تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     17-07-2015

پشاور کی غم زدہ مائیں اور پہلی عید!

پشاور کے ناقابل فراموش اور دلخراش سانحے کے بعد پہلی عید آ رہی ہے۔ جس قوم کے ساتھ پشاور جیسا سانحہ ہوا ہو، اسے یہ سوچنا چاہیے کہ پہلی اجتماعی خوشی کو کیسے منایا جائے۔ قومی اور سرکاری سطح پر اس کا اعلان ہونا چاہیے کہ اس عید کو شہید بچوں کی مائوں کے نام موسوم کر دیا جائے۔
روایتوں اور رسموں سے جُڑے ہوئے معاشرے میں جہاں خوشیوں کے رسم و رواج پر عمل ہوتا ہے وہیں مرگ کے حوالے سے بھی روایتیں موجود ہیں۔ مثلاً آپ تائید کریں گے کہ ہمارے ہاں یہ روایت موجود ہے کہ خاندان میں جس گھر میں مرگ ہو جائے، پہلی آنے والی عید کو خاندان کے لوگ ان کے ہاں ڈھارس اور تسلی کے لیے جاتے ہیں۔ جانے والے کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ بھی پڑھتے ہیں اور لواحقین کے لیے تحفے تحائف بھی لے کر جاتے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت روایت ہے جس میں دکھوں کو سانجھا سمجھ کر محسوس کیا جاتا ہے۔ غم سے نڈھال دلوں کو یقینا اس سے ڈھارس ملتی ہے۔ دکھ اور درد تو اپنی جگہ موجود رہتے ہیں مگر یہ تسلی ضرور ہوتی ہے کہ دکھ کی گھڑی میں اپنے لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
موت تو زندگی کے تعاقب میں ہے اور ہم سب کے خاندانوں میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی گھر میں، موت کے وار کے بعد جدائی اور غم کا ماحول ہو گا۔ ایسے میں عید کی دعوتوں کے ساتھ ساتھ یہ اچھی روایت بھی نبھائی جائے گی کہ لوگ ان گھروں میں بھی ضرور جائیں جہاں غم اور درد کی پرچھائیاں ہیں اور لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے بعد پہلی عید پر غم سے نڈھال ہیں۔ بچھڑنے والوں کی کمی شدت سے محسوس کرنے کی اس روایت کو سامنے رکھیں اور پھر سوچیں کہ کیا سانحہ پشاور ہمارا دکھ نہیں ہے۔؟ کیا پشاور کی مائوں پر گزرنے والی قیامت کسی نہ کسی طور ہم پر بھی نہیں گزری۔؟ کیوں بھول گئے ہم اتنی جلدی اس خون آشام دن کو جب ہمارے مشترکہ دشمن نے مائوں کے شہزادے درندگی سے شہید کر دیئے۔
محبتوں اور ریاضتوں سے پالے ہوئے سنہرے سجیلے وجود کس بہیمانہ طریقے سے گولیوں سے بھون دیئے گئے۔ ایک قیامت سی قیامت تھی جو وطن عزیز پر گزر گئی اور اس وقت کوئی ایسی آنکھ نہ تھی جو نم نہ ہوئی ہو۔ مائیں تو گھروں میں اس سانحے پر پھوٹ پھوٹ کر روتی رہیں۔ ہر اہل درد نے دکھ کی اس پھانس کو محسوس کیا۔ اس ملک میں جہاں آئے روز سانحے ہوتے ہوں‘ جہاں ٹی وی پر خبریں پیش کرنے والے نیوز اینکرز روز ہی بم دھماکوں کی خبریں اپنے مخصوص پروفیشنل انداز میں پڑھنے کے عادی ہوں وہاں شاید یہ پہلی بار ہوا کہ پشاور کی مائوں پر گزرنے والی قیامت کو بیان کرتے ہوئے نیوز اینکرز بھی ٹی وی پر رو پڑیں۔
16 دسمبر کی تاریخ کے ساتھ سانحہ مشرقی پاکستان کی تلخ یادیں بھی وابستہ ہیں۔ مگر اب 16 دسمبر کے ساتھ سانحہ پشاور کا خیال آتا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ یہ سانحہ پاکستان کو بدل کر رکھ دینے والا ہے۔ منو بھائی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پاکستان ٹوٹنے کا دکھ بھی دیکھا مگر اس عمر میں سانحہ پشاور نے انہیں توڑ کے رکھ دیا ہے۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اس سانحہ کو صرف اس وقت تک یاد رکھا جب تک سانحے کی فالو اپ رپورٹس آتی رہیں۔ یعنی صرف ٹی وی چینلز اور اخبار کی خبروں نے اسے تازہ رکھا۔ کیا ہمارے دل احساس اور درد کے رشتے سے عاری ہیں جہاں اس دکھ کے نام پر کوئی چراغ نہیں جلا۔! ہاں 2005ء کو زلزلہ کے بعد آنے والی عید ایسی تھی جب پاکستان میں لوگوں نے اجتماعی دکھ کو اس قدر محسوس کیا تھا کہ اپنی انفرادی خوشیوں کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی عید شاپنگ بھی زلزلہ متاثرین کے نام کر دی تھی اور لاہور کے ہسپتالوں میں جہاں کشمیر سے آنے والے زلزلہ متاثرین زیر علاج تھے عید کے روز وہاں لاہوری، سویوں کے ڈونگے اٹھائے، عید کے تحائف لیے قطاروں میں زلزلہ متاثرین کو ملنے کے لیے کھڑے تھے۔ یہیں ایک زندہ قوم کا وتیرہ ہوتا ہے کہ دکھوں کو اجتماعی طور پر محسوس کرے اور خوشیاں بھی اجتماعی انداز میں منائی جائے۔
سانحہ پشاور کے بعد آنے والی اس پہلی عید میں یہ جذبہ مفقود دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اہتمام قومی سطح پر ہونا چاہیے تھا۔ حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہو تاکہ اس عید کو پشاور کے شہید طلباء اور ان کی غم سے نڈھال مائوں کے نام کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عید کے روز چند گھٹنے ضرور پشاور میں گزاریں اور ایک تقریب میں شہید بچوں کے لواحقین کو مدعو کریں۔ وزیراعظم ایک طرح سے پوری قوم کی نمائندگی کر کے دنیا کو بھی یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ عید کی خوشیوں میں بھی وہ قوم پر گزرنے والے عظیم سانحے کو نہیں بھولے۔ شہید بچوں کی مائوں کے دکھ کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا مگر اس طرح کم از کم انہیں یہ احساس ضرور ہو گا کہ قوم بھی ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ رہی ہے۔ ان کے غم سے نڈھال دلوں کو کسی حد تک تسلی دیے اور ڈھارس بندھانے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت خصوصاً چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو خصوصی طور پر ایسی تقریبات کا اہتمام کرنا چاہیے جہاں وہ شہید بچوں کے والدین کے ساتھ مل بیٹھیں۔ ٹی وی چینلز کو بھی اپنے پروگراموں میں اس سانحے کو مرکزی حیثیت دینی چاہیے۔ یوں ایک پورا ماحول بنے گا جس میں شہید بچوں کے والدین کو یہ پیغام جائے گا کہ آج اگر ان کی نم آنکھیں اپنے بچھڑنے والے بچوں کو ڈھونڈ رہی ہیں اور ان کے دل جدائی سے بوجھل ہیں تو ان کے پاکستانی بہن بھائی اس دکھ کو محسوس کر رہے ہیں‘ جو قربانی ان کے بچوں نے اس ملک کے لیے دی ان کے ہم وطن اس عظیم قربانی کا احساس رکھتے ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سلام کہ وہ اس رمضان المبارک میں کم از کم تین بار شہید بچوں کے والدین سے ملے اور اس طرح انہیں احساس دلایا کہ وہ دکھ کی اس گھڑی میں اکیلے نہیں ہیں۔ اس عید پر پاک فوج کے ان بہادر جوانوں کو بھی یاد رکھیں جو اپنی سنہری جوانیاں وطن عزیز پر نچھاور کر کے ہمارے لیے ایک مضبوط پاکستان بنا رہے ہیں اور آخر میں ایک انگریزی نظم کا مفہوم اس موضوع کے حوالے سے: 
غم زدہ ماں کے درد کو تم کبھی نہیں جان سکتے
وہ سانس لیتی نظر آتی ہے مگر اصل میں مر چکی ہے
وہ بولتی، کھانا پکاتی، کام کرتی دکھائی دیتی ہے
مگر اس کا دل سسکیاں بھرتا رہتا ہے اور 
بن روئے آنسوئوں کی بارش میں بھیگتا رہتا ہے
اس کا وجود مکمل دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت
اس کے جسم کا ایک حصہ دور کسی قبر میں دفن ہو چکا ہے!
وہ سانس لیتی نظر آتی ہے مگر اصل میں مر چکی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved