپ مگر داؤ پیچ سے بھرپور۔اس کا آغاز پاکستان بننے کے پہلے عشرے میں ہی ہو گیا۔ تمیز الدین کیس کے دوران فوج اور عدلیہ ایک صفحے پر نظر آئے۔اس کے بعد سیاسی مولوی شامل ہوئے اور ٹرائیکا کا اتحاد بن گیا۔دوسری جانب لنگڑا ،لولہ پارلیمان ،ڈھیلا ڈھالا دستور،مفلوج سی انتظامیہ اور بکھرے ہوئے سیاستدان اقتدار کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔عدلیہ،عساکر اور سیاسی مُلّا اِزم پر مشتمل اتحاد نے پاکستان کی سیاست کو بیوہ بنا کر چھوڑا۔بے وارث اور بے آسرابیوہ ، مُشٹنڈوں کے درمیان پھنسی ہوئی ۔
سکندر مرزا ،ایوب خان،یحییٰ ،ضیاء الحق اور مشرف کے سارے اقدامات پر عدلیہ کے مقدس چوغے کا پردہ پڑ گیا ۔اس لیے آئین توڑنے والے ہیروبنے جبکہ آئین بنانے والے انہی عدالتوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ظفر علی شاہ کیس،نصرت بھٹو کیس کے بعد اسی تاریخ کا المناک تسلسل ہے۔پوٹھوہار کے وکیل نے نوازحکومت کی رخصتی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔تب جسٹس رفیق تارڑ ملک کے صدر تھے اور مشرف چیف ایگزیکٹو۔جج صاحب اس وقت تک صدر ہی رہے جب تک مشرف نے انہیں جبراً بے دخل نہ کیا۔ان کی رخصتی کا منظر وزیراعظم ہاؤس سے ظفراللہ جمالی کی رخصتی جیسا تھا۔دونوں میں فرق صرف اتنا کہ صدر تارڑ کو ''بائے روڈ‘‘ بھیجا گیا اور ظفراللہ جمالی کو ''بائے ٹرین‘‘۔ تارڑ نے چُپ کا روزہ نہیں توڑا لیکن جمالی پنڈی سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہی پھٹ پڑے۔ظفراللہ نے ایک شریر رپورٹر کے سوال کے جواب میں شوکت عزیز کو یہ دعا دی۔خدا کرے شوکت عزیز بھی میری طرح ''باعزت‘‘ رخصت ہو۔
ہمارے سکول کے زمانے میں مزاحیہ رسالہ ''چاند‘‘ نکلا کرتا تھا۔میرے مرحوم والد ملک علی حیدر وہ رسالہ اہتمام سے میرے لیے لاتے۔تب ہماری رہائش گاہ جامع مسجد روڈ راولپنڈی پر ہو ا کرتی تھی۔چاند کے ایک شمارے میں سرکار کے ایک ملازم کے بارے میں کارٹون چھپا‘جس میں دومناظر دکھائے گئے تھے۔پہلے منظر میں ملازم دوستوں سے کہتا ہے: ''میں با عزت طریقے سے نوکری کو لات مار کے آیا ہوں‘‘۔ کارٹون کے دوسرے منظر میں اسی ملازم کی پشت دکھائی گئی۔جس پر اس کو پڑنے والی لات اور جُوتے کا نشان پڑا ہوا تھا۔جمالی صاحب آج بھی ملکی سیاست کا حصہ ہیں جبکہ شوکت عزیز اپنے عزیز ''بریف کیس‘‘ کے سائے تلے نشان سمیت باعزت رخصت ہوا۔
تصادم کا جدیدمنظر ماضی سے مختلف ہے اور اس کی وجوہ بھی۔بدقسمتی کے علاوہ کیا کہا جائے پاکستان کی فوج ،آئی ایس آئی ، سکیورٹی اداروں کے تخفظ کے لیے بننے والی ''وزارت دفاع‘‘ کا انچارج وزیر ان اداروں کو اپنا ولن سمجھتا ہے۔پھر یہ حقیقت کون نہیں جانتا یہی وزیر سیاسی و کاروباری طور پر وزیراعظم ہاؤس کا ''باشندہ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔اس نے جب بھی فوج کے خلاف منہ سے آگ برسائی اپنی حکومت میں اس کی پزیرائی بڑھ گئی۔وزیر اطلاعات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔پچھلے سال کہا: ہم ''غلیل‘‘ والوں کے ساتھ نہیں۔تازہ ارشاد فرمایا: آبپارہ والی پارٹی ختم ہو گئی۔آبپارہ میں آئی ایس آئی کے صدر دفتر کی طرف اشارہ تھا۔کشمیریوں کے ''مجاہدِ آخر‘‘، ہمارے وزیراعظم نے کشمیر میں کھڑے ہو کر اپنی ہی فوج کے مظالم بیان کیے۔یوں لگا جیسے قابض بھارتی فوج کشمیریوں کی نجات دہندہ ہے اور ظالم ہم سارے۔وزیر دفاع نے اسی ہفتے اپنے وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ کی راہ پر چل کر بھارت کو سال کا سب سے بڑا ریلیف دے دیا۔را کے سابق سربراہ مسٹر دلت نے دو موضوعات پر اقبالِ جرم کر رکھا تھا۔پہلا،بھارت کراچی کی ایک تنظیم کو پیسے دیتا ہے اور کشمیر میں بھی۔دوسرا،پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانے والے برطانیہ کی ''سپائی ماسٹر‘‘M-6کے مہمان ہیں ۔الطاف حسین کے بیانات پر گرفت شروع ہے۔ وہی تنقید ویسے ہی لفظوں میں پاکستان کے وزیر دفاع نے آئی ایس آئی کے دو ریٹائرڈ سربراہوں جنرل شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام پر کر دی۔ ایسا الزام لگایا جیسا جنرل مشرف پر ٹرائل ہو رہا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے حکومت صرف مشرف کے ٹرائل پر راضی نہیں۔ چاہتی ہے جنرل پاشا اور جنرل ظہیر کو بھی ''اِن دی لائن آف فائر‘‘ کھڑا کیا جائے۔ وزیر دفاع نے دفاعی اداروں پر منتخب حکومت سے بغا وت کرنے کا الزام لگایا ۔یہ بیان کسی رپورٹر کا نہیں‘ دو ٹی وی چینل اسے نشر کر چکے۔بیان انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے ۔ مؤقر انگریزی روزنامہ نے اسے جَلی حروف میں بڑی خبر کے طور پر شائع کیا۔اب یہ خبر ساری دنیا میں چھپتی رہے گی۔دفاعی اداروں کی وزارت کے سربراہ نے نوازحکومت کے خلاف ''لندن پلان 2014ء‘‘ کوآئی ایس آئی کے ان سربراہوں کی مشترکہ تخلیق قرار دیا۔وزیر دفاع نے ایک اور ڈرون یوں چلایا کہ منتخب حکومت کے خلاف جنرل ظہیر نے جو کردار ادا کیا اس سے قومی مفاد National interestمجروح ہوا۔ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا جنرل ظہیر لندن پلان میں اس لیے شامل ہوئے کہ وہ حکومت سے ناراض تھے۔مزیدکہا: میڈیا بھی حکومت کے خلاف استعمال ہوا۔
یہ وکا لت نامہ میںنے سپریم کورٹ کے لائبریری روم کے میز پر لکھنا شروع کیا ۔اب اپنے لاء چیمبر کی لائبر یری میں ہوں۔آئین کا آرٹیکل 6میرے سامنے کھلا پڑا ہے۔
High treason. 6. (1) Any person who abrogates or subverts or suspends or holds in abeyance ,or attempts or conspires to abrogate or subvert or suspend or hold in abeyance ,the constitution by use of force or show of force or by any other unconsitutitional means shall be guility of high treason. 
(2) Any person aiding or abetting [or collaborating] the acts mentioned in clause (1) shall likewise be guility of high treason. 
آرٹیکل 6کی زبان سامنے ہے۔وزیر دفاع نے فوج کے خلاف اپنی مشہورِ زمانہ تقریروں کو درست کہہ کر ان کا بھی دفاع کیا۔آرٹیکل 6 کے اکلوتے ملزم جنرل مشرف ،فوج پر تنقید کے اکلوتے ملزم الطاف حسین اور وزیر دفاع کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان میں دو اُردو والے ہیں اور ایک پنجابی‘ بلکہ دو پنجابی ایک اردو والا۔ بڑے، مہاجر لیڈر کے والد بھی پنجابی ہیں۔بورے والا،عارف والا میں ان کے عزیز اور دوست اس کی تصدیق کریں گے۔
تاریخ بتاتی ہے آرٹیکل 6لاہور جاتے ہوئے پوٹھوہار کے ترکّی پہاڑوالی چڑھائی کبھی نہیں چڑھ سکا۔ سیالکوٹ پہنچتے تو اس کی سا نس پھول جائے گی۔جب مشرف کو پکڑا گیا جرم قابلِ ضمانت تھا ۔آزاد عدلیہ نے ٹرائل دہشتگردی کی عدالت میں بھجوا دیا۔یوں لگتا ہے ایشیا کا مقدس ترین شہر لاہور اور مقدس ترین سیاستدان اس کے ارد گرد بستے ہیں۔جہاں نہ کرپشن ،نہ لاقانونیت ۔نہ میرٹ کی دھجّیاں اڑتی ہیں۔پھر کسی دیوانے کا قلم سوموٹو نوٹس کا مطالبہ کیو ںکرے...؟
انصاف، توہینِ عدالت کے کافی مقدمات میں مصروف ہے۔ پاکستان کے آئین کا منہ کُھلا ہے۔ آرٹیکل 63کی ذیلی دفعہ 1(G)کہتی ہے ''اگر کوئی فوج کو بدنام کرے یا اسے تضحیک کانشانہ بنائے تو وہ پبلک عہدے کے لیے اہل نہیں‘‘۔ 
ہر معرکے میں جرأتِ رندانہ چاہیے
کوئی تو شہ دماغ بھی دیوانہ چاہیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved